(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - تعلیم یا بزنس

شبیر رخشانی  ہفتہ 27 دسمبر 2014
پاکستان میں اداروں اور امتحانات کے موجودہ معیار کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے وقتوں میں ایسے بے شمار ادارے معرض وجود میں آئیں گے جن کا کام تعلیم یا میرٹ فراہم کرنا نہیں ہوگا بلکہ بھرپور طریقے سے بزنس کرنا ہوگا۔ فوٹو: رائٹرز

پاکستان میں اداروں اور امتحانات کے موجودہ معیار کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے وقتوں میں ایسے بے شمار ادارے معرض وجود میں آئیں گے جن کا کام تعلیم یا میرٹ فراہم کرنا نہیں ہوگا بلکہ بھرپور طریقے سے بزنس کرنا ہوگا۔ فوٹو: رائٹرز

ایک دور تھا کہ طالبعلم کا اچھے نمبروں سے پاس ہونا ایک اعزاز کی بات سمجھا جاتا تھا ،  اسکے پاس ہونے پر اسکے گھر والے مٹھائیاں تقسیم کرتے اور خوشی کا جشن صرف گھر تک محدود نہیں ہوتا تھا بلکہ اسے پورے محلے تک بڑھایا جاتا تھا اور ہر چھوٹا بڑا اسی خوشی میں شامل ہو جاتا تھا  جبکہ  اسکے والدین فخر سے سر بلند کرکے اس بات کا علان بڑی  بڑی محفلوں میں کیا کرتے تھے کہ اسکا بیٹا اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوا ہے۔ بالکل اسی طرح بیٹا بھی خوشی سے پھولے نہ سماتا کہ اسکی محنت رنگ لائی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کا معیار گرتا چلا گیا اور ڈگریوں کا حصول بڑھتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ امتحانی مراحل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے پر بھی خوشی کی کوئی جھلک بھی چہرے پر دکھائی نہیں دیتی۔ کالج سے لیکر یونیورسٹی کی سطح پر سالانہ لاکھوں نوجوان ڈگری بغیر کسی دقت کے حاصل کر لیتے ہیں اور اسی کی دیکھا دیکھی میں پرائیوٹ اداروں کا بھی بھرمار ہو گئی۔ گورنمنٹ اداروں کی خستہ حالی دیکھ کر لوگوں نے اپنے بچوں کو پرائیوٹ اداروں میں بیجھنا شروع کیا۔ جس نے نہ صرف گورنمنٹ اداروں سے اپنی کارکردگی کو بہتر انداز میں دکھانے کی کوشش کی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ سالانہ اچھے نمبروں سے پاس ہونے والے طلباء کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا، یہاں جعلی ڈگریوں کا حصول بھی ممکن ہوگیا  اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہونے کی وجہ سے لوگ جعلی ڈگریاں لیکر اور سفارش یا رشوت کے بل بوتے پر اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہونے لگے۔

اس نئے ٹرینڈ نے محنتی نوجوانوں کے لئے نہ صرف اداروں تک رسائی مشکل کردی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ معاشرے میں تعلیم ذریعہ روزگار کاحصول زیادہ اور علم کا حصول کم شمار ہونے لگا۔ پرائیوٹ ادارے بھی کاروبار کا مرکز بن گئے۔

اور صورتحال اِس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ اب نوجوانوں سے پوچھا جائے کہ آپکی تعلیم کتنی ہے؟ تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ۔۔۔ ایم اے کیا  ہے ۔۔۔۔ ارے واہ،  کس مضمون میں۔ یار مضمون کا تو پتہ نہیں بس دوست کو اپنی جگہ امتحان میں بٹھایا۔ کمال کرتے ہو ڈگری لینا ہے کونسا شیخ سعدی بننا ہے۔ جناب کی بات میں وزن بہت ہے۔۔ اسکے علاوہ یونیورسٹی اور بورڈ نے ایسے بے شمار گمنام اداروں کو لائسنس جاری کر دیے جو یونیورسٹی یا بورڈ کو سالانہ بھاری بھرکم رقم فراہم کرتے ہیں اور ان اداروں میں ہزاروں کی تعداد میں تعلیم سے نا آشنا بی ایڈ، ایم ایڈ، اور ایجوکیشن کے دیگر اہم شعبوں کے امیدوار بغیر کلاس لئے پاس کئے جاتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ انہی اداروں کی چیک اینڈ بیلنس کے لئے یا تو کوئی واضح پالیسی بنائی نہیں گئی ہے یا تو ضرورت محسوس  ہی نہیں کی گئی۔ اور مزید مزے کی بات یہ ہے کہ یہی ڈگری ہولڈر امیدوار کل ایجوکیشن کے کسی اعلیٰ پوزیشن یا ٹیچنگ پوزیشن پر تعینات ہو کر کیا آؤٹ پٹ دیں گے۔

اب اگر دیکھا جائے تو شاید یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس شعبے کو زوال کی جانب لے جایا گیا ہے اور اسے ایک منافع بخش کاروبار کی شکل دے دی گئی ہے۔جب تعلیم کے شعبے پر تمام تجربے کئے گئے تو دیکھا کہ ایم اے کی ویلیو پہلے جیسی نہ رہی اور کیسے اس کو مزید منافع بخش بنایا جائے تو ایچ ای سی(ہائیر ایجوکیشن کمیشن) کی جانب سے NTS (نیشنل ٹیسٹنگ سروس) کی شکل میں ایک ادارہ تشکیل دے دیا گیا۔ جسکی زمہ داری اسکالر شپ، داخلہ پروگرام یا بیروزگاروں کا امتحان لینا شامل کیا گیا۔ شروع شروع میں یہ ادارہ کافی فعال کردار ادا کر تا رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ بھی اپنا وقار کھوتا گیا بلکہ اب یہ ادارہ کافی منافع بخش بن چکا ہے اور اسکی کمائی کا سب سے اہم ذریعہ وہ بے روزگار ہیں جو ماسٹرز یا گریجویشن کی ڈگریاں لئے اس ٹیسٹ کے لئے اپلائی کرتے ہیں۔ گو کہ بھاری بھرکم فیس بے روزگاری اور غربت کے اس دور میں اس امید پر جمع کرتے ہیں کہ کہیں قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو لیکن این ٹی ایس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اکثر و بیشتر نوجوان فیل ہوجاتے ہیں جسکی حالیہ مثال لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین سائنس کے ٹیسٹ تھے جس میں کمپیوٹر سیکشن کے امیدواروں کے لئے شماریات کے سوالات لائے گئے تھے جسکا نتیجہ اس ٹیسٹ میں شامل تمام امیدواروں کی فیل ہونے کی صورت میں سامنے آئی۔

دوسری غلط پالیسی انکی جانب سے یہ بنائی گئی ہے کہ ٹیسٹ کو انگریزی پیٹرن میں بنایا جاتا ہے جسکی وجہ سے انگریزی سے نابلد اکثر نوجوان ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ جبکہ تیسری غلط پالیسی انکی جانب سے یہ بنائی گئی ہے کہ کسی بھی ٹیسٹ کو منعقد کرانے سے پہلے نہ امیدواروں کو کوئی نصاب فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی پیٹرن پیپر دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف اس شعبے کے لئے پیپر دینے والے اکثر نوجوان فیل ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال کے بعد اب ایک نیا ادارہ BTS (Balochistan Testing Service)کے نام سے وجود میں آیا ہے جو اس کاروبار کے شعبے کو مزید وسعت دینے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا۔

اداروں اور امتحانات کے موجودہ معیار کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ آنے والے وقتوں میں ایسے بے شمار ادارے معرض وجود میں آئیں گے جن کا کام تعلیم یا میرٹ فراہم کرنا نہیں ہوگا بلکہ بھرپور طریقے سے بزنس کرنا ہوگا۔ اس سے اچھا یہ نہیں ہوتا کہ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے کالج یا یونیورسٹی کی سطح پر ماہر اساتذہ و پروفیسر تعینات کرکے ہونہار نوجوان پیدا کیے جاتے اور انکی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کیا جاتا۔ اس اقدام سے نہ صرف نقل کا رجحان ختم ہوتا بلکہ پڑھے لکھے نوجوان میدان میں آتے اور انہیں ضمانت دی جاتی کہ ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہیں کسی بھی ٹیسٹنگ سروس سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ انکے اس علم اور ہنر سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے انہیں اداروں میں کپھایا جائے گا جہاں وہ اپنے مستقبل کو بہتر طور پر محفوظ سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ اسی تعلیمی سیٹ اپ پر لگا لیتے نہ کہ صرف ڈگری پر ہی اکتفا کر لیتے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔