ثانیہ پاکستان کی بہو ہیں، ہندوانتہا پسندوں کا ٹینس اسٹار کواعزازی سفیر بنانے پرانوکھا اعتراض

ویب ڈیسک  جمعرات 24 جولائی 2014
ثانیہ مرزا پاکستان کی بہو بننے کے باوجود بین الاقوامی ٹینس ایونٹ مین بھارت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ فوٹو: فائل

ثانیہ مرزا پاکستان کی بہو بننے کے باوجود بین الاقوامی ٹینس ایونٹ مین بھارت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ فوٹو: فائل

حیدر آباد دکن: بھارت میں بی جے پی کو دوبارہ اقتدار کیا ملا ہندو انتہا پسندو نے ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا ہے،ان کا تازہ ہدف ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا بنی ہیں جنہیں ریاست تلنگانہ کا برانڈ ایمبیسیڈر بنانے پر بی جے پی کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے۔  

بی جے پی کو دوبارہ اقتدار کیا ملا اس کی مسلم دشمنی بھی کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔  کہیں نماز فجر کی اذان پر پابندی کے مطالبے ہورہے ہیں تو کہیں مسلمانوں کے روزے تڑوائے جارہے ہیں اور کہیں مسلمان کو نمائندگی دینے پراعتراض کیا جارہا ہے۔ اس کی تازہ مثال ریاست تلنگانہ میں سامنے آئی ہے جہاں بی جے پی نے انتہا پسندانہ سوچ کے تحت ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کو ریاست کا برانڈ ایمبیسیڈر مقرر کرنے پر بھی اعتراض کردیا ہے۔ اس حوالے سے بی جے پی کے ریاستی رہنما کے لکشمن کا کہنا ہے کہ ثانیہ مرزا ممبئی میں پیدا ہوئیں، حیدر آباد دکن میں پلی بڑھی اور تو اور شادی بھی ایک پاکستانی سے کی اور اب پاکستان کی بہو ہیں، ایسی صورت میں بھلا انہیں کیونکر ریاست کا سفیر بنایا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب ثانیہ مرزا نے کہا ہے کہ معمولی بات پر وقت ضائع کیا جارہا ہے، ان کا خاندان ایک صدی سے زائد عرصے حیدر آباد میں آباد ہے، وہ بھارتی تھیں ، ہیں اور رہیں گی، انہیں کسی دوسرے ملک کا شہری کہا جائے یہ ان کے لئے تکلیف دہ ہے۔

مسلمانوں کے خلاف دلوں میں بغض رکھنے والی بے جے پی کے لکشمن کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراض اس قدر بودے ہیں کہ ان کے اپنے رہنما بھی اس کا دفاع نہیں کرسکتے کیونکہ ثانیہ مرزا بھلے ہی پاکستان کی بہو ہوں لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی بھارتی شہریت ترک نہیں کی اور بین الاقوامی مقابلوں میں اب بھی وہ اپنے آبائی ملک ہی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اگر ثانیہ تلنگانہ کی برانڈ ایمبیسیڈر نہیں بن سکتیں تو پھر نریندر مودی نے اتر پردیش میں پیدا ہونے والے امیتابھ بچن کو گجرات کی وزارت سیاحت کے برانڈ ایمبیسیڈر کیوں مقرر کررکھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔