سوئس کیسز بند ہونے سے بے یقینی کی فضا ختم

ملک منظور احمد  منگل 12 فروری 2013
حکومت اور عدلیہ کے درمیان  ساڑھے چار برسوں تک محاذ آرائی اور تصادم کی فضا نقطۂ عروج پر رہی۔  فوٹو : فائل

حکومت اور عدلیہ کے درمیان ساڑھے چار برسوں تک محاذ آرائی اور تصادم کی فضا نقطۂ عروج پر رہی۔ فوٹو : فائل

اسلام آ باد: سوئس حکام نے بالآخر اپنے قوانین اور بینکاری قواعد و ضوابط کے تحت صدر مملکت آصف علی زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں میں مقدمات بند کرنے کے متعلق اپنے فیصلے سے حکومت پاکستان کو آگاہ کر دیا ہے۔

وزارت قانون کو ملنے والے خط میں سوئس حکام نے مقدمات دوبارہ نہ کھولنے کی وجہ صدر مملکت آصف علی زرداری کو بحیثیت صدر حاصل عالمی استثنیٰ بتایا ہے، پاکستان میں گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے یہ بحث جاری تھی کہ صدر مملکت کو استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں، ماہرین قانون کی اکثریت اس بات سے متفق تھی کہ دنیا بھر میں بشمول صدر پاکستان کو عالمی سطح پر استثنیٰ حاصل ہے مگر بعض لوگ اس دلیل اور منطق سے متفق نہیں ہوتے تھے، صدر مملکت کے سیاسی مخالفین بھی صدارتی استثنیٰ کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے، این آر او عملدرآمد کیس کی وجہ سے حکومت اور عدلیہ کے درمیان گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران محاذ آرائی اور تصادم کی فضا نقطۂ عروج پر رہی اور اکثر مواقعوں پر یہ قیاس آرائیاں ہوتی رہیں کہ ریاستی اداروں کے درمیان تصادم ہو کے رہے گا، این آر او عمل درآمدکیس کے تحت سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ طول پکڑتا گیا اور حکومت اور عدلیہ ایک وقت میں آنے سامنے تھے،این آراو عملدرآمد کیس کی بھینٹ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی چڑھ گئے اور عدالت عظمیٰ نے انہیں وزارت عظمیٰ سے فارغ کر کے 5 سال کیلئے سیاست سے نااہل قرار دے دیا، آج جبکہ سوئس حکام نے صدر کے استثنیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے یہ مقدمات بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے، سوئس حکام کے اسی فیصلے سے سابق وزیر اعظم کے موقف کی تائید ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کے ہی دوسرے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے سوئس حکام کو خط لکھ دیا اور یہ خط موجودہ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کی تجاویز پر لکھا گیا، غیر جانبدار سیاسی مبصرین آج بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر سوئس حکام کو خط لکھنا ہی تھا تو ایک منتخب جمہوری وزیر اعظم کی قربانی دینے کی کیا ضرورت تھی اور اتنا لیت و لعل سے کام لینے کی بھی کیا ضرورت تھی؟ لوگ آج بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کو خط لکھنے سے کیوں روکا گیا تھا، وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو خط لکھنے کا کہا گیا اور اب اسی خط پر سوئس حکام نے یہ مقدمات بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، بعض ماہر آئین یہ کہتے ہیں کہ مقدمات دوبارہ نہ کھولنے کی وجہ ان کا زائد المیعاد ہونا ہے، مقررہ میعاد کے خاتمہ کے بعد یہ مقدمات اب بند کر دیئے گئے ہیں، بعض ماہرین آئین یہ موقف رکھتے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری کو صدارت کے منصب سے فارغ ہونے کے بعد دوبارہ ان مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ صدارت سے فراغت کے بعد انہیں یہ صدارتی استثنیٰ حاصل نہیں رہے گا، بعض ماہرین یہ بات وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ سوئس قوانین کی رو سے یہ مقدمات اب دوبارہ کبھی بھی نہیں کھولے جا سکتے، سوئس حکام کی طرف سے یہ مقدمات بند کرنے کے فیصلے سے ایک مثبت پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ ان مقدمات کے دوبارہ کھولنے یا نہ کھولنے کے حوالے سے جو ملک بھر میں ایک بے یقینی کی فضا تھی اس کا اب خاتمہ ہو جائے گا، پیپلز پارٹی کے قائدین سوئس حکام کے اسی فیصلے کو صدر کی بے گناہی اور پاک دامنی سے تعبیر کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے یہ سوئس مقدمات بنائے گئے تھے اور اب وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بدعنوانی یا اختیارات کے ناجائز تجاوز میں ملوث نہیں، سوئس حکام کے فیصلے سے صدر آصف علی زرداری کو ایک بہتر موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کیلئے جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلے کریں۔

عام انتخابات کی آمد آمد ہے اورالیکشن کمیشن آف پاکستان کو متنازعہ بنانے کیلئے بعض جماعتیں سرگرم عمل ہیں، شیخ اسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی آئینی درخواست سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ڈاکٹر طاہر القادری کی آئینی درخواست میں اٹھائے گئے نکات کو اہم قرار دیا ہے، سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین کا کہنا ہے کہ اگر آئینی درخواست پر عام انتخابات ملتوی ہوئے تو ملک میں نیا سنگین بحران پیدا ہو جائے گا، یہ خدشات اور تحفظات ظاہر کئے جا رہے ہیں یہ معاملہ اب چونکہ عدالت میں ہے اور قرین قیاس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت جو بھی فیصلہ دے گی وہ آئین اور قانون کے مطابق ہو گا، چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم ایک تفصیلی بیان میں الیکشن کمیشن پر عائد کردہ تمام الزامات مسترد کر چکے ہیں اور یہ واضح کر چکے ہیں کہ تمام ممبران کی تعیناتی آئین کے مطابق کی گئی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔