چوہدری احمد سعید اور مسز فیبلوس
حالات ایسے بدلے ہیں کہ اب افراد‘ جماعتوں سے زیادہ اہم ہو گئے ہیں کہ شاید کوئی ایسی شخصیت آ جائے جو بچا کر لے جائے۔
افراد کے بارے میں کچھ لکھنا اور وہ بھی پاکستانیوں کے بارے میں بہت خطرے کا کام ہے لیکن بعض اوقات یہ رسک لینا پڑ جاتا ہے اور وجہ وہ افراد بن جاتے ہیں جو کسی مدح اور تعریف کے لائق ہوتے ہیں اور ایسے کسی نایاب جوہر کی تعریف کرنی لازمی ہوتی ہے ورنہ اچھے انسانوں کا یہ طبقہ جو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے بددل ہو سکتا ہے کیونکہ ہم لوگ دن رات ان لوگوں کی تعریف میں مصروف رہتے ہیں جن کا نام سن کر اچھے لوگوں کو ابکائیاں آ جاتی ہیں۔ آج کے اخبارات سے ایک خاتون اور ایک مرد کے بارے میں خبریں ملی ہیں۔
میں ان دونوں میں سے ایک کو غائبانہ اور دوسرے کو حاضرانہ جانتا ہوں۔ وہ ہیں ماہر تعلیم مسز فیبلوس اور جناب چوہدری احمد سعید۔ مسز فیبلوس کو پنجاب میں محتسب مقرر کیا گیا ہے۔ میں محترمہ کو اپنی بیٹی کے حوالے سے جانتا ہوں جو ان کے کالج کی طالبعلم رہی ہے۔ جہاں مسز فیبلوس کبھی پرنسپل تھیں۔ خواتین کا یہ سب سے بڑا اور نامور کالج ہونہار طالبات کے والدین کی نگاہوں کا مرکز تھا لیکن داخلہ یا تو میرٹ پر ملتا یا پھر کسی غیر معمولی سفارش پر۔ لاہور کی سوشل زندگی میں مسز فیبلوس کا بڑا نام تھا، وہ ایک نہایت ہی بااثر خاتون تھیں اور مسیحی ہونے کے باوجود ہر طبقہ فکر میں نہایت عزت سے دیکھی جاتی تھیں۔ انھوں نے اپنے کنیرڈ کالج کو لائق طلبا کے لیے ایک تحفہ بنا دیا تھا اور لاہور کا ایچی سن کالج بھی اس کے سامنے پانی بھرتا تھا۔ خواتین کا یہ کالج اور اس کی باوقار پرنسپل دونوں لاہور کا ایک اعزاز تھیں۔
ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد میں سوچتا ہوں کہ کبھی کسی حکمران سے ملاقات ہو تو میں لاہور کی اس 'فرسٹ لیڈی' کے بارے میں ان کو یاد دلاؤں کہ قحط النساء کے اس دور میں اس جوہر قابل کو ضایع نہ ہونے دیں۔ یہ عالمی سطح پر ایک کامیاب اور مفید تعلقات عامہ بھی ہیں اور عالمی سطح کی خاتون ہیں۔ پاکستان میں شاید کوئی سیاستدان اتنا مشہور ہو لیکن ایک تعلیمی شخصیت اور وہ بھی کسی عورت کو پاکستان کے اندر جو عزت اور مرتبہ حاصل ہے وہ اس ملک کے عالمی شہرت والی جہالت پر پردہ ڈال دیتا ہے۔
حکومت نے نہ جانے کیسے اتنی سمجھ سے کام لے لیا ہے وہ کون ہے جو اتنی تیز پاکستانی نظر رکھتا ہے اور جس نے یہ خاموش جوہر قابل تلاش کر لیا ہے۔ محتسب کے دفتر میں اب خواتین بھی آزادی ا ور حفاظت کے ساتھ جا سکیں گی اور کسی 'فریادی' خاتون سے کوئی گھٹیا مرد بدتمیزی نہیں کرے گا۔ جو ایک معمول بن چکا ہے اور ایسا ہر دفتر میں ہوتا ہے۔ پولیس سر فہرست ہے۔ بہر کیف میں نے تو اس خبر پر اطمینان کا سانس لیا ہے۔ اچھے کردار کے مضبوط لوگ ہی حالات کو بدل سکتے ہیں۔
اس قبیل کی ایک اور خوشخبری ایک نہایت ہی معزز اور نیک نام پاکستانی کے بارے میں ملی ہے۔ چوہدری احمد سعید کا نام پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کے لیے تجویز کیا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں بڑی سیاسی پارٹیوں میں اگر ملک کی بہبود کی کچھ پروا کی جاتی ہے تو اس نام کی مخالفت کوئی نہیں کریگا۔ اگر یہ نام خود اپنی مخالفت نہ کرے کیونکہ یہ ایک بے لوث اور 'رجے بچے' انسان ہیں۔ یہ جب پاکستان زرعی بینک کے چیئرمین بنائے گئے تو شاید یہ ان کی پہلی سرکاری ذمے داری تھی۔ میں ان کے نام سے واقف تھا لیکن ایک صنعتکار کی حیثیت سے چنانچہ میں نے ایک کالم لکھا کہ کیا یہ وہی چوہدری صاحب ہیں جن کو میں سمجھ رہا ہوں۔ ان کا جواب آیا کہ ہاں میں وہی ہوں۔ پھر انھوں نے اس بدنام بینک کو لوٹ مار کا مال نہ بننے دیا اور اپنا وقت عزت کے ساتھ گزار دیا۔
وہ وفاقی وزیر بھی رہے اور پھر پی آئی اے کے چیئرمین بھی۔ انھوں نے ہر سرکاری منصب اپنے خرچ پر جاری رکھا۔ پی آئی اے میں تو وہ اپنے واقف مسافروں کے فالتو سامان کا کرایہ بھی اپنی جیب سے ادا کر دیتے تھے۔ کراچی میں رہنا سہنا سب ان کے ذاتی خرچ پر جاری رہا۔ انھوں نے عوام کے اس ادارے میں لوگوں کو رعایات بھی دیں لیکن سب اپنے خرچ پر، وہ جوتے بنانے والی ایک کمپنی کے مالک تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں جوتے بناتا تھا مجھے جہاز اڑانے پر لگا دیا گیا ہے لیکن یہ ان کی خوش طبعی تھی ورنہ ان کی کاروباری مہارت نے جہاز بھی اڑا کر دکھا دیے۔ اگر آج والی حالت ہوتی تو وہ قوم سے معافی مانگ کر پی آئی اے سے الگ ہو جاتے۔
میں ذاتی طور پر اگرچہ بہت خوش ہوں اور قومی طور پر اس سے بھی زیادہ لیکن ایک تو اس منصب کے لیے ہر نسل اور فصل کا بٹیرا سیاستدان امیدوار ہو گا جو متعلقہ لوگوں پر دباؤ ڈال سکے گا۔ دوسرے بعض لوگوں کو یہ خطرہ بھی ہو گا کہ چوہدری ان کا ناجائز کام نہیں کرے گا اور جائز کام ان کا ہوتا کوئی نہیں۔ جو بڑا بااثر آدمی چوہدری احمد سعید کا رسک لے گا۔ وہ خود ہی بھگتے گا لیکن پنجاب کے عوام سکھ کا سانس لیں گے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ صدر زرداری نے اس نام کو دیکھ لیا ہے اور میاں صاحب بھی ان کی مخالفت نہیں کریں گے۔ بس ایک اندیشہ ہے کہ نہ جانے چوہدری صاحب کی صحت کیسی ہے کیونکہ یہ کام بہت مشقت کا ہے۔
اگرچہ وہ مشقت کے عادی ہیں مگر کیا وہ اپنی صحت پنجاب کی فلاح و بہبود پر قربان کر دیں گے۔ کاروباری دنیا چلانے میں ان کی مہارت مسلمہ ہے۔ اس لیے وہ اپنے اس پیدائشی ہنر کی مدد سے کوئی دوسرا بڑا کام بھی کر سکتے ہیں۔ چوہدری صاحب کا مسئلہ ابھی سیاستدانوں کی مفاد پرستانہ صوابدید پر ہے لیکن مسز فیبلوس جلد ہی کام شروع کر دیں گی۔ میں چوہدری صاحب کے نگران وزیراعلیٰ بننے کی متوقع خوشی کا اظہار کرتا ہوں۔ حالات ایسے بدلے ہیں کہ اب افراد' جماعتوں سے زیادہ اہم ہو گئے ہیں کہ شاید کوئی ایسی شخصیت آ جائے جو بچا کر لے جائے' عالم غیب سے۔