روہنگیا مسلمان اور عالمی برادری

طاہر نجمی  اتوار 17 ستمبر 2017
tahirnajmi@express.com.pk

[email protected]

برسوں پہلے افتخار عارف نے کیا خوب کہا تھا

عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا

آج یہ شعرمیانمار کے مسلمانوں کی حالت زار پر پوری طرح منطبق ہو رہا ہے جوصدیوں سے آباد اپنے ہی وطن میں بے وطن کر دیے گئے ہیں اور فوج کے ساتھ ساتھ انتہا پسند بھکشوؤں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ ستم رسیدہ لوگ روہنگیائی مسلمان ہیں ان کی تعداد گیارہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

1982ء میں اس وقت کی فوجی حکومت نے شہریت کا ایک ایسا قانون نافذ کیا جس کا مقصد ہی روہنگیا مسلمانوں کو شہری حقوق سے محروم کرنا تھا، اس وقت سے یہ لوگ تعلیم‘صحت اور روزگار کے مسائل سے دوچار ہیں اور حقوق مانگنے پر حکام غیراعلانیہ طور پر انھیں بنگلہ دیش جانے کا کہتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح بھارت میں ہندو انتہا پسند مسلمانوں کو پاکستان جانے کا کہتے ہیں۔

گزشتہ 25 اگست سے میانمار کی فوج روہنگیائی مسلمانوں کے علاقے راکھائن میں عسکریت پسندوں کی تلاش کے نام پر آپریشن کر رہی ہے جو تاحال جاری ہے اور اس ’’نیک کام‘‘ میں بدھسٹ انتہا پسند بھی حسب توفیق فوج کا ہاتھ بٹا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ایک ہزار کے قریب افراد جان گنوا چکے ہیں جب کہ مال و اسباب سے محروم ہو کر فقط جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچنے والوں کی تعداد بھی چار لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

پاکستان اور دوسرے کئی مسلمان ملکوں کے علاوہ امریکا اور یورپ میں عوامی سطح پر روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے لیکن ترکی کے سوا کسی بھی ملک نے حکومتی سطح پر ان مظلوموں کی عملی امداد کے لیے اب تک کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا۔

پاکستان نے میانمار کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا، روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف سینیٹ اور قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور کی گئی، اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں بھی اقوام متحدہ سے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی تحقیقات، فیکٹ فائنڈنگ مشن کو حقائق جاننے کے لیے علاقے میں جانے کی اجازت دینے، میانمار حکومت سے مسلمانوں کا قتل عام بند کرنے اور انھیں بنیادی حقوق دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف دنیا بھر میں ہونیوالے احتجاج کے بعد اقوام متحدہ کے سب سے مقتدر ادارے سلامتی کونسل نے میانمار کی حکومت سے یہ تو کہا ہے کہ وہ روہنگیا بحران پر فوری قابو پائے مگر وہ مسلم اقلیت کی نسلی صفائی مہم کو بند کرانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرسکی۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ عالمی عدالت انصاف میں میانمار کی حکمراں جماعت کی سربراہ آنگ سان سوچی اور بدھ مذہب کے انتہا پسند مذہبی پیشوا آشن وارتھو کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ہے، ہو سکتا ہے اس کا کچھ دباؤ میانمار حکومت محسوس کرے وگرنہ اب تک تو ایسا لگتا ہے کہ اس نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسی ہوئی ہیں تاکہ روہنگیا کے مسلمانوں کے حق میں اٹھنے والی کوئی آواز اس تک نہ پہنچ سکے۔

اس سارے معاملے کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں اس مسئلے کو مسلمانوں کا مسئلہ توکہا جا رہا ہے لیکن مسئلے کو مستقل طور پر حل کرانے کے لیے عملی اقدامات نظر نہیں آرہے۔کوئی ایک ملک یہ مسئلہ حل کر بھی نہیں سکتا اس کے لیے اجتماعی سوچ اور کوششیں درکار ہیں جن کا فی الوقت فقدان ہے۔

روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کوئی نئی بات نہیں، یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے جب جب تشدد کی لہر میں شدت آتی ہے تب تب مسلم ممالک اور اقوام متحدہ سے دیگر عالمی اداروں کی جانب سے اجلاس منعقد کرکے بیانات دیے جاتے ہیں مگر جیسے ہی تشدد کی لہر تھمتی ہے تو پھرسب خاموشی اختیار کرلیتے ہیں، اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) بھی آج تک اس مسئلہ کو مستقل طور پر حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنا سکی۔

میانمار میں برسراقتدار جماعت کی سربراہ آنگ سان سوچی نوبل انعام یافتہ ہیں، عالمی برادری سمیت بین الاقوامی میڈیا میانمار کی حکومت کو اس ظلم کا ذمے دار قرار دے رہا ہے۔ دنیا کا خیال ہے کہ جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والی آنگ سان سوچی کے دور اقتدار میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ میانمار میں آج بھی فوجی تسلط قائم ہے اور سوچی جیسی مقبول رہنما بھی فوج کے اقدامات کے خلاف کھڑی نہیں ہوسکتیںاور اس سارے تشدد کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے۔

برما کی مسلمان اکثریتی ریاست اراکان جسے سرکاری طور پر راکھائن کا نام دیا گیا ہے جغرافیائی طور پر خلیج بنگال میں بنگلہ دیش کے علاقے چٹاگانگ سے ملحقہ ہے۔ روہنگیاؤں کا علاقہ اراکان ماضی میں قدیم بادشاہتوں کے بعد تاج برطانیہ کے زیر اثر بھی رہا ہے۔ اس کی  سرحدیں بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ سے ملتی ہیں۔ اس ریاست کا قدیم نام برما تھا۔ 4جنوری 1948ء کو برطانوی تسلط سے آزاد ہوا تھا۔ طویل عرصے سے فوجی حکمرانی کی وجہ سے ریاست پر فورسز کا کنٹرول ہے۔ قانون کی حکمرانی اور موثر عدالتی نظام کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت بدھ مت ہے جب کہ عیسائی اور مسلمانوں کی بھی محدود تعداد موجود ہے۔

اراکان میں روہنگیا مسلمان 16 ویں صدی سے آباد ہیں، برطانیہ سے آزادی کے وقت شہریت کا کوئی جھگڑا نہیں تھا اور مسلمان اقلیت بھی زندگی گزار رہی تھی۔ مسئلہ تب شروع ہوا جب فوجی جنرل نے جمہوری بساط لپیٹ کر 1962ء میں اقتدار پر قبضہ کرلیا، اقتدار کو دوام دینے کے لیے برمی قوم پرستانہ جذبات کو ابھارا۔ 1982ء میں برمی حکومت نے مسلمانوں کو بیک جنبش قلم شہریت سے محروم کردیا جو کہ دنیا بھر میں انوکھی اور واحد مثال قرار دی جاتی ہے، جب شہریت چھن گئی توان لوگوں کو غیر ملکی قرار دے کر ان سے رہائش، صحت، تعلیم اور روزگار سمیت بنیادی سہولتوں کا حق بھی چھین لیا گیا۔

برمی فوج نے اس اقلیت کو مفت کے غلاموں کی طرح استعمال کیا، ان کے چھوٹے موٹے کاروبار تباہ ہونے لگے۔ ان کے خلاف ہونے والے جرائم کی چھان بین سے پولیس نے منہ موڑ لیا۔وہ بلا سرکاری اجازت شادی نہیں کرسکتے۔ دو سے زائد بچے پیدا نہیں کرسکتے اور اجازت نامے کے بغیر نہ املاک کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایک سے دوسری جگہ آجا سکتے ہیں۔؎

1992ء میں برما کی حکومت کے حکم پر پولیس نے بنگلہ دیش سے واپس آنیوالے تین لاکھ شہریوں کو دوبارہ بنگلہ دیش میں دھکیل دیا۔ جون 2012ء میں بدھ مت کی ایک لڑکی کے اغوا، عصمت دری اور قتل کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کرکے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا گیا جس کا سلسلہ وقفوںکے ساتھ جاری ہے۔

روہنگیا مسلمان دنیا کے مظلوم ترین انسان ہیں جن کی زندگی حیوانوں سے بھی بدتربنا دی گئی ہے۔ اس گمبھیر صورتحال کا تقاضہ ہے کہ دنیا بالعموم اور اسلامی ممالک بالخصوص روہنگیا کے مسلمانوں کے مسئلہ کا مستقل حل نکالیں، اگر آج اسلامی ممالک نے متحد ہوکر میانمار کا ہاتھ نہ روکا تو پھر میانمار میں مسلمانوں کی ’’نسلی صفائی‘‘ کا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔

ستاون اسلامی ملکوں پر مشتمل او آئی سی، پوری عالمی برادری کی نمائندہ انجمن اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی درجنوں تنظیموں کو زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے، بصورت دیگر یہ تاریخ کے بدترین انسانی المیوں میں ایک اور اضافہ ثابت ہوگا۔ عالمی برادری کا فرض ہے کہ میانمار کی حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کو مکمل شہری حقوق دینے پر مجبور کرے اور اس کے لیے تمام تر ضروری اقدامات عمل میں لائے کیونکہ یہی اس مسئلے کا واحد قابل عمل اور منصفانہ حل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔