گھر میں بھی ہر وقت کام کرتا رہتا ہوں ، ڈاکٹر عطاالرحمن

رضوان طاہر مبین / اشرف میمن  جمعرات 17 اگست 2017
قومیں سڑکیں بنانے سے نہیں، علم سے بنتی ہیں، ممتاز سائنس داں اور ماہر تعلیم ڈاکٹر عطاالرحمن کی کتھا . فوٹو : فائل

قومیں سڑکیں بنانے سے نہیں، علم سے بنتی ہیں، ممتاز سائنس داں اور ماہر تعلیم ڈاکٹر عطاالرحمن کی کتھا . فوٹو : فائل

والد چاہتے تھے کہ اُن کی اکلوتی اولاداُن کے ساتھ کپڑے کے کاروبار میں ہاتھ بٹائے، لیکن اُن کا میلان شروع ہی سے تحقیق کی سمت تھا، سو والد سے رخصت لی اور جدید سائنس کی طرف مرکوز ہوئے۔ اپنی محنت اور قابلیت کے جوہر دکھاتے ہوئے اپنے تعلیم یافتہ گھرانے کی علمی رِیت منور کر گئے۔ یہ ہمارے ملک کے ممتاز سائنس دان اور ماہر تعلیم ڈاکٹر عطاالرحمن کا ذکر ہے، جن کے والد نے  بٹوارے سے پہلے وکالت کو یافت کا ذریعہ بنایا، جب کہ  دادا سر عبدالرحمن 1930ء تا 1934ء دلی یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ رہے اور پاکستان آنے کے بعد سپریم کورٹ کے پہلے بنچ کا حصہ ہوئے۔

ڈاکٹر عطاالرحمن  نے 1942ء میں دلی میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں ہجرت کے بعد پانچ برس اوکاڑہ مسکن رہا، وہیں حیدرآباد دکن پبلک اسکول کے پرنسپل، سید تجمل حسین نے گھر پر پڑھایا، 1952ء میں کراچی آئے اور کراچی گرامر اسکول میں سیکنڈ اسٹینڈرڈ میں داخلہ لیا، تیسری سے پانچ اور چھٹی سے آٹھویں میں دو بار ترقی لی۔ 1958ء میں او لیول اور 1960ء میں اے لیول میں ٹاپ کیا۔ اس کے بعد شعبۂ کیمیا جامعہ کراچی کے طالب علم ہوگئے۔ 1964ء میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ ایم ایس سی کیا۔ ستمبر 1964ء میںٕ 375 روپے ماہانہ پر ملازم ہوئے، یہ سلسلہ ایک سال تک رہا۔ والد نے پی ایچ ڈی کے لیے باہر بھجوانے کی پیش کش کی، لیکن انہوں نے اپنے بل پر دنیا کی تین جامعات سے تعلیمی وظائف حاصل کیے۔

جس میں سے 1965ء میں کیمبرج یونیورسٹی کو چُنا، جہاں 1968ء میں آرگینک کیمسٹری (Organic Chemistry) میں ڈاکٹریٹ کی اور ساڑھے آٹھ نو سال تدریس وتحقیق کی نذر کیے۔ 1973ء میں کراچی لوٹے، تو جامعہ کراچی میں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی سرکردگی میں چار کمروں میں پوسٹ گریجویٹ سینٹر کی بنیاد رکھی جا چکی تھی، وہ یہاں تدریس وتحقیق سے جڑ گئے، یہی سینٹر بعد میں ایچ ای جے (حسین ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری) بنا اور پھر ’انٹرنیشنل سینٹر آف کیمیکل اینڈ بائیو لوجیکل سائنس‘ کی شکل اختیار کر گیا، جس کے تحت ’ایچ ای جے‘ سمیت مختلف ادارے قائم ہیں۔ ڈاکٹر عطاالرحمن نے ایک ادارہ والد کے نام سے جمیل الرحمن سینٹر آف جینوم ریسرچ (Jamil-ur-Rahman Center for Genome Research) قائم کیا، جہاں 500 طلبہ پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، یہ ملک کا سب سے بڑا ’پی ایچ ڈی‘ پروگرام ہے۔

1999ء میں پرویز مشرف نے کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی، تو انہوں نے دو شرائط پہ ہامی بھری، پہلی یہ کہ تدریس وتحقیق جاری رکھیں گے، دوم سائنس وٹیکنالوجی کے لیے مطلوبہ رقوم فراہم ہوں گی، یوں مارچ 2000ء میں وفاقی وزیر بنے اور سائنس وٹیکنالوجی کا قلم دان سنبھال کر اس کے ترقیاتی بجٹ میں چھے ہزار فی صد اضافہ کیا، جب کہ اعلیٰ تعلیم کا میزانیے ساڑھے تین ہزار فی صد بڑھایا۔ بایؤ ٹیکنالوجی اور نینو ٹیکنالوجی کی کمیشن بنیں۔ ستمبر 2000ء میں آئی ٹی کی پہلی پالیسی منظور کرائی۔ اس وقت پورے ملک میں صرف تین لاکھ موبائل فون تھے، کال کے نرخ کم اور کال وصولی کے چارجز ختم کیے، یوفون کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرکے اسے متعارف کرایا، جس سے مسابقت ہوئی، اور آج 16 کروڑ موبائل ہیں۔

انٹرنیٹ کی دو میگا بائٹ کی لائن کی فیس 87 ہزار ڈالر فی مہینا تھی، پہلے مرحلے میں اسے 900 اور پھر 100 ڈالر اور پھر مزید کم کیا۔ ملک میںانٹر نیٹ کا فائبر بچھایا، ساتھ ہی پہلا کمرشل سیٹلائٹ ’پاک ون‘ آیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ادارے قائم کیے، 2001ء میں آئی ٹی کی صنعت کو 15 سال کی ٹیکس چھوٹ دی۔ اس وقت آئی ٹی کی برآمدات تین لاکھ ڈالر تھی، جو آج تین ارب ڈالر ہو چکی ہے۔

بادبانی توانائی کے لیے ’میٹرو لوجیکل ڈیپارٹمنٹ‘ سے ’ونڈ میپنگ‘ کرائی، دو برس کے اعدادوشمار سے پتا چلا کہ کیٹی بندر، گھارو اور حیدرآباد میں ایک تکون، سے 50 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ بادبانی چرخیاں بنانے کے لیے نیول ڈاکیارڈ اور ہیوی مکینکل کمپلیکس سے بات بھی کی، مگر اکتوبر 2002ء میں ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ بنا، تو اس کے سربراہ ہوگئے، جس میں اُن کا درجہ وفاقی وزیر کا رہا، تاہم وہ عملی سیاست سے پرے رہے۔

2008 میں ’پی ایچ ڈی‘ کے لیے باہر گئے ہوئے طلبہ کے وظائف روکنے پر انہوں نے استعفا دے دیا، کہتے ہیں کہ جعلی ڈگریوں کے حامل 200 اراکین پارلیمان نے بھی ایچ ای سی کے خلاف محاذ بنا رکھا تھا۔ پچھلی حکومت نے ایچ ای سی توڑنے کا اعلامیہ جاری کیا، جس کو انہوں نے عدالت عظمیٰ کے ذریعے واپس کرایا، کیوں کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت اعلیٰ تعلیم وفاقی مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر عطاالرحمن  ایچ ای سی کے تمام سربراہوں کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہیں کہ مسئلہ حکومتوں کی طرف سے ہوا، اسے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی، ن لیگ نے شروع میں بہت معاونت کی، لیکن پھر انہوں نے بھی مختص ساڑھے 21 ارب میں سے صرف ساڑھے آٹھ ارب جاری کیے۔ پچھلی حکومت نے تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا سات فی صد اور موجودہ حکومت نے چار سے پانچ فی صد دینے کا وعدہ کیا، لیکن دیا وہی دو سوا دو۔ ہمارے ہاں تو دشمنیاں نکالنے کے لیے مخالف جاگیرداروں کے علاقے میں اسکول کھلوائے جاتے ہیں، تاکہ لوگ باشعور ہوں اور اُسے منتخب نہ کریں۔

ڈاکٹر عطاالرحمن کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں کبھی جمہوریت آئی ہی نہیں، بلکہ یہاں ’’فیوڈوکریسی‘‘ (Fudocracy) ہے، حاکم جاگیردارانہ خاندان تعلیم کا فروغ نہیں چاہتے۔ ہماری نصف آبادی اَن پڑھ ہے، جو بھیڑچال میں ووٹ ڈال دیتی ہے، اور وہی لوگ برسراقتدار آجاتے ہیں، کروڑوں خرچ کرتے ہیں اور اربوں کماتے ہیں۔ آمریت میں ہماری جی ڈی پی گروتھ بہتر رہی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم آمریت کی طرف جائیں۔ وہ ایسا نظام چاہتے ہیں، جو دنیا کے 90 ممالک میں رائج ہے، کہ صدر منتخب کیا جائے، جو بہترین قانون دان، ماہر تعلیم اور سائنس دانوں کو اپنا وزیر نام زَد کرے، ایران میں اپنے شعبوں کے چوٹی کے لوگ پارلیمان میں ہیں، آسٹریا او کوریا نے اپنے وزیر تعلیم کو ڈپٹی وزیراعظم کا درجہ دیا ہے۔ پارلیمان کا کام قانون سازی ہونا چاہیے، وزیر بننا نہیں۔ کہتے ہیں کہ میرے پاس قائداعظم کی لکھی ہوئی ڈائری کا عکس ہے، جس میں انہوں نے صدارتی نظام کو بہتر قرار دیا۔

ڈاکٹر عطاالرحمن کہتے ہیں کہ ترقی کے لیے قدرتی وسائل کی اہمیت کم ہوگئی ہے، اب علم پر مبنی معیشت کا زمانہ ہے۔ روایتی برآمدات کی جگہ ٹیکنالوجی لے رہی ہے۔ اس کے لیے ہمیں اسکول کالج اور جامعات میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ قومیں سڑکیں بنانے سے نہیں، علم سے بنتی ہیں۔ لوگوں کو پہلے تعلیم اور تربیت سے آراستہ کیجیے۔ اقتصادی ترقی کے لیے افرادی قوت اصل دولت ہے۔  20کروڑ میں 11 کروڑ افراد 20 برس سے کم عمر ہیں۔ سنگاپور کی برآمدات 400 ارب ڈالر ہے، جب کہ آبادی کراچی سے ایک چوتھائی (پچاس لاکھ) ہے، جب کہ ہماری ملکی برآمدات کا حجم 22 ارب ڈالر ہے، فرق تعلیم، سائنس اور جدت طرازی، ایجادات اور کمرشلائزیشن کا ہے۔

چین کی گزشتہ 30 سال کی ترقی کو ڈاکٹر عطاالرحمن بے مثال قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے 1978ء میں ذہین ترین بچوں کو تعلیم کے لیے باہر بھیجنا شروع کیا۔ پچھلے سال پانچ لاکھ 26 ہزار بچوں کو دنیا کی نام وَر جامعات میں بھیجا، ہم آج بھی ایک ہزار بچوں کو نہیں بھجوا پا رہے، جب کہ سالانہ ساڑھے چار لاکھ چینی طلبہ باہر سے اپنے ہاں آکر ادارے بنا رہے ہیں۔ 15 سال بعد امریکی بچے چین پڑھنے جائیں گے، کیوں کہ امریکا نے ٹرمپ جیسے شخص کو صدر بنا دیا ہے۔

ڈاکٹر عطاالرحمن ہری پور اور لاہور میں پاک آسٹرین یونیورسٹی قائم کر رہے ہیں، جس کے لیے خیبرپختونخوا اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں پیسہ دے رہی ہیں۔ کراچی اور سندھ میں بین الاقوامی یونیورسٹی کے قیام کے لیے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے جواب کے منتظر ہیں، تاکہ باہر کی اچھی جامعات کی ڈگریاں یہیں مل سکیں۔اس کے علاوہ وہ ملک کا سب سے بڑا انوویشن سینٹر بھی قائم کر رہے ہیں، تاکہ جامعات سے نکلنے والے نوکریوں کی تلاش کے بہ جائے اپنے چھوٹے ادارے بناکر نوکریاں دیں، ساتھ ہی کاروباری راہ نمائی کے لیے یہاں بزنس انکوبیٹر قائم کیا ہے۔

ڈاکٹر عطاالرحمن گھر میں بھی اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں، جب یہ پوچھا کہ اہل خانہ وقت نہ ملنے پر شکایت نہیں کرتے تو قہقہہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انہوں نے اب اس صورت حال کو تسلیم کرلیا ہے۔‘ وہ ملک میں ’پی ایچ ڈی‘ کے معیار سے بالکل مطمئن نہیں، کہتے ہیں کہ اسکول اور کالج کی کم زوریاں، پی ایچ ڈی کے ذریعے دور نہیں کی جاسکتیں، ایک ’لوئر ایجوکیشن کمیشن‘ بھی بننا چاہیے تھا، تاکہ تعلیمی معیار بہتر کیا جا سکے۔

ڈاکٹر عطاالرحمن نے خود سے متعلق ’سماجی علوم‘ کو نظرانداز کرنے کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے بتایا کہ تعلیمی وظائف کے لیے سماجی علوم کی 30 فی صد مختص نشستوں پر صرف ساڑھے آٹھ فی صد ہی مطلوبہ معیار کو پہنچ سکے، جس سے یہ غلط فہمی ہوئی۔ بیماری سے پہلے دوا کی دریافت کے مفروضے کو رد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ دنیا سائنس کے ثمرات سمیٹ رہی ہے۔ آج میٹا (Meta) میٹریل کے ذریعے چیزیں اوجھل کر سکتے ہیں، نابینا زبان سے بصارت پا سکتے ہیں، دماغی حکم سے چیزیں قابو کی جا سکتی ہیں، ایسی گولی آچکی ہے، جو گھوم کر دیوار کے پیچھے نشانہ لیتی ہے۔

ڈاکٹر عطاالرحمن نےlej4learning .com.pk پر مختلف موضوعات کے ہزاروں لیکچر بلامعاوضہ فراہم کیے ہیں۔ بطور چیئرمین ’ایچ ای سی‘ جامعات میں ویڈیو کانفرنسنگ متعارف کرائی، ان دنوں اس توسط سے یورپ، امریکا اور جاپان وغیرہ سے ملک بھر کی جامعات میں لیکچر کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ پانچ برس سے روزانہ دو یا تین لیکچرکا انعقاد ہوتا ہے۔ جامعات میں ایسا باقاعدہ نظام رکھنے والا پاکستان پہلا ملک ہے۔ اس کے علاوہ باقاعدہ آن لائن لینگویج ٹریننگ پروگرام شروع کیا، جس کے ذریعے گھر بیٹھے چینی، جرمن اور عربی سیکھی جا سکتی ہے۔ میری ٹائم میوزیم کی پہلی منزل پر بچوں کا سائنس میوزیم بنایا، جہاں کھیل کھیل میں سائنس کے بنیادی اصول سکھاتے ہیں۔

’قدیم طب کی سائنسی پرکھ ضروری ہے‘
ڈاکٹر عطاالرحمن نے طب یونانی پر تحقیق میں بہت سی ادویات کو ضرر رساں، جب کہ بہت سے اجزا کو کسی بھی اثر سے عاری پایا۔ وہ طب یونانی کی سائنسی پرکھ اور اس کی ثابت شدہ ادویات کے فروغ پر زور دیتے ہیں، تاکہ مُضر جڑی بوٹیوں کو ترک کیا جا سکے۔ کہتے ہیں کہ قدیم طریقۂ علاج کا باقاعدہ ’ڈبل بلائنڈ کلینکل ٹرائل‘ ضروری ہے۔ وہ نوبیل انعام یافتہ امریکی ماہر Ferid murad کے ساتھ ’ہربل میڈیسن، بیک ٹو دا فیوچر‘ کے زیر عنوان سلسلہ وار کتب شروع کر رہے ہیں، جس میں مصدقہ یونانی، چینی اور دیگر قدیم حکمت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عطاالرحمن کہتے ہیں کہ طب یونانی میں پہلوی اثرات (Side Effects) نہ ہونے کا انحصار دوا کے اجزا پر ہے، ایلوپیتھک میں پہلوی اثرات زیادہ ہونے کی بات عمومی لحاظ سے درست ہے، لیکن اس کے مفید اثرات بھی مصدقہ ہوتے ہیں، 15 برس کی تحقیق اور 100 ارب کی لاگت کے بعد ایک گولی میسر ہوتی ہیِ، جب کہ ’حکمت‘ میں پلاسیبو ایفیکٹ (Placabo Effect) کو بھی دوش ہے، جیسے اگر آپ مفید سمجھ کر لال پانی پیئیں، تو بہتری محسوس کریں گے، بعض اوقات یہ اثرات ’اینٹی بایوٹک‘ جیسے بھی مرتب کرتا ہے۔ اسے بھی تحقیق کے دوران دیکھنا پڑتا ہے۔

ایک کمرے میں 30، 30 کروڑ روپے کے آلات ہیں
ڈاکٹر عطاالرحمن کہتے ہیں کہ جامعہ کراچی میں قائم ایچ ای جے (Hussain Ebrahim Jamal Research Institute of Chemistry) ’نیچرل پراڈکٹ کیمسٹری‘ کے شعبے میں سرفہرست دنیا کے تین، چار اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چھے سال میں جرمنی جیسے ملک سے بھی 120 طلبہ یہاں آئے۔ انہوں نے وقتاً فوقتاً اس ادارے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی گرانٹس حاصل کیں، جس کے سبب ایک کمرے میں 30 کروڑ روپے تک کے آلات بھی نصب ہیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ جتنے اچھے آلات ’ایچ ای جے‘ میں ہیں، اتنے ہندوستان اور چین کے کسی ایک ادارے میں نہیں ہوں گے، جب کہ امریکا ویورپ میں بھی یہ صرف بڑے اداروں میں ہی میسر ہیں۔ دسمبر 2016ء میں ’ایچ ای جے‘ کو ریجنل سینٹر آف ایکسی لینس ریکگنائز کیا گیا، یہ عالمی ادارۂ صحت کا مرکز اور ’او آئی سی‘ کا سینٹر آف ایکسی لینس بھی ہے۔ ’ایچ ای جے‘ سب سے زیادہ سول ایوارڈز کا حامل ادارہ بھی ہے، جس میں ڈاکٹر عطاالرحمن کے چار اور ڈاکٹر اقبال چوہدری کے تین سول ایوارڈ قابل ذکر ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہاں دفاتر نہیں، بلکہ ہر کمرے میں تدریسی وتحقیقی سرگرمیاں جاری ہیں۔

اچھی صحت کا راز کم کھانا ہے
ڈاکٹر عطاالرحمن 1965ء میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے، شریک حیات گھریلو خاتون ہیں۔ بیٹی کوئی نہیں، چار بیٹے ہیں، جو شادی شدہ ہیں، 27 سال پہلے دادا بنے، گیارہ پوتے پوتیاں ہیں۔ بچوں سے دوستانہ تعلقات ہیں، انہیں اُن کے رجحان کے مطابق تعلیم دلائی، دو صاحب زادوں نے ایم بی اے، جب کہ باقی دو نے بالترتیب اطلاقی کیمیا اور انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا۔  وہ کام کے ساتھ ساتھ کبھی کرکٹ اور فلم بھی دیکھ لیتے ہیں، کبھی موسیقی سنتے ہے، کہتے ہیں بہ یک وقت چار، پانچ چیزیں  نہ کروں تو اتنا کام نہیں کرسکتا۔ لتا کے پرانے گانے اور طلعت محمود کی غزلیں پسند ہیں۔ فلموں میں آہ اور سنگ دل، جب کہ کلا کاروں میں دلیپ کمار اور راج کپور بھاتے ہیں۔ کہتے ہیں نئے اداکاروں میں پرانے اداکاروں سی جذبات کی گہرائی نہیں۔ پسندیدہ کتاب کے سوال کو مشکل قرار دیتے ہیں، پسندیدہ شخصیات میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، بچپن کے استاد سید تجمل حسین اور ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا نام لیتے ہیں ۔ عموماً پتلون قمیص اور کوٹ، جب کہ جمعے کو شلوار قمیص زیب تن کرتے ہیں۔ ناشتے میں سبز چائے، ایک سیب اور پنیر کا ٹکڑا نوش کرتے ہیں، دوپہر کو دو سیب اور رات کو آدھی یا ایک روٹی پر اکتفا کرتے ہیں۔ کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم کھائیں، اسے اچھی صحت کا راز کہتے ہیں۔ البتہ سبز چائے پیتے رہتے ہیں۔ اس غذائی معمول سے پانچ برسوں میں 25 پاؤنڈ تک وزن کم کیا۔ جامعات کی ترقی اور ہزاروں بچوں کا تعلیمی وظائف پر باہر جانا انہیں اطمینان دیتا ہے۔ تین سال قبل والدہ کی رحلت ہوئی، جسے وہ زیست کا کٹھن ترین وقت قرار دیتے ہیں۔

’’پروفیسر کی تنخواہ وفاقی وزیر سے پانچ گنا زیادہ کی‘‘
ڈاکٹر عطاالرحمن نے بتایا کہ بیرون ملک ڈاکٹریٹ کے لیے اعلیٰ ذہنوں کو منتخب کرنے کے لیے بہ ذریعہ ٹیسٹ 12 سے 15 ہزار طلبہ میں سے 500 طلبہ لیے جاتے، جن کا متعلقہ ممالک کے ماہرین انٹرویو کرتے اور چناؤ ہوتا۔ پی ایچ ڈی کر کے واپس آنے والوں کا تناسب 97.5 فی صد تھا، ایچ ای سی کے مطابق اب بھی یہ شرح 90 فی صد ہے۔ پاکستان میں محققین کو راغب کرنے کے لیے بطور چیئرمین ایچ ای سی انہوں نے پرکشش مراعات اور سہولیات متعارف کرائیں، کہتے ہیں کہ ’پاکستان دنیا کا پہلا ملک بنا، جہاں ایک پروفیسر کی تنخواہ وفاقی وزیر سے پانچ گنا زیادہ ہوگئی۔‘ اس کے لیے اہل لوگوں کا چناؤ 10 سالہ ٹریک نظام سے کیا، جس میں تین سال کے کنٹریکٹ کے بعد بین الاقوامی جانچ (Evaluation)، جس میں کام یابی کے بعد مزید تین سال کی توسیع اور پھر دوسری بین الاقوامی جانچ کے بعد مستقل تقرر کیا گیا۔

ساتھ ہی باہر جانے والے طالب علم کو پی ایچ ڈی کی تکمیل کے آخری برس ایک لاکھ ڈالر تک کی ریسرچ گرانٹ کی درخواست کا اہل قرار دیا، ملک کی پہلی ڈیجیٹل لائبریری قائم کی، جس کے بعد ہر پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں مختلف موضوعات کی 65 ہزار نئی کتابیں اور 25 ہزار بین الاقوامی جرنل فراہم ہوئے۔ اس کے ساتھ انہوں نے دنیا میں پہلی بار جدید آلات تک مفت رسائی یقینی بنائی۔ محققین اپنے نمونوں کی جانچ کے لیے کسی بھی لیبارٹری بھیجیں، اخراجات ایچ ای سی کا ذمہ ہوا۔ باہر سے پی ایچ ڈی کر کے آنے والوں کو ’ایچ ای سی فیلوشپ‘ کے ذریعے پہلے دن سے اسسٹنٹ پروفیسر کی تنخواہ پر انہی کے علاقوں کی یونیورسٹیوں میں تقرر کراتے۔ اس اسکیم کے نتیجے میں بہت سے غیر ملکی بھی آئے اور اپنے طور پر باہر جانے والے 600 محققین نے بھی استفادہ کیا۔ کہتے ہیں یہ سہولیات اب بھی موجود ہیں، لیکن سکڑ گئی ہیں۔

221 کتابیں اور چار سول اعزازات
ڈاکٹر عطاالرحمن کی تحقیق کا محور جڑی بوٹیاں ہیں، جس پر اب تک ایک ہزار سے زیادہ تحقیقات بین الاقوامی جرائد کی زینت بن چکیں۔ 221 کتابیں شایع ہوئیں، ہر سال چھے، سات کتب منصۂ شہود پر آتی ہیں، 40 کے قریب بین الاقوامی Patents ہیں۔ انہوں نے ’سدا بہار‘ کے پودے میں موجود سرطان کُش اجزا کی تحقیق قابل ذکر ہے۔ گزشتہ 30 سال سے ان کی زیرادارت دنیا کی سب سے بڑی انسائیکلو پیڈیک سیریز ’اسٹڈیز ان نیچرل پروڈکٹ کیمیسٹری‘ بھی جاری ہے، جس کی اب تک 54 کتب آچکیں۔ ڈاکٹر عطاالرحمن کی خدمات کے اعتراف میں وزیراعظم محمد خان جونیجو نے انہیں 1985ء کے سال کے بہترین سائنس دان کا اعزاز دیا، ضیاالحق کے زمانے میں انہیں تمغۂ امتیاز، 1991ء میں ستارۂ امتیاز، 1998ء میں ہلال امتیاز، جب کہ  2003ء میں نشان امتیاز سے نوازا گیا۔  14 جولائی 2006ء کو بین الاقوامی سطح پر ’فیلو شپ آف رائل سوسائٹی‘ (ایف آر ایس) ملی، جس میں 365 سال پرانی ایک کتاب پہ بہ ذریعہ پر  دستخط کیے جاتے ہیں، اس کتاب میں سر آئزک نیوٹن اور چارلس ڈارون کے دستخط بھی ثبت ہیں، اس کا عکس ’ایچ ای جے‘ کے کتب خانے میں موجود ہے۔ وہ پاکستان میں رہ کر یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی شخصیت ہیں، قبل ازیں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کو ہندوستان میں، جب کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو برطانیہ میں کام کرنے پر ملا۔ 2000ء میں انہیں ایرانی صدر سید محمد خاتمی نے ’ای سی او پرائز‘ دیا، وہ یونیسکو (UNESCO) کے سائنس پرائز کے علاوہ آسٹریا اور سینیگال کے سرکاری اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔