(پاکستان ایک ںظر میں) - پاک چین دوستی میں دراڑ

 جمعـء 5 ستمبر 2014
اندرونی انتشار کے سبب چینی صدر کیجانب سے دورہ پاکستان ملتوی ہونے پر بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے۔ فوٹو: ایکسپریس

اندرونی انتشار کے سبب چینی صدر کیجانب سے دورہ پاکستان ملتوی ہونے پر بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان اندرونی طور پر سیاسی جنگ میں گھرا ہے تو بیرونی طور پر ہمسایوں کے حملوں کا شکار،یہ حملے ہتھیاروں سے بھی جاری ہیں اور سفارتی سطح پر بھی۔اس عالمی تنہائی پر بے بسی کا اظہار وزیراعظم نوازشریف بھی قومی سلامتی کانفرنس میں کرچکے ہیں،بھارت،افغانستان پاکستان کے ایسے ہمسائے ہیں جن پر کبھی اعتماد یا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا مگر چین، پاکستان کا ایک ایسا دوست ملک ہے جس کی دوستی پر پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کو اعتماد ہے،میرے خیال میں تو یہ دوستی پاکستان کیلئے’’لائف لائن‘‘ ہے اور اسلام آباد میں جاری حالیہ دھرنوں کی وجہ سے  اس لائف لائن میں دراڑ پڑ چکی ہے جس کی وجہ چینی صدر کا طے شدہ دورہ منسوخ ہونا ہے جس میں 32 ارب ڈالر کے منصوبے ہونے تھے جو ہماری گھر کی جنگ کی نظر ہو گئے ۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف حال ہی میں گوادر گئے،انہوں نے کہا ہے کہ گوادر فری پورٹ بننے اور پاکستان –چین اقتصادی راہداری کے نتیجے میں گوادر دبئی، سنگاپور اور ہانگ کانگ کی طرح فری پورٹ بن سکتا ہے۔دونوں ممالک کی حکومتیں اس دوستی کو شہد سے میٹھی اور سمندر سے گہری قرار دیتے ہیں، موجودہ داخلی اور خارجی خدشات اور تحفظات اپنی جگہ ہیں اور ان سب کی موجودگی میں کیا گوادر کو سنگاپور بنانے کا خواب یا بلوچستان کی قسمت بدلنے کا خواب حقیقت بن سکے گاٗ؟

گوادر بندرگاہ کا انتظام ان دنوں ایک چینی سرکاری کمپنی کے پاس ہے اور یہ ایرانی سرحد کے قریب واقع ہے جو آبنائے ہرمز کی جانب جاتا ہے۔ آبنائے ہرمز خود تیل کی سمندر کے ذریعے نقل و حمل کا اہم راستہ ہے،یہ کوریڈور چین کو مغربی اور وسطی ایشیا سے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی سہولت دیتا ہے اور ساتھ ہی اس سے پاکستان کے مالی حالات میں بہتری کی توقع بھی کی جا رہی ہے،اور پاک چین اقتصادی کوریڈور کا مقصد پاکستان کی سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائنوں کی تعمیر نو کرنا ہے تاکہ سمندر کے ذریعے سامان کی ترسیل ہو سکے۔ چین پاکستان میں اس وقت 120 منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں 15 ہزار تک چینی انجینیئر اور تکنیکی ماہرین موجود ہیں۔

چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعاون اس وقت 12 ارب ڈالر ہے جو چین کے دیگر ملکوں (جیسا کہ بھارت)کے ساتھ تجارتی تعلق کے مقابلے میں کم ہے۔ دس ہزار پاکستانی طلبہ چین میں زیرِ تعلیم ہیں اور اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں چینی پاکستانی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں، جیسے کہ اسلامک یونیورسٹی اور نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجز، جہاں ایک کنفیوشس سینٹر بھی قائم ہے۔رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایک تہائی چینی پاکستان کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں جبکہ 23 فیصد بھارت کے بارے میں اور 42 فیصد امریکہ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔ دوسری جانب 2013 میں تحقیقاتی تنظیم پیو کی جانب سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق 81 فیصد پاکستانی چین کو پسند کرتے ہیں،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرق کس بات کی وضاحت کرتا ہے،کیا اس کی وجہ پاکستان میں سلامتی کے حوالے سے غیر پائیدار صورت حال ہو سکتی ہے؟، جس سے ماضی میں چینی بھی متاثر ہوچکے ہیں۔

یاد رہے کہ چین کا پاکستان کی فوجی خود انحصاری میں نمایاں کردار رہا ہے اور 2008 سے 2013 کے درمیان آدھے سے زیادہ چینی ہتھیاروں کا وصول کنندہ پاکستان تھا،مئی 2014 میں جہاں نواز حکومت نے اپنا پہلا سال مکمل کیا ہے وہیں چین پاکستان تعلقات کو 63 سال پورے ہو رہے ہیں اور پی سی ای سی جیسے بڑے منصوبوں پر کام آگے بڑھ رہا ہے،اس حوالے سے سکیورٹی خدشات پر بھی بظاہر قابو پانے کی حکمتِ عملی نظر آتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطے کے بدلتے حالات میں یہ حکمتِ عملی کس حد تک کارآمد ہو گی اور پاکستان جہاں اپنے داخلی سلامتی کے خطرات سے دوچار ہے کیا وہ ایک دوست ملک کے مفادات کی حفاظت کر پائے گا؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔