(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - امن کا نوبل ایوارڈ جیتنے کا آسان نسخہ!

اویس حفیظ  منگل 21 اکتوبر 2014
نوبل امن ایوارڈ  حاصل کرنے کے لیے امن کے فروغ کی نہیں بس ’ڈارلنگ آف ویسٹ‘‘ بننے کی ضرورت ہے۔ اگر آج الفریڈ نوبیل زندہ ہوتا تو ایسے بلنڈرز کو دیکھنے کے بعد شاید اِس ایوارڈز کا ہی خاتمہ کردیتا۔ فوٹو فائل

نوبل امن ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے امن کے فروغ کی نہیں بس ’ڈارلنگ آف ویسٹ‘‘ بننے کی ضرورت ہے۔ اگر آج الفریڈ نوبیل زندہ ہوتا تو ایسے بلنڈرز کو دیکھنے کے بعد شاید اِس ایوارڈز کا ہی خاتمہ کردیتا۔ فوٹو فائل

الفریڈ نوبل کا تو متمع نظر ہی کچھ اور تھا وہ تواپنے دامن پر لگا دھبہ دھونا چاہتا تھا لیکن اگر اسے معلوم ہوتا کہ یہی کھیل دوبارہ کھیلا جائے گاتو شاید وہ اپنی وصیت تبد یل کر لیتا اور کسی بہتر چیز کا خیال دل میں لاتا۔

21اکتوبر 1833ء کو سویڈن میں پیدا ہونے والے الفریڈ کو ایک عرصہ تک دنیا ڈائنا مائیٹ کے موجد کے حیثیت سے پہچانتی تھی۔ مگر 1888 کوغلطی سے اپنی  حیات میں ’’موت کا سوداگر چل بسا‘‘ کے عنوان سے فرانسیسی اخبار میں اپنی موت کی خبر پڑھنے کے بعد اس کی سوچوں کا دھارا یکسر تبدیل ہو گیا تھا۔ اور وہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا  میرے مرنے کے بعد دنیا مجھے اس نام سے یاد رکھے گی؟بس یہ ہی ایک سوچ اور خدشہ تھا جس نے اس ’’الفریڈ نوبیل ‘‘ کو’نوبیل انعام‘ کے اجراء پر آمادہ کیا۔

10 دسمبر6 189ء کوالفریڈ نوبیل تو اس جہانِ فانی کو چھوڑ گیا مگر اس کی وصیت نے اس کے نام کو آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ الفریڈ نوبیل نے اپنے مرنے سے پہلے کئی وصیتیں کی تھیں لیکن اپنی آخری وصیت جو کہ مرنے سے ایک سال پہلے کی گئی تھی اُس میں اس نے اپنی کل جائیداد کا 94فیصد ( تقریباً 186ملین امریکی ڈالرز)ان لوگوں کے لئے وقف کر دیا جو امن، طبیعات، کیمیا، سوشیا لوجی یا ادویات اور ادب کے میدان میں انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے کوئی اہم اور بڑا کارنامہ سر انجام دیں۔

1901ء میں پہلی مرتبہ نوبیل پرائز دیا گیا اور اس کی 113سالہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ طبیعات، کیمیا، سوشیالوجی اور ادویات کے میدان میں تو نوبیل پرائز غالب حد تک میرٹ پر دیا جاتا ہے مگر امن اور ادب کے معاملے میں اس ایوارڈ کی نامزدگیوں میں ایسے ایسے’’بلنڈرز‘‘ کیے گئے ہیں کہ اگر آج الفریڈ نوبیل  زندہ ہوتا تو شاید یہ دونوں ایوارڈز ہی ختم کر دیتا۔

جب جنگی جرائم کے مرتکب افراد بھی نوبیل پیس پرائز سے نوازے جائیں تو ان حالات میں اس پیس ایوارڈ کی کیا وقعت رہ جاتی ہے؟ریاست اسرائیل کے 4سربراہان، یزہاک رابن (Yitzhak Rabin)، مینا چیم بیگین (Menachem Begin) ، شمعون پیریز(Shimon Peres) اور بینجمن نیتن یاہو (Benjamin Netanyahu) یہ ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں اور یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ ان چاروں کے ادوار میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے نت نئے باب رقم کیے گئے۔ اس وقت بھی فلسطینیوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور حسن اتفاق کے اس وقت بھی سرائیل کے وزیر اعظم نوبیل پیس ایوارڈ یافتہ بینجمن نیتن یاہو ہیں۔

دنیا میں امن کے سب سے بڑے علمبردار امریکا کے بھی 4 صدور یہ ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ وُڈ رو ولسن (Woodrow Wilson)کو پہلی جنگ عظیم کے دوران امریکا کی جانب سے بھرپورحصہ لینے پر 1919ء میں یہ ایوارڈ دیا گیا۔ارجنٹائن میں ڈیتھ سکواڈ کے ہاتھوں عوام کا قتل عام کروانے پرجمی کارٹرکو یہ ایوارڈ دیا گیا۔تھیوڈور روزویلٹ (Theodore Roosevelt) کو فلپائن میں نسل کشی کی تاریخ رقم کرنے امن کے ایوارڈ سے نوازا گیا اور موجودہ امریکی صدر اوباما کو افغانستان اور عراق جنگ میں بقدر استطاعت حصہ ڈالنے پر اس ایوارڈ کا تاج پہنا یا گیا۔میں تو آج بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سابق امریکی مشیر ہنری کسنجر اوریورپی یونین نے دنیا میں ایسی کونسی امن کیلئے خدمات سر انجام دیں کہ انہیں بھی اس ایوارڈ کا حقدار سمجھا گیا۔

لیکن ٹھہریں۔۔۔!!!

نوبیل پیس ایوارڈ کیلئے ’’کرائی ٹیریا‘‘ سمجھنے سے پہلے یہ چند واقعات جاننا ضروری ہیں۔ 1935ء میں جب نوبیل فاؤنڈیشن کی کمیٹی کے مطابق کوئی بھی ’’پیس ایوارڈ‘‘ کے معیار پر پورا نہ اترا تو پھر جرمن صحافی کارل وون اوزیسکی(Carl von Ossietzky)کو ہٹلر کے خلاف محاذ آرائی کے سبب 1936ء میں پچھلے برس کا ادھارایوارڈ دے دیا گیا۔سرد جنگ کے دور میں یکایک روس کی مخالفت پر اترنے والے روسی سائنسدان آندرے سخاروف کو 1975ء میں امن کا ایوارڈ دیا گیااور یہ مخالفت مغرب کو اتنی بھائی کہ سخاروف کے نام پر اسی طرز کے ایک اور ایوارڈ کا اجراء کر دیا گیا۔انقلاب ایران کی مخالفت کرنے اور شرعی سزاؤں کو وحشیانہ قرار دینے پر 2003ء میں ایرانی نژاد شیرین عبادی کو یہ ایوارڈ دیا گیا۔ پڑوسی ملک چین کے تقریباً1 1 لوگ نوبیل ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے مگر ایوارڈ صرف اور صرف 2010ء میں لیو شائیبو (Liu Xiaobo) کو دیا گیا کیونکہ اس کا کارنامہ چین کے حکومتی نظام اور کمیونزم کے نشانہ ہدف بنانا اور حکومت کی سیاسی مخالفت کرناتھا۔

دنیا کی سب سے بڑی پرائیوٹ ایمبولینس سروس مہیا کرنے والے عبدالستار ایدھی کو خدمتِ انسانیت کے صلے میں کبھی اس ایوارڈ سے نہیں نوازا گیا۔ سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں اپنا ملک آزاد کروانے پر قائد اعظم کو پیس ایوارڈ یا لٹریچر میں علامہ اقبال کو کہ جن کی شاعری کو دنیا نے ترجمہ کر کے چھاپا، انہیں کبھی یہ ایوارڈ نہیں دیا گیا۔دنیا بھر میں اپنی ذہانت کا لوہا منوانے والے اور تاریخ سیاست میں ایک منفرد باب رقم کرنے والے علامہ عنایت اللہ مشرقی کی تفسیرِقرآن کی نوبیل انعام کیلئے نامزدگی کے بعد یہ اعتراض لگادیاگیا کہ پہلے اس کا کسی یورپی زبان میں ترجمہ کروائیں۔ یعنی دنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ کے دعویدار چند مخصوص زبانوں کو ہی اس ایوارڈ کا حقدار سمجھتے ہیں۔چلیں مانا کہ یہ ایک مخصوص فکر کے حامل لوگ تھے مگر کبھی عدم تشدد فلسفے کے عظیم داعی موہن چند کرم داس گاندھی کو بھی اس حوالے سے درخور اعتنا ء نہیں سمجھا گیاکیونکہ یہ لوگ اپنی قوم میں تو مقبول تھے مگر مغرب کی ڈارلنگ نہیں بن سکے۔ ملالہ پر حملہ 9 اکتوبر 2012ء  میں ہوا اور اسے 2013ء کے پیس ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا مگر ایوارڈ 2014ء میں اس وقت دیا گیا جب وہ اپنی’’ افادیت‘‘ کھوتی جا رہی تھی۔

اگر آپ بھی نوبیل پیس ایوارڈحاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ بات پلے باندھ لیں کہ اس کا سب سے آسان طریقہ ’’ڈارلنگ آف ویسٹ‘‘ بننا ہے۔ اگر کسی بھی طرح مغرب آپ پر فریفتہ ہو گیا تو سمجھ لیں کہ اگلا نوبیل پیس ایوارڈ آپ کا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔