اردو پر اصرار قائداعظم کی غلطی نہیں!…

رضوان طاہر مبین  جمعـء 25 جولائی 2014

اگر کسی چیز کے اجزائے ترکیبی کو ہی اس کے فنا ہونے کا ذمے دار ٹھہرایا جانے لگے، تو یہ بات نہ صرف غیر منطقی ہو گی، بلکہ اس کا واضح مطلب اصل عوامل سے نظریں چرانے کی غافلانہ روش ہو گی۔ اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھ لیا جانا ہی بہتری کا راستہ ہوتا ہے، لیکن اگر سماج کے رائے ساز اور دانشوِر حلقے ہی اپنا وتیرہ غفلت اور جانب داری بنا لیں، تو پھر نتائج کچھ اچھے نہیں نکلا کرتے۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور تاریخی طور پر طے شدہ ہے کہ اردو پاکستان کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہے اور تحریک پاکستان کے دوران اس بات میں ذرہ برابر کوئی شبہ باقی نہ تھا کہ اس ملک کی واحد قومی زبان اردو ہو گی۔ اب نظریاتی طور پر ہر فرد کو حق حاصل ہے کہ وہ اس کی حمایت کرے یا مخالفت کرے، مگر ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے مصداق ہوا میں معلق نہ رہے۔

قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں جب ڈھاکا میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کا مسئلہ کھڑا ہوا، تو قائد اعظم نے وہاں جا کر قیام پاکستان سے قبل کا موقف دُہرایا کہ پاکستان کی قومی زبان تو صرف اردو ہی ہوگی، البتہ اگر کوئی صوبائی سطح پر اپنی زبان اختیار کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔ قائداعظم کا یہ کہنا کوئی غلطی تھی اور نہ ہی تقسیم پاکستان کی وجہ۔ نہ ہی قائداعظم نے اپنے اس فیصلے کو کبھی غلط قرار دیا۔ لہٰذا محض اپنے ذاتی خیال کے تحت بغیر کسی تاریخی حوالے کے یہ قرار دینا کہ قائداعظم کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا، بہت غیر مناسب بات ہے۔

ہاں ہر ایک کو آزادی اظہار کا حق ہے، واضح طور پر اس فیصلے پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ شاید ایسا کرنے سے کچھ لوگوں کے نام نہاد پاکستانیت کے پرچارک ہونے کو زک پہنچتی ہے اور نظریے سے قطع نظر انھیں محض کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر یہ ’’حب الوطنی‘‘  بہت راس ہے، اس لیے وہ ایسا کرنے سے عمداً گریز کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی کھل کر اِدھر یا اُدھر کا موقف نہیں اپنا سکتا، تو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ میں من چاہی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔

رہی بات سقوط ڈھاکا کا سارا ملبہ اردو پر گرانے کی، تو ایسی سوچ کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی المیہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ اگر مشرقی پاکستان میں مسئلہ محض زبان کا تھا، تو ملک کے پہلے دونوں دساتیر (1956ء اور 1962ء) میں اردو کے ساتھ بنگالی بھی قومی زبان مان لی گئی تھی، پھر آخر کیوں علیحدگی کی نوبت آئی؟ نہایت افسوس کی بات ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والے باشعور اور حساس افراد ابھی تک بنگالیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے استحصال، ظلم اور زیادتیوں سے پردہ پوشی کی روش سے باہر نہیں آ سکے ہیں۔

کچھ تہذیبی نرگسیت ہے اور کچھ جانب داری، مگر ہمیں یہ یاد رکھ لینا چاہیے کہ غلطیوں کے اعتراف سے ماضی کا نقصان تو اگرچہ پورا نہیں ہوا کرتا، مگر ہم مستقبل کے ایسے کسی نقصان سے ضرور بچ سکتے ہیں۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ بہ حیثیت مغربی پاکستان کے باشندے کے، ہم نے مشرقی پاکستان کے لوگوں سے زیادتیاں کیں۔۔۔ انھیں ان کے حقوق سے محروم رکھا۔۔۔ ان کے وسائل میں انھیں حصہ نہیں دیا۔۔۔ ان سے تفریق اور تعصب برتا۔ جس کی بنا پر انھوں نے اپنے راستے ہم سے جدا کر لیے۔

اگر آج  43 برس بعد اب بھی ہم کھل کر اپنی غلطیوں کے اعتراف سے ہچکچاتے رہے، تو یہ رویہ ایسے مزید سانحوں کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ بد قسمتی سے ایسا کرنے والے ایک طرف خود کو اس عظیم سانحے سے بری الذمہ قرار دے رہے ہوتے ہیں، دوسری طرف اردو کے حوالے سے اپنے دل کا میل بھی نکال رہے ہوتے ہیں، جب کہ اسی زبان کے وسیلے سے انھیں ایک مقام اور شناخت ملی ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اردو کسی ایک گروہ کی نہیں بلکہ یہ سب کی زبان ہے۔

ایک سے زائد قومی زبانوں کا معاملہ دیکھا جائے، تو ہر ملک کا الگ الگ تاریخی پس منظر ہوتا ہے۔ اس ملک کے آئین و قانون کو اسی پر استوار کیا جاتا ہے۔ اس لیے کسی بھی دوسرے ملک میں ایک سے زائد قومی زبانوں کا ہونا ہمارے لیے دلیل نہیں بن سکتا۔ چاہے وہ امریکا ہو یا کینیڈا، کیوں کہ اِس ملک کے قیام کے لیے لوگوں نے جس بنیاد پر قربانیاں دیں، اس بنیاد کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ نام تو اس ملک کا لیتے رہیں اور اس کی بنیاد سے کھلم کھلا یا دبے لفظوں میں انحراف کی راہ اپنائے رہیں۔

کبھی عاقبت نااندیشی اختیار کر کے اسے ہی فقط ملک کی تقسیم کا ذمے دار ٹھہرا دیں، تو کبھی وڈیرہ شاہی اور نوکر شاہی کی طرح اسے دیگر پاکستانی زبانوں  کے مقابل لا کھڑا کریں۔۔۔ اردو کے ذریعے دیگر زبانوں کو ’’شودر‘‘ بنائے جانے کا عذر کریں، جب کہ اردو کا دائرہ عمل تو اصل میں دیگر پاکستانی زبانوں سے بالکل مخلتف ہے۔  یہاں 60 برسوں سے اردو کا مقابلہ تو انگریزی سے ہے، نہ کہ کسی اور زبان سے۔ اس لیے اردو کے نفاذ کے ذیل میں ان تمام عوامل کو کس طرح مذکور کیا جا سکتا ہے۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ اگر کوئی زبان کی چاشنی کی غرض سے اردو میں اس کے روزمرہ اور محاورے استعمال کرتا ہے، تو اس پر دلی اور لکھنئو کی پھبتی کسنا آخر کیسی بات ہے؟

جب کہ لسانیات کے ضمن میں یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ زبان بنیادی وسیلہ ابلاغ ہے۔ جب بھی کسی نے زبان سے ابلاغ کا بنیادی فعل چھیننے کی کوشش کی، وہ مشکل پسندی نہیں جھیل پائی، لہٰذا جہاں ابلاغ کمزور ہو گا وہاں خود زبان اپنا راستہ بنا لے گی، بس ذرا وسعت نظری کی ضرورت ہے۔ جہاں تک بات ہے، دیگر پاکستانی زبانوں اور اردو کے اشتراک کی تو اسے باقاعدہ انجام دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، زبانیں یہ عمل بتدریج خود سے کیا کرتی ہیں۔

راتوں رات کبھی بھی یہ عمل انجام نہیں پایا کرتا اور اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کے درمیان یہ اشتراک جاری ہے اور جاری رہے گا۔قومی زبان اردو کو اس کا حق دینے میں فقط اس ملک کی افسر شاہی اور حکمراں حائل ہیں۔ وہ چاہیں تو اردو کو رائج کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ اس کے سوا کسی اور کو مورد الزام ٹھہرانا انصاف نہیں۔

آئین کی دفعہ 251 کے تحت اردو کے نفاذ کی مدت 1988ء تک تھی۔ افسوس ناک امر ہے کہ آج آئین کی دفعہ 251 کی مسلسل خلاف ورزی کو ربع صدی بیت چکی اور ہم ٹھیک سے اس کے ذمے داران کا تعین کرنے کے بجائے تاریخی حقائق کو خلط ملط کر رہے ہیں۔ یہ سب چیزیں رائے عامہ کو مزید الجھانے اور تقسیم کرنے کا باعث بن رہی ہیں، جس کے ہم قطعی طور پر متحمل نہیں ہو سکتے۔ قومی زبان اپنے تمام بولنے، لکھنے اور سمجھنے والوں سے اس کی واحد حریف انگریزی کے خلاف سینہ سپر ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے، تا کہ اسے اس کا حق مل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔