اقوام متحدہ پاکستان بھارت اور مسئلہ کشمیر

کیا بھارت یا پاکستان اقوام متحدہ میں کشمیر پر ایسے ہی کج بحثی میں الجھے رہیں گے؟


اظہر مشتاق September 29, 2017
کیا مقبوضہ کشمیر کے باشندگان پر انسانی حقوق کے قوانین لاگو نہیں ہوتے؟ کیا بھارتی سیاسی و عسکری اشرافیہ سیکولر ازم اور بڑی جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقِ رائے دہی کو سرد خانے میں نہیں ڈال دیتی؟ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے خطاب اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب محترمہ ملیحہ لودھی کا ردعمل پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں زیرِ بحث ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں ملیحہ لودھی کے ایک تصویر کو علامتی طور پر لہرانے کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ سشما سوراج کی تقریر کے ردِعمل میں ملیحہ لودھی نے پوری قوّت سے پاکستان کی وکالت کی اور بھارت کی جانب سے لگائے گئے سارے الزمات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ایک واضح موقف اپنایا۔

جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے حکومتی زعماء اور مندوبین نے کشمیر کو زیر بحث لاتے ہوئے روایتی انداز میں شہ رگ اور اٹوٹ انگ کے نعروں کی بھی توثیق کی۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اپنی تقریر کا رسمی مبارکباد سے آغاز کرتے ہوئے تشدد، دہشت گردی، ماحولیاتی تبدیلی، سمندری تحفظ، بھوک، غربت، نوجوانوں کی مایوسی اور صنفی عدم مساوات کا ذکر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو متنبہ کیا کہ اگر 2015 میں تعین کیے گئے اہداف پر توجہ نہ دی گئی تو 2030 تک مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن نہیں رہے گا اور دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔ بھارتی وزیر خارجہ نے تقریر کے دوسرے حصے میں اپنی حکومت کی جانب سے غربت کے خاتمے اور معاشی ترقی کے ضمن میں کوششوں کی تفصیلات کا ذکر بھی کیا اور موجودہ بھارتی حکومت کے کچھ اہم اقدامات مختصراً بیان کیے۔ تقریر کو ایک خوبصورت موڑ دیتے ہوئے سشما سوراج نے کہا کہ وہ غربت سے لڑ رہے ہیں اور پاکستان ان سے لڑ رہا ہے۔

انہوں نے پاکستانی وزیراعظم کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسی ڈائس سے پاکستانی وزیراعظم نے دنیا کے سامنے بھارت پر الزام لگایا کہ بھارت دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے، دنیا کو دیکھنا چاہئے کہ یہ بات کر کون رہا ہے؟ سشما سوراج نے مزید سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسا ملک جو دنیا میں نفرت اور منافقت برآمد کر رہا ہے اس کے وزیراعظم کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اسٹیج سے ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں کہ وہ انسانیت کی بات کرے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے بانی پاکستان محمدعلی جناحؒ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انسانیت اور امن کا درس دیا تھا اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے حلف کے وقت ہی امن اور انسانیت کا درس دیا تھا۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ دو فریقی مذاکرات کی تائید کی اور کہا کہ شملہ معاہدہ اور معاہدہ لاہور کے بعد بھارت سہ فریقی مذاکرات کو قبول نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سپر پاور بنا ہے اور پاکستان دہشت کی برآمد میں، پاکستان نے دہشت گرد اور جہادی پیدا کئے ہیں جنہوں نے نہ صرف بھارت بلکہ افغانستان اور بنگلہ دیش جیسے پڑوسیوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان آج بھی اچھے اور برے دہشت گردوں کے فلسفے پر بات کر رہا ہے۔ اپنی تقریر کے اختتامی جملوں میں انہوں نے دہشت گردی کو موجودہ برائی کہا اورماحولیاتی تحفظ کے لئے معاہدہ پیرس کی توثیق کی۔

سشما سوراج کی تقریر کو اگر ایک جذباتی تقریر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ شاید سشماجی یہ نہیں جانتیں کہ امن اور محبت کا درس دینے والے مودی جی کے اپنے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔ معاشی شمولیت اور ترقی کےلیے معاشی راستے کا ذکر کرتے ہوئے سشما جی یہ بتانا بھول گئیں کہ نچلی ذات کے ہندو، دلت اور آدی واسی اس میں شامل ہیں کہ نہیں۔ تین سو ملین بینک اکاؤنٹ اپنی جگہ معتبر مگر بھارتی کسانوں کی خود سوزیاں کونسی ترقی کے اشاریئے ہیں؟ شاید جنرل اسمبلی کے اجلاس میں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ گرداننے والے بھارت کے عمائدین نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں یہ بتانا مناسب کیوں نہیں سمجھا کہ 8 جولائی 2016 سے لیکر تاحال پیلٹ گن سے زخمی اور اندھے کیے جانے والے کشمیریوں کے مطالبات کیا تھے۔ نوجوانوں کی مایوسی کا ذکر کرتے ہوئے سشما جی یہ بھول گئیں کہ کشمیر کا نوجوان گلیوں میں ہاتھ میں پتھر لیے کیوں گھوم رہا ہے؟ کیا بھارت کے اٹوٹ انگ کے باشندگان پر انسانی حقوق کے قوانین لاگو نہیں ہوتے؟ کیا بھارتی سیاسی و عسکری اشرافیہ سیکولر ازم اور بڑی جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے جموں و کشمیر کے لوگوں کے حقِ رائے دہی کو سرد خانے میں نہیں ڈال دیتی؟ اور بین الاقوامی فورمز پر ان سب ناانصافیوں اور مظالم پر پردہ ڈالتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتی؟

اب کشمیریوں کے وکیل کی بات بھی ہوجائے جس کی جموں و کشمیر سے محبت کا عملی مظاہرہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں محترمہ ملیحہ لودھی نے سشما سوراج کو اپنا رد عمل دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے جموں کشمیر پر بھارتی قبضے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی میعاد ختم نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے اقوام متحدہ سے درخواست کی کہ وہ کشمیر پر خصوصی نمائندہ مقرر کرے۔ ملیحہ لودھی نے کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، فائر بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی اور جبری گمشدگیوں پر کھل کر بھارت کو ہدفِ تنقید بنایا اور کہا کہ کشمیری جموں کشمیر سے بھارت کا انخلا چاہتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان میں قید بھارتی جاسوس کلبھوشن کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ اس جاسوس نے خود یہ اقرار کیا ہے کہ وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔ کشمیر میں پیلٹ گن کے استعمال پر ملیحہ لودھی نے پیلٹ گن سے زخمی ہونے والی ایک خاتون کی تصویر لہرائی۔ ملیحہ لودھی کے ردعمل کے بعد وہ تصویر فلسطین کی زخمی عورت کی نکلی جس پر بھارت کے ذرائع ابلاغ یہ واویلا کرتے نظر آئے کہ پاکستانی مندوب نے فلسطینی عورت کی تصویر کو کشمیری عورت بنا کر پیش کرکے بھارت کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کا واویلا دیکھ کر اچنبھا ہوتا ہے کہ وہ پیلٹ گن سے زخمی ہونیوالے کم و بیش تین ہزار کشمیریوں کو کھلے عام نظر انداز کیسے کرسکتے ہیں؟ ساتھ ہی محترمہ ملیحہ لودھی کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کےلیے تیاری پر بھی سوال اٹھتا ہے اور کشمیر کے بارے میں مواد اور معلومات کے فقدان سے اس مسئلے پر ان کی گرفت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔

سشما سوراج اور ملیحہ لودھی کے نقطہ ہائے نظر اپنی جگہ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت یا پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بنیادی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے کشمیر پر ایسے ہی کج بحثی میں الجھے رہیں گے؟ یہ شائبہ بھی ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کی کشمیر پر سفارت کاری پر ہونے والی تمام بحثیں محض زمین کےایک ٹکڑے کے حصول سے زیادہ کچھ نہیں۔ دونوں ممالک بنیادی انسانی حقوق اور انسانی حقوق کی پاسداری کا راگ الاپتے نہیں تھکتے مگر کشمیری عوام کو مسئلہ کشمیر کا بنیادی فریق ماننے سے انکاری ہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی شملہ معاہدے سے پہلے کی قراردادوں پر دونوں کے دستخط موجود ہیں اور اس وقت قراردادوں کی تمام شقوں کو ماننے کے باوجود دونوں طرف کی حکومتیں جموں و کشمیر کے مستقبل کے بارے میں ایک ریفرنڈم کروانے سے عاری رہی ہیں۔

جمہوریت اور سیکولر ازم کی باتیں کرنے والا بھارت اور کشمیر کو شہ رگ کا درجہ دینے والا پاکستان، دونوں ہی اگر اپنے اپنے زیرِ قبضہ حصوں کے عوام کی رائے لینے سے قاصر ہیں تو پھر اقوام متحدہ کے فورم پر ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ایک متنازعہ حصے کے انتظام و انصرام سنبھالنے والی ریاست متنازعہ خطے کی عوام پر جبر کی آخری حدود کو چھولے تو وہ متنازعہ خطے کے دوسرے منتظم پر تنقید کا حق کھودیتی ہے اور اگر دوسرے حصے کی منتظم ریاست بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی سے عاری اور متنازعہ خطے کے اپنے زیر قبضہ حصے میں اقربا پروری، سماجی عدم مساوات، لاقانونیت اور بدعنوانی جیسے گھناونے کھیل کی براہ راست شراکت دار ہو تو وہ اخلاقی لحاظ سے وکالت کا حق کھو دیتی ہے۔

گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستان اور ہندوستان کی مدعیت میں لڑا جانے والا مقدمہ کشمیر اس وقت تک منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتا جب تک جموں و کشمیر کے عوام کو، جو اس تنازعے کا براہِ راست شکار ہیں، جموں و کشمیر کا حقیقی وارث اور مقدمے کا اصل مدعی نہیں مان لیا جاتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں