نظم؛ ’’امن خواب نہ رہے‘‘

سدرہ ایاز  پير 26 جنوری 2015
لحد سے اپنے پیر پر، چل کے کون آسکا، گزر گئے جو پل انہیں، کہاں کوئی بُلا سکا۔ فوٹو رائٹرز

لحد سے اپنے پیر پر، چل کے کون آسکا، گزر گئے جو پل انہیں، کہاں کوئی بُلا سکا۔ فوٹو رائٹرز

وہ صبح بدترین تھی!
کانپ اٹھا تھا آسماں
لرز گئی زمین تھی
وہ صبح بدترین تھی!

درسگاہ میں ہر طرف
گولیوں کی گونج میں
وحشیوں کا رقص تھا
بکھر رہے تھے سارے رنگ
مَر رہی تھی آرزو
علم و فن کی جستجو
وہ صبح بدترین تھی!

مائیں صبر کیا کریں؟
کیوں نہ باپ رو پڑیں؟
قرارِ جاں نہیں رہا
جگر کا خون ہو گیا
گودیاں اجڑ گئیں
نظر کا نور چھن گیا
ترنگ کوئی نہیں رہی
دل میں زندگی کی اب
ذرا امنگ نہیں رہی

درد نہ تھمے گا یہ
زخم نہ بھرے گا یہ
پَل میں سب بدل گیا
شوخیاں، شرارتیں
لاڈ، پیار، وہ ضدیں
قلم، کتاب، کاپیاں
موتی جیسے حرف وہ
سبق پرانا اور نیا
کچھ بھی تو نہیں بچا

لحد سے اپنے پیر پر
چل کے کون آسکا
گزر گئے جو پل انہیں
کہاں کوئی بُلا سکا

کر رہے ہیں یاد ہم
منا رہے ہیں اُن کا غم
اب نہیں جو ہم قدم
ہتھیلیاں جڑی ہوئی
ہیں گردنیں جھکی ہوئی
خدا سے التجائیں ہیں
بس اب یہی دعائیں ہیں
کسی کا خون نہ بہے
امن خواب نہ رہے
بند ہو یہ قتلِ عام
چار سو ہو روشنی
جگمگائیں صبح و شام

(نوٹ؛ آج سانحہ پشاور کو 40 دن مکمل ہوگئے ہیں)


نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے نظم لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی  تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔

سدرہ ایاز

سدرہ ایاز

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور سب ایڈیٹر کام کررہی ہیں۔ خبروں کے علاوہ موسیقی اور شاعری میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ آپ ان سے @SidraAyaz رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔