گل خان نصیرکی اردو شاعری

عابد میر  ہفتہ 1 نومبر 2014
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

میری عمر کے لوگوں نے ابھی ٹھیک سے بولنا بھی نہ سیکھا ہوگا کہ اس خطے کی وہ توانا اور رہنما آواز ہمیشہ کے لیے تھم چکی تھی، جس نے بعدازاں ہم سمیت آنے والی کئی نسلوں کی فکری رہنمائی کرنا تھی (1983 گل خان نصیر کی وفات کا سال ہے)۔ بلوچی کا ملک الشعرا رخصت ہو چکا تھا۔ سرد جنگ کے عروج کا زمانہ، آمر خطے میں سامراجی مفادات کا نگہبان بن کر سماج کو اعلیٰ انسانی اوصاف سے مزین کرنے کے خواب دیکھنے والے اشراف انسانوں پہ قہر بن کے ٹوٹا ہوا تھا۔

بلوچستان، بھٹو کے لگائے زخم سہلا رہا تھا۔ سیاسی و مزاحمتی تحریک تتر بتر ہو کر قبائلی و نجی دشمنیوں کی شکل اختیار کرچکی تھی (گویا عہد حاضر کا زمانہ ہو)۔ بلوچستان کی سیاسی و ادبی فضا ایک گہری یاسیت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ لیکن فانی جہاں سے رخصت ہونے والے اس شاعرکی ’آس دلاتی، حوصلہ بخشتی، امید بڑھاتی شاعری‘ مایوسی کی سیاہ رات میں امید کی مشعل بن کر روشن رہی۔ ہماری نسلوں کو سامراج، سردار اور زردار کا استحصالی چہرہ جن آئینوں نے واضح کرکے دکھایا، گل خان نصیر کی شاعری ان میں سے ایک بڑا آئینہ تھی اور اس میں ان کی مقدار میں کم لیکن اعلیٰ پائے کی اردو شاعری کا بڑا حصہ ہے۔

ہمیں ہمارے اکابرین نے بتایا کہ ’’میر گل خان نصیر بلوچی زبان کے ملک الشعرا تو ہیں ہی، انھوں نے اردو اور فارسی میں بھی اچھی اور خوب صورت شاعری کی ہے۔ بلوچی شاعری تو انھوں نے بہت بعد میں شروع کی، ابتدا تو اردو سے ہوئی تھی۔ اور انھوں نے یہ کام 1930 کی دہائی کے اوائل سے شروع کیا تھا، جب انگریز (سامراج) مخالفت تھی، حب الوطنی تھی اور تھوڑی تھوڑی خلافت ترکی کی طرف داری تھی۔

اس خطے میں ہر جگہ اور ہر زبان میں یہی شاعری ہورہی تھی۔ میر گل خان کی اردو شاعری اس زمانے کے دیگر سامراج دشمن، وطن دوست شعرا کی بو اور ذائقہ رکھتی ہے۔ بہت ڈائریکٹ، بہت بروقت اور بہت عوام دوست شاعری، جو شاعری کی تمام ضروریات پوری کرتی ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں گل خان سمیت، اردو شاعروں کا ڈکشن، دلائل اور اسلوب تقریباً ملتے جلتے تھے۔

’’گل خان کی اردو شاعری ریاست قلات والی سرگرمیوں کے دور کی شاعری ہے، اس لیے وہ طبقاتی حوالے سے بہت ڈائریکٹ اور واضح رہی ہے۔ وہ اپنی اردو شاعری (جو کہ ان کی اولین شاعری ہے) میں کھل کر مزدور، کسان اور عام بلوچ کے گن گاتے ہیں۔ وہ سرداروں، زرداروں کی مخالفت کسی بھی لگی لپٹی کے بغیر کرتے ہیں۔ سامراج دشمنی بھی ان کی اردو شاعری کا ایک توانا ستون رہی ہے۔ میر گل خان نصیر، اقبال، یوسف عزیز مگسی اور دیگر معاصرین کی طرح اسلام کواپنی سامراج دشمن، کمیونسٹ سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں۔ عام بلوچ آدمی ان کی اردو شاعری کا واحد موضوع رہا ہے۔

ان کی اردو شاعری میں زبردست نغمگی موجود ہے۔ بعد میں جب وہ ’بڑے‘ بن گئے، ان کی سیاست پورے بلوچستان میں صورت پذیر ہوگئی اور بالائی طبقہ سے بہت سے ’نمایندے‘ اس پارٹی میں در آتے آتے اس کے لیڈر بن گئے، تب میر گل خان نصیر کی شاعری طبقاتی سے ’ارتقا‘ یا ’مراجعت‘ کرتے کرتے ’قومی‘ بن گئی، جہاں نچلا طبقہ موضوع سخن بننے سے محروم ہوتا گیا اور کبھی کبھار اس کا ہونے والا تذکرہ بھی دراصل لیدڑوں کے مفاد سے ہم رنگ، حدود میں ہی رہا۔‘‘ (شاہ محمد مری، پیش لفظ، ’’کارواں کے ساتھ‘‘)

یہاں گل خان، اپنے فکری ساتھی بزنجو کی طرح اپنی سادہ لوحی میں اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ سرداروں کا ساتھ لے لینے سے قومی طبقاتی جدوجہد کا دائرہ کار وسیع و مستحکم بنایا جاسکتا ہے۔ حالانکہ تاریخ کی بے رحم حقیقت یہ تھی کہ جہاں طبقاتی مفادات ٹکراتے ہوں، وہاں قومی تعلق پس پشت چلا جاتا ہے۔ بلوچ سردار، استحصالی وڈیرے کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پہ بیٹھ سکتا ہے، لیکن ایک عام بلوچ مخلص کارکن، اپنے تمام تر خلوص، قربانیوں اور جدوجہد کے باوجود اس کا طبعی و فکری باڈی گارڈ تو بن سکتا ہے، اس کی ہمسری نہیں کر سکتا۔ سو، بزنجو اورگل خان نے جس ’شارٹ کٹ‘ کا انتخاب کیا تھا، اس کا انجام الم ناک ہی ہونا تھا۔

یہ دونوں اکابر اپنے ’قومی ساتھیوں‘ کے ہاتھوں تنہا کر کے مارے گئے، اور تمام تر اختلافات کے باوجود ان کے ’طبقاتی ساتھی‘ ہی ان کی فکری میراث کے وارث ٹھہرے ۔ اور تاریخ کا دلچسپ انتقام دیکھیے، قومی جہد کے نام پر غیر فطری اتحادیوں، سرداروں و زرداروں کا ساتھ نبھا کر اپنے طبقاتی اتحادی اور فکری استاد بزنجو کو ہرانے والے، ان کی اپنی پیش گوئی کے عین مطابق آج ان کی فکر کے وارث اور بلوچستان و بلوچوں کی تقدیر کے مالک کل ہیں… اور گل خان نصیرکو ان کی فکر اور نظریے سے الگ کر کے دیکھنے والے، آج ان کے نام کی مالا جپنے پہ مجبور ہیں ۔

بلوچستان کے سبھی سردار اور ان کے فکری باڈی گارڈ مل کر بھی گل خان کی شاعری سے ’راج کرے سردار‘ کی آواز کو کم نہ کرسکے ۔ قوم پرستی کے نام پر گل خان کو شاؤنسٹ بنانے کی کوشش کرنے والے لاکھ چاہیں بھی تو ان کی شاعری سے سرخ دیے کی تب و تاب کی سلامتی کی دعا کو حذف نہیں کرسکتے۔ وہ شاعری جو خود ’سرخ پرچم کا نشاں‘ ہونے کا اعلان ہے، اسے کسی رنگ برنگے پرچم میں لپیٹنے کی کوششیں کبھی بارآور نہ ہوں گی۔

بادل خواہ کیسے ہی گہرے اور سیاہ کیوں نہ ہوں، سورج کی روشنی کے سامنے کتنی دیر رک سکتے ہیں؟ رات کیسی ہی طویل کیوں نہ ہو، آفتاب کو ابھرنے سے کہاں روک سکی ہے؟ سو، بزنجو کی فکر کا سورج اور گل خان کی شاعری کا ماہ تاب طلوع ہو کے رہا۔ گل خان کا صد سالہ جشن پیدائش اس عوام دوست اور سرخ فکر کی فتح کا بین ثبوت ہے، جس سے وہ عمر بھر جڑے رہے، جس سے ان کی شاعری جڑی رہی۔

لیکن گل خان کی فکر کی مکمل فتح اور ان کی شاعری کی درست تفہیم تو تب ہو گی جب ان کا کلام فائیو اسٹار ہوٹلوں میں، وردی والوں، طاقت وروں کی سربراہی کے بجائے عام تھڑوں، چائے خانوں، گدانوں اور بلوچستان کے پہاڑوں میں گنگنایا جائے گا۔ جب اہل علم اور اہل حکم ان لذتوں اور پہرہ داریوں سے نکل کر ذلتوں کے مارے عوام کے بیچ ہوں گے، کابینہ کے بجائے عوامی کارواں میں ہوں گے۔

گل خان کی مختصر اردوشاعری کا لب لباب یہی رہا کہ طبقاتی عنصر کو ساتھ ملائے بنا قومی جدوجہد کا کارواں بے منزل و بے نشاں ہی رہے گا۔ قومی جدوجہد، جب حقیقی معنوں میں قومی طبقاتی جدوجہد کہلائے گی، تبھی حقیقی کارواں مکمل ہوگا، وہی کارواں جس کے ساتھ چلنے کی تلقین گل خان نے بھی کی تھی۔ بالخصوص گل خان کے نئے اور جوان قاری کو یہ بتانا ضروری ہے کہ انھوں نے بلوچ نوجوانوں کو محض قومی نعرے کے ساتھ کارواں کے ساتھ جڑنے کو نہیں کہا، بلکہ عزم جواں کے ساتھ سرخ پرچم ساتھ لے کر چلنے کو کہا تھا؛

ساتھیو ، عزم جواں لے کے اٹھو
سرخ پرچم کا نشاں لے کے اٹھو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔