70 برس میں ہمارے وزرائے اعظم کا مقدر

زاہدہ حنا  بدھ 2 اگست 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

پاناما مقدمہ چل رہا تھا تو کچھ لوگ یہ کہتے سنائی دیتے تھے کہ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ، اور آخر کار پردہ اٹھ گیا۔ وہ بڑے معصوم دوست تھے جنھیں 2017 میں یہ خوش گمانی تھی کہ فیصلہ جمہوری اداروں کی بالادستی کو مستحکم کردے گا۔ انھیں کتنی مایوسی ہوئی ہے، اس کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔

1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ اس کے 40برس بعد 2017 میں میاں نواز شریف عدالتی مہم جوئی کا شکار ہوئے۔ تیغوں کے سائے میں بھیجے جانے کا زمانہ رخصت ہوچکا ہے۔ اب کچھ مہرے آگے بڑھائے جاتے ہیں۔ ان سے دھرنے دلوائے جاتے ہیں اور جب محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کسی منتخب حکومت کو گھر بھیجنا ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسائل کا سبب بنے گا تو نیا راستہ چنا جاتا ہے۔ یعنی وہ راستہ جو حالیہ دنوں میں اختیار کیا گیا۔

وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ زمانہ بدل چکا ہے اور اب ایک ایسی سیاسی جماعت اور اس کے سربراہ پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا، جسے عوام کی بھاری اکثریت نے ووٹ دیا ہے، جس کی صوبہ پنجاب میں مضبوط حکومت ہے اور جس کے وزیروں اور مشیروں پر رشوت ستانی اور بدعنوانی کے بہ ظاہر بڑے الزامات سننے میں نہیں آئے ہیں، ایسا سوچنے والے جنت الحمقا میں رہتے تھے۔

یہ لوگ اس حقیقت کو فراموش کرچکے تھے کہ گزشتہ 70 برس کے دوران پاکستان کی مقتدر طاقتوں کو سیاستدانوں کی بالادستی کسی طور گوارا نہیں رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان 14 اگست1947کو عوامی ووٹوں سے وجود میں آیا لیکن اس کے وجود میں آنے سے پہلے ہی حکمران اشرافیہ اپنی طاقت اور قوت کا مظاہرہ اس طرح کرچکی تھی کہ اس نے بانی پاکستان اور ملک کے پہلے گورنر جنرل کی تقریر سنسر کردی تھی کیونکہ وہ اسے ’پسند‘ نہ تھی۔ درمیان میں اگر ڈان کے بنگالی نژاد ایڈیٹر الطاف حسین نہ ہوتے جنہوں نے اس ’سنسر‘ کو ماننے سے انکار کردیا تھا اور یہ دھمکی دی تھی کہ وہ اس کی اطلاع جناح صاحب کو دے دیں گے تو جناح صاحب کی زندگی کی سب سے موثر تقریر ردی کی ٹوکری میں پھینکی جا چکی ہوتی۔ الطاف حسین کی یہ دھمکی کارگر ہوئی تھی اور افسر شاہی کو سنسر کا اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔

تاہم، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس کے بعد سول اور ملٹری بیورو کریسی نے اپنے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا۔ حد تو یہ ہے کہ عددی اکثریت رکھنے والے بنگالیوں کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرتے ہوئے ہندوستانی فوج کے سامنے جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال دیے اور ملک دو لخت ہوگیا۔

پاکستان میں روزِ اول سے وزرائے اعظم کے مقدر میں قتل، قید، جلاوطنی اور رسوائی رہی ہے۔ یقین نہ آئے تو اس بات پر نظر کیجیے کہ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان 16 اکتوبر 1951 کو قتل ہوئے۔ اس کے فوراً بعد خواجہ ناظم الدین وزیراعظم ہوئے۔ 17 اپریل 1953 کو بیورو کریسی کے ایک نمایندے غلام محمد نے انھیں برطرف کردیا۔ محمد علی بوگرا نے 17 اپریل 1953کو وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ 11 اگست 1955 کو چوہدری محمد علی وزیراعظم ہوئے۔ 12 ستمبر 1956 کو حسین شہید سہروردی نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ 11 اکتوبر 1957 کو صدر جنرل اسکندر مرزا نے حسین شہید سہروردی سے استعفیٰ لے لیا، یہ وہ سہروردی تھے جو تقسیم سے پہلے اور اس کے بعد ایک نہایت مدبر اور موثر سیاستدان تھے۔

ہماری بنگالی اکثریت ان کی پشت پر تھی لیکن وہ دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیے گئے۔ بیروت میں وہ جس طرح مردہ حالت میں پائے گئے، اس کے بارے میں بہت سی سرگوشیاں سنی گئیں اور اسے نوکر شاہی کی سازش کہا گیا کیونکہ وہ دن بہت قریب تھے جب سہروردی صاحب متحدہ پاکستان کے ایک نہایت طاقتور عوامی رہنما کے طور پر سامنے آسکتے تھے اور شاید ملک کی تقسیم کی راہ میں بھی چٹان بن سکتے تھے لیکن کچھ لوگوں کو یہ گوارا نہ تھا۔

سہروردی صاحب سے استعفے لینے کے 7 دن بعد 8 اکتوبر 1957 کو آئی آئی چند ریگر وزیراعظم بنائے گئے۔ اس کے صرف 55 دن بعد 11 دسمبر 1957 کو آئی آئی چند ریگر نے اصولی اختلافات کی بنیاد پر استعفیٰ دے دیا۔ ان کے استعفیٰ کے 2 دن بعد 13 دسمبر 1957 کو فیروز خان نون نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ ان کی وزارت 8 اکتوبر 1958کو اس وقت ختم ہوئی جب پاکستان میں پہلی مرتبہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔

یہ پاکستانی تاریخ کے ابتدائی گیارہ برسوں کے دوران وزیراعظم ہونے والوں کی کہانی ہے۔ ان میں سے تمام کے تمام اسٹبلشمنٹ کی طرف سے بدعنوانی، نا اہلی اور نکمے پن کے الزام کی تلوار سے سربریدہ ہوئے۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ ان گیارہ برسوں کے دوران ملک کو ایک بھی ایسا وزیراعظم میسر نہ آیا جو اپنے منصب کا اہل اور بدعنوان نہ ہو۔

ملک پر پہلا مارشل لا مسلط ہوا تو جنرل ایوب خان کو سیاستدانوں سے اتنی پریشانی تھی کہ انھوں نے 21 مارچ 1959 کو پوڈا کا آرڈر جاری کیا۔ یہ 14 اگست 1947 سے نافذ العمل ہوا۔ اس کے تحت چلنے والے مقدمے میں فردِ جرم ثابت ہونے پر سیاسی عہدوں پر فائز افراد کو 15برس کے لیے نااہل قرار دیا جاتا تھا۔

’پوڈا‘ کے آرڈر سے بھی جب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو تشفی نہیں ہوئی تو 7 اگست 1959 کو جنرل ایوب خان نے سیاسی آزادیاں سلب کرنے اور سیاستدانوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ’ایبڈو‘ کا نفاذ کیا۔ اس کا اطلاق بھی ماضی میں جاکر 14 اگست 1947 سے ہوتا تھا۔ یہ وہ دو سیاہ قوانین تھے جنہوں نے پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کا ستھراؤ کردیا۔ اس کے بعد سیاست کے نام پر تیسرے درجے کے خوشامدی افراد ابھر کر آئے جنہوں نے جرنیلوں کی ہر بات پر آمنا وصدقنا کہا۔ ایک ایسی صورت حال میں آزاد اور اپنی رائے رکھنے والے سیاستدان کہاں سے پیدا ہوتے۔

1958 کے مارشل لا سے اب تک بر سر اقتدار آنے والے تمام وزرائے اعظم نا اہل اور بدعنوان ثابت کیے جاچکے ہیں۔ ان میں جونیجو، جمالی، بے نظیر بھٹو، گیلانی اور نواز شریف سب ہی شامل ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹوا سٹبلشمنٹ کے لیے بہت بڑا خطرہ تھے اس لیے عدالت سے ان کی پھانسی کا فیصلہ لیا گیا۔ بے نظیر بھٹو جری تھیں، جمہوریت پسند تھیں اور عوام میں مقبول تھیں۔ انھیں مجمع عام میں گولی  مار دی گئی۔ نواز شریف بہت بھاری مینڈیٹ رکھتے تھے اور اسٹبلشمنٹ کی ناروا باتیں ماننے کو تیار نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ملکی ترقی کے لیے سول حکومت کی بالادستی لازمی ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جن پر مقتدر طبقات کسی بھی طرح سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہوئے، چنانچہ نتیجہ سامنے ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ کا کہنا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کا فیصلہ کر چکی تھی اوریہ پاکستان کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ نواز شریف بھاری مینڈیٹ لے کر منتخب ہوئے تھے۔ لیکن ان کے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ خراب تعلقات کے سامنے اس مینڈیٹ کی کوئی حیثیت نہیں۔ نواز شریف کی نا اہلی کی یہ خبر نہ صرف پاکستان بلکہ پڑوسی اور مغربی ممالک کے لیے بھی کچھ اچھی نہیں۔ مزید کہا گیا کہ پاکستان کا کوئی بھی وزیراعظم 70 سالہ تاریخ میں اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔

پاکستان کے منتخب وزرائے اعظم کو مختلف طریقوں سے برطرف کیا جاتا رہا ہے، نواز شریف 2013ء میں عوام کا بھاری مینڈیٹ لے کر آئے مگر انھیں آئین کے آرٹیکل 62 ، 63 کے تحت نااہل کروایا گیا اور اقتدار پر براہ راست قبضہ کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کے ذریعے وزیراعظم کی چھٹی ہوئی۔ان دنوں چند محترم افراد کو ٹوکروں داد دی جارہی ہے اور ان کی سلامتی کے لیے نوافل ادا کیے جارہے ہیں۔ ایسے موقع پر بے ساختہ یہ بات یاد آجاتی ہے کہ کیا ان کے صادق اور امین ہونے کی گواہی دی جا سکتی ہے؟

آج جسٹس کارنیلیس یاد آتے ہیں جنہوں نے 10 مئی 1955 کو چیف جسٹس محمد منیر اور اپنے ساتھی ججوں کے نظریہ ضرورت کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں جس ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی پنیری لگائی تھی، وہ برگ و بار لاتی رہی اور آگے چل کر جمہوریت کے حق میں زہر ملی بوٹی ثابت ہوئی۔ جسٹس ایم آر کیانی یاد آتے ہیں۔ وہ صرف نام کے رستم نہیں تھے، نحیف و نزار ہونے کے باوجود رستم کا جگر رکھتے تھے اور جنرل ایوب کے پہلو میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے۔جسٹس غلام صفدر شاہ، جسٹس دور اب پٹیل اور جسٹس حلیم کی یاد آتی ہے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت سے اختلاف کیا تھا اور آج تک ان کا نام نہایت احترام سے لیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔