یہ بھی کیا لوگ تھے
وہ بہت ہی خوبصورت شاعر بھی تھے اور اسلامی ادب کی تحریک کے ایک لیڈر بھی۔
میں جس زمانے کے ایک سیاسی لیڈر کا ذکر کر رہا ہوں، اس کی زندگی میں آئین کی دفعات 62 اور 63 نہیں تھیں جن کی پابندی کرنے والا ایک پاک و صاف انسان ہوتا ہے اور پاکستان کی مجلس شوریٰ کی رکنیت صرف ان اوصاف کے حامل کسی شخص کو ہی دی جا سکتی ہے۔ یہ آج کی آئینی قانونی شرط ہے جس پر شاید ہی کوئی لیڈر یا الیکشن کا امیدوار پورا اترتا ہو لیکن جن لوگوں کے دل خدا نے ایمان سے بھر دیے ہوں جن کی زندگی کسی آئینی پابندی کے بغیر ہی سیدھے اور صاف ستھرے راستے سے گزرتی ہو اور جنہوں نے ایسی کوئی پابندی کسی آئین کے ڈر سے نہیں بلکہ اللہ و رسولؐ کے خوف سے ازخود اختیار کی ہو بحمد اللہ ایسے پاکستانیوں کی مثالیں موجود ہیں۔
ہمارے ایک کرمفرما دوست رانا نذر الرحمٰن نے حال ہی میں ایک مضمون میں ایک ایسی ہی نادر روز گار شخصیت کی نشاندہی کی ہے، یہ تھے مولانا نعیم صدیقی۔ جماعت اسلامی کے ایک لیڈر اور کارکن۔ وہ 25 ستمبر 2002 کو لاہور میں وفات پا گئے۔ رانا صاحب کی طرح مجھے بھی ان سے ملاقات یا ملاقاتوں کی سعادت حاصل رہی، وہ بہت ہی خوبصورت شاعر بھی تھے اور اسلامی ادب کی تحریک کے ایک لیڈر بھی۔ وہ ماہنامہ چراغ راہ اور ترجمان القرآن کے ایڈیٹر بھی رہے لیکن ان کی شخصیت کی طرح ان کا قلم بھی پاک و صاف اور ہر قسم کی آلودگی سے محفوظ رہا، اس شعبے میں وہ ہم لوگوں کے آئیڈیل تھے۔ ویسے سیاست میں آج ہم اسی جماعت کے سید منور حسن کو بھی اسی حال میں زندگی کرتے دیکھتے ہیں۔
آج ان کی سیاسی زندگی کا ایک واقعہ سن لیجیے۔ ایوب خان کے لائے ہوئے بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت 1962 میں قومی اسمبلی کے الیکشن ہوئے تو ان کو جماعت کی طرف سے اس میں حصہ لینے کا حکم ملا۔ نعیم صاحب کے حلقہ انتخاب میں لاہور کے سمن آباد اور اسلامیہ پارک کے علاقے شامل تھے چونکہ رانا صاحب یہاں بی ڈی الیکشن میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے چنانچہ وہ نعیم صاحب کی انتخابی مہم کے انچارج تھے۔
انتخابی مہم پر ہر روز مقررہ وقت پر نکلنا ہوتا تھا لیکن نعیم صاحب ہمیشہ دیر کر دیتے تھے۔ ٹیم میں شامل ساتھی ان کا انتظار کرتے رہتے۔ ایک دن میں نے ان سے کہا کہ بی ڈی ممبران صبح سویرے ہی ملتے ہیں، دیر کر دیں تو وہ گھروں سے نکل جاتے ہیں۔ ایک دن میں نے اس روز مرہ کی تاخیر کی وجہ پوچھ ہی لی۔ کہنے لگے میرے پاس کپڑوں کا ایک ہی جوڑا ہے' میں روزانہ شام کو وہ جوڑا دھونے کے لیے گھر والوں کو دے دیتا ہوں اور خود ایک چادر لپیٹ کر سو جاتا ہوں۔ اہلیہ میرا جوڑا دھو کر پنکھے کے نیچے رکھ دیتی ہے، بعض اوقات یہ کپڑے صبح تک پوری طرح سوکھ نہیں پاتے، اس لیے کچھ دیر ہو جاتی ہے، وہ ان دنوں کھدر کے کپڑے پہنتے تھے۔
محترم قاضی حسین احمد نے جب جماعت کی امارت کا منصب سنبھالا تو انھوں نے نعیم صاحب کو ادارہ معارف اسلامی کا انچارج بنا دیا یا یوں کہیں کہ انھیں کھڈے لائن لگا دیا۔ ایک روز میں ان سے ملنے ان کے دفتر گیا تو انھوں نے بڑی خندہ پیشانی سے مجھ سے مصافحہ کیا اور اپنی سامنے والی کرسی پر بیٹھا لیا، برسبیل تذکرہ میں نے ان سے کہا کہ ماشاء اللہ آپ کی عمر اب کتنی ہو گئی ہے۔ ان کے جواب میں آزردگی تھی۔ بولے، عمر رائیگاں کے بارے میں کیا پوچھتے ہو۔ میں نے کہا کہ یہ بات کیا وہ شاعر کہہ رہا ہے جو اپنی اہلیہ سے ایک طویل نظم میں یوں مخاطب ہوتا ہے
اٹھارہ سال یوں ہی حسرتوں میں بیت گئے
تمہارے واسطے ساٹن کا سوٹ سل نہ سکا
نعیم صاحب اپنا بھولا بسرا کلام سن کر دھیمے سے مسکرائے اور کہا، تمہیں میری وہ نظم ابھی تک یاد ہے اور اب میں وہی نظم یہاں درج کر رہا ہوں جس کا ہر لفظ حقیقت پر مبنی ہے اور اہل قلم سے سوال کرتا ہے کہ کیا آج تمہاری صفوں میں کوئی ان روایات کو زندہ رکھنے والا موجود ہے یا یہ دنیا اجڑ چکی ہے۔ اب وہ نظم ملاحظہ فرمائیے۔
بیوی سے خطاب
نعیم صدیقی
تمہارے تن کو لباس حریر مل نہ سکا
اٹھارہ سال یونہی حسرتوں میں بیت گئے
تمہارے واسطے ساٹن کا سوٹ سل نہ سکا
بساط زر پہ کئی لوگ کھیل جیت گئے
گلہ کرو' نہ کرو' یہ صبر و ضبط محبت بھرا تکلف ہے
میری نظر میں تم اک شکوہ مجسم ہو
نہ کوئی آہ نہ وائے' نہ حیف نہ اُف ہے
تم اپنے ذوق کا اک مرثیہ ہو' ماتم ہو
سہیلیوں کے تمہارے قہقہے ستاتے ہیں
پڑوسنوں کے یہی ٹھاٹھ چھیڑ جاتے ہیں
تمہارے دل میں جو اٹھتی ہیں رشک کی لہریں
تو کتنے ذوق ہیں جو پیچ و تاب کھاتے ہیں
یہ سارھیاں' یہ غرارے' یہ سینڈلیں' یہ نقاب
یہ انگیائیں' یہ موباف اور بنیانیں
یہ خوشبوئوں کے بگولے' یہ پوڈروں کے سراب
کہاں سے آتے ہیں' کس مول آپ کیا جانیں
گرہ کٹوں کی عفونت بھری کمائی کے
مظاہرے ہیں جو پوری طرح سے عریاں ہیں
اگر میں چاہوں تو ظلم و ستم کی منڈی میں
ضمیر بیچ کے دولت کما کے لے آئوں
میں کاٹ کاٹ کے افلاس و ضعف کی جیبیں
تمہارے واسطے سکے اڑا کے لے آئوں
حریم سادہ دلی میں نقب زنی کر کے
ہزار عیش کے ساماں چرا کے لے آئوں
دماغ پاس ہے اس کو کرائے پر دے کر
میں ایک جنت راحت سجا کے لے آئوں
اگر میں چاہوں تو اک جنبش قلم کے طفیل
طلا و سیم کے دریا بہا کے لے آئوں
مگر یہ سوچ تو لو
مرے ضمیر کی جب روح کر گئی پرواز
تو ایک لاش کو بن ٹھن کے کیا دکھائو گی
مری خودی جو گنوا دے حیات کے انداز
تو کیسے پیکر لحمی سے دل لگائو گی
تم اک ذلیل سے سوداگر ہوس کے لیے
پھر احترام کا جذبہ کہاں سے لائو گی
وہ حق فروش جو گر جائے اپنی نظروں سے
تم اپنی آنکھوں پہ کیسے اسے بٹھائو گی