ویمنز ٹیم کا ایسا حال کیوں ہوا؟

سلیم خالق  منگل 18 جولائی 2017
ابھی ورلڈکپ جیسے ایونٹس میں شرکت دوسروں کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم کرنے کے ہی مترادف ہے۔  فوٹو : فائل

ابھی ورلڈکپ جیسے ایونٹس میں شرکت دوسروں کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم کرنے کے ہی مترادف ہے۔ فوٹو : فائل

’’ہپ ہپ ہرے ہماری ٹیم جیت گئی‘‘

’’واہ کیا پرفارمنس ہے،کچھ نہ کچھ کریڈٹ تو مجھے بھی جاتا ہے‘‘

قارئین مینز چیمپئنز ٹرافی میں فتح کے بعد آپ نے بورڈ کی اعلیٰ شخصیات کی جانب سے ایسی ٹویٹس اور اخباری بیانات ضرور دیکھے ہوں گے، مگر اب ویمنز ٹیم کے ہارنے پر کوئی سامنے نہیں آ رہا ، سینئر صحافی آصف خان نے بھی اپنی ٹویٹ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ جب فتح کا کریڈٹ لیتے ہیں تو شکست کی ذمہ داری بھی قبول کریں مگر افسوس کسی اعلیٰ عہدیدار میں اتنا ظرف موجود نہیں، کم از کم اتنا ہی کہہ دیتے کہ’’کارکردگی خراب رہی، آئندہ اچھا کھیل پیش کرنے کی کوشش کریں گے‘‘ مگر ایسا بھی نہ ہوا، بس چیئرمین شہریارخان کا ایک انٹرویو آیا جس میں انھوں نے سارا ملبہ کوچ صبیح اظہر پر گرا دیا ۔

جن سے شاید توقع تھی کہ جس طرح ایک فلم میں شاہ رخ خان نے لڑکیوں کی ہاکی ٹیم کا جذبہ جگا کر اسے چیمپئن بنا دیا تھا وہ بھی کر گذریں گے مگر فلموں اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، سفارشی کلچر ہمیشہ کامیاب نہیں رہتا، افسوس 8 ٹیموں میں ہماری ویمنز کرکٹ ٹیم سب سے آخری نمبر پر رہی،خوش قسمتی سے خود سے میچ نہیں ہو سکتا تھا ورنہ آٹھویں مقابلے میں بھی شکست ہی ہاتھ آتی،درحقیقت بورڈ نے کبھی ویمنز کرکٹ کو دل سے نہیں اپنایا ورنہ اس کا یہ حال نہ ہوتا، آپ اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ وطن واپسی کے بعدبعض پلیئرز موٹر سائیکل پر گھر واپس گئیں، کوئی بورڈ آفیشل ایئرپورٹ پر موجود نہیں تھا، ٹیم جیتے یا ہارے اسے عزت دینا تو پی سی بی کا فرض ہے مگر افسوس ہار پر کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

ہماری ویمنز ٹیم برسوں سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہی ہے، اب تو کھلاڑیوں کو اچھا معاوضہ بھی ملتا ہے مگر ان کی تربیت کا وہ انتظام نہیں جو عالمی سطح پر موجود ہے، جس ٹیم کا انتخاب کرنے والا چیف سلیکٹر خود سفارش پر آیا ہوں وہ پلیئرز کی کیا خاک میرٹ پر سلیکشن کرے گا، محمد الیاس کو بطور کرکٹر شاید آپ لوگ نہ جانتے ہوں، ہاں اگر میڈیا میں گھن گرج کے ساتھ بیانات دینے کی بات آئے تو شاید لوگ کہیں ’’ارے ہاں وہ الیاس‘‘ جی ہاں میں انہی کا ذکر کر رہا ہوں، بورڈ حکام ان کے بیانات سے سخت تنگ تھے،اس لیے نوازا جانے لگا، حالانکہ2011میں بطور مینز سلیکٹر انھیں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر معطل کیا جا چکا تھا، پھر ڈسپلنری کمیٹی کی سفارش پر وہ بحال ہوئے،2014میں انھیں ذکا اشرف نے چیف سلیکٹر مقرر کیا،بعد میں وہ جونیئر ٹیموں تک محدود ہو گئے مگر نجم سیٹھی نے چیئرمین بنتے ہی انھیں برطرفی کا پروانہ تھما دیا، جس پر الیاس نے عدالت میں کیس کر دیا۔

پھر معاملات طے ہونے پر انھیں کلب کرکٹ کوآرڈینیٹر کا علامتی عہدہ دے کر ہر ماہ تنخواہ سے نوازا جاتا رہا،اس کے بعد حکام نے گرجتی توپوں کا منہ بند کرنے کا بیڑا اٹھایا، الیاس تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے انھیں کیسے چھوڑا جا سکتا تھا لہذا ویمنزٹیم کا چیف سلیکٹر مقرر کر دیا گیا،پی سی بی کے دیگر اعلیٰ آفیشلز کے بعد اب وہ گزشتہ کئی روز سے انگلینڈ کی ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں،ان کے اپ گریڈڈ ورژن باسط علی بھی ویمنز ٹیم کوچ کے بعد اب جونیئر چیف سلیکٹر بنے ہوئے ہیں۔

ورلڈکپ میں ویمنز ٹیم کی کوچنگ کیلیے ایک بااثر شخصیت اپنے ’’برخوردار‘‘ صبیح اظہر کو سامنے لے آئی، وہ بدقسمتی سے انٹرنیشنل لیول پر کامیاب نہیں رہ پاتے،مجھے یاد ہے جب 2012میں انڈر 19ورلڈکپ کی کوریج کیلیے میں آسٹریلیا گیا تھا تب ہماری ٹیم آٹھویں نمبر پر رہی تھی، اس کے کوچ صبیح اظہر ہی تھے،انھیں خود ہی عجلت میں پیش کردہ یہ عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے تھا، اتنی جلدی وہ کیا کر سکتے تھے، اپنا ہی ریکارڈ خراب کیا، پلیئرز کی بھی ان سے ذہنی ہم آہنگی نہ تھی جس کی وجہ سے مسائل مزید بڑھ گئے۔

سچی بات یہ ہے کہ ایشیائی سطح کی حد تک تو پھر بھی بہتر لیکن عالمی سطح پر ہماری ٹیم ابھی مقابلے کے قابل نہیں ہوئی،اسے خوب تیاریاں کرانے کی ضرورت ہے،بورڈ 15سے 20 نوعمر لڑکیوں کو منتخب کر کے انھیں مکمل سہولیات فراہم کرے، ان پر 2،3 سال لگائے جائیں، پھر شاید کوئی بہتری آئے، ابھی ورلڈکپ جیسے ایونٹس میں شرکت دوسروں کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم کرنے کے ہی مترادف ہے، اسی کے ساتھ ویمنز کرکٹ کوسوتیلا نہ سمجھیں کہ کسی کو نوازنا ہو تو چیف سلیکٹر یا کوچ بنا دیا، اس کیلیے بھی پروفیشنلز کا تقرر کریں، سب سے اچھا تو غیرملکی کوچ کا تقرر ہی ہو گا جسے سلیکشن میں عمل و دخل کی بھی آزادی ہو ، وہ شاید میرٹ پر باصلاحیت کھلاڑیوں کو آگے آنے کا موقع دے۔ اسی طرح برسوں سے ٹیم پر قابض گروپ کو بھی اب گھر بھیجا جائے اور مستقبل میں گروپنگ سے بچنے کیلیے ٹھوس اقدامات کریں شاید اس سے کوئی بہتری آ جائے۔

آخر میں کچھ مینز ٹیم کا ذکر کر لیں، اس نے چیمپئنز ٹرافی جیتی یہ بات قابل فخر ہے لیکن سچی بات ہے کہ بعض خامیاں ٹرافی کی آڑ میں چھپ گئیں،اب کوئی اس کا ذکر کرے تو سب کی توپوں کا رخ اسی کی جانب ہو جائے، بہرحال بورڈ آفیشلز نے فتح کا خوب فائدہ اٹھایا، ہر کوئی کریڈٹ لینے سامنے آیا،چپڑاسی نے بھی شاید کہا ہو کہ ’’ میں نے سرفراز کو قذافی اسٹیڈیم میں چائے پلائی تھی یہ اسی کا اثر ہے‘‘ جس کا دور دور تک تعلق نہ تھا اس نے بھی بینک بیلنس بڑھا لیا لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس ایک ایونٹ پر کرکٹ ختم نہیں ہو گی، ویسے بورڈ نے بھی پورا اہتمام کیا کہ کئی ماہ اس جشن کو ہی منانے میں گذر جائیں اکتوبر تک کوئی سیریز نہیں ہے،ورلڈالیون آئی تو اس سے تین میچز ہو سکتے ہیں۔

بیٹھے بیٹھے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو زنگ نہ لگ جائے اسی لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے،سلیکٹرز کو تو اب بھاری انعام بھی مل گیا، بس بہت جشن منا لیا اب نئے آل راؤنڈرز اور پیسرز کی تلاش شروع کریں، کھلاڑیوں کو بھی اپنی فٹنس کا خیال رکھنا چاہیے، میں نے بعض پلیئرز کی حالیہ تصاویر دیکھیں وزن اچھا خاصا بڑھا ہوا نظر آ رہا ہے، میرا پوری ٹیم کو ایک مشورہ ہے کہ بھائی یہ پاکستان ہے یہاں کے لوگوں کا موڈ مزاج بدلنے کیلیے چند منٹ ہی کافی ہیں، ابھی ہر طرح سے واہ واہ ہو رہی ہے خدانخواستہ اگر اگلی سیریز میں نتائج اچھے نہ رہے تو یہی لوگ سب کچھ بھول کر برا بھلا کہہ رہے ہوں گے، لہذا اپنے قدم زمین پر رکھتے ہوئے فٹنس اور کھیل پر بھی توجہ دیں تاکہ کارکردگی کا معیار برقرار رکھا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔