طلاق ضروری تو نہیں!

سید عون عباس  منگل 3 فروری 2015
صرف اس بناء پر لڑائی جھگڑا کرنا کے آج روٹی اچھی نہیں بنی یا آج سالن میں نمک کم ہوگیا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے!۔ فوٹو فائل

صرف اس بناء پر لڑائی جھگڑا کرنا کے آج روٹی اچھی نہیں بنی یا آج سالن میں نمک کم ہوگیا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے!۔ فوٹو فائل

ٹرنگ ٹرنگ ۔۔۔ ہیلو کون؟

ارے امی میں ہوں، او کیسی ہو فرحین بیٹی اور یہ بتاؤ سسرال میں سب ٹھیک ہیں؟

ارے امی ٹھیک تو ہونا ہی ہے آپ کی بیٹی نےصرف ان 15 دنوں میں وہ کام کر دکھائے ہیں کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔

ارے واقعی! ماشاء اللہ ایسا کیا کردیا میری بیٹی نے جو آج وہ اتنا خوش ہے؟

امی آپ کو تو پتا ہے احسن کی چھوٹی بہن شادی کے بعد کینیڈا چلی گئی ہے اور اب گھر میں صرف ان کے بوڑھے ماں باپ ہیں، وہ بھی کسی کام کے نہیں ہیں۔

کسی کام کے نہیں ہیں کیا مطلب؟

امی جان میرا مطلب یہ ہے کہ ڈیفنس کا یہ اتنا بڑا بنگلہ، یہ گاڑیاں، نوکر چاکر یہ سب تو پھر میرے لئے ہی ہوئے نا؟ وہ دونوں تو بیچارے اپنے کمرے میں پڑے رہتے ہیں ۔

لیکن بیٹی تمہارا شوہر احسن تو اپنے ماں باپ کا بہت فرمانبرادر بنتا ہے۔

اُف او امی جان، اس میں کونسی ٹینشن والی بات ہے، میں بھی شادی کے پہلے دن سے آج تک آپ کے بتائے ہوئے اصولوں پر چل رہی ہوں اور وہ سب میرے اتنے کام آرہے ہیں کہ مجھے پوری امید ہے کہ بہت جلد احسن اپنے امی ابو کو اولڈ ہاؤس بھجوا دیں گے۔

بس پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، ارے واہ بیٹی تم سوچ نہیں سکتی کہ مجھے کتنی خوشی ہورہی، اور ہاں یہ باتیں میرے اور تمہارے درمیان ہی رہنی چاہئیں، دیکھو اگر تمہارے ابو کو پتا چلا نہ تو وہ مجھ سے بہت ناراض ہوجائیں گے۔

امی آپ کو ابو کی پڑی ہے، آپ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ میں یہاں پہلے دن سے کس پریشانی میں ہوں، ڈرامے بازی کرکرکے میرا تو دماغ خراب ہو گیا ہے، احسن جیسے ہی گھر آتے ہیں ان کے سامنے ان دونوں بڈھے اور بڈھیا کو کبھی سوپ دینا تو کبھی جوس دینا۔ اُف یہ بھی بھلا کوئی آسان کام ہے؟ لیکن کیا کروں اسی طرح احسن کو احساس ہوگا کہ میں ان کے امی ابو سے بہت پیار کرتی ہوں ۔

فرحین وہ تمام باتیں اپنی جگہ لیکن یاد رکھو احسن پوری طرح تماری مـٹھی میں رہے اور کسی طرح بھی ہاتھ سے نکلنے نہ پائے۔

امی آپ بے فکر رہیں بس جب کوئی بات کرنی ہو تو مجھے بس ایک واٹس ایپ کر دیجئے گا میں دیکھ لوں گی۔

ٹھیک ہے بیٹی اللہ تمہیں تمہارے مقصد میں کامیاب کرے۔

یہ تو صرف ایک مختصر سا مکالمہ ہے، جو شادی کے کچھ دنوں بعد ایک نئی نویلی دلہن اور اس کی ماں کے درمیان ہوا۔ کیسی ماں ہے، جو اپنی بیٹی کو اسی کے گھر کو سنوارنے کے بجائے صرف ان بناء پر ایسے مشورے دے رہی ہے کہ اس کی بیٹی کے ہاتھ میں تمام جائیداد آجائے، بھلے سے اس کے نتیجے میں اس کا سہاگ ٹوٹے یا بچے، اس سے اس کو کوئی سروکار نہیں، کیا یہ عوامل آج کے ہمارے معاشرے میں نہیں ہو رہے؟ جب مکاری اور عیاری اپنی عروج پر پہنچ جاتی ہے تو پھر معاملات بگڑنے شروع ہوتے ہیں اور اس حد تک بگڑتے چلے جاتے ہیں کہ آخر کار نوبت طلاق پر آکے رکتی ہے ۔

خیر یہ تو ایک پہلو تھا، یہاں میں آپ کو ایک اور پہلو سے روشناس کرانا چاہتا ہو، جو کچھ یوں ہے۔

فوٹو؛ فائل

شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں، کرن کے والد ایک دکان پر کام کرتے ہیں اسی لئے ان سے جتنا ہوسکا انہوں نے خرچہ کیا اور اپنی پیاری بیٹی کو رخصت کردیا۔ اگلے دن کرن اپنے نئے گھر کو سجانے کے خواب بنُنے لگتی ہے، وہ سوچتی ہے کہ اس گھر کو ہیرا بنا دے گی اور کم آمدنی کے باوجود اپنے شوہر کی تنخواہ پر ہی گزر بسر کرے گی لیکن اچانک اس کی ساس کمرے میں داخل ہوتی ہیں اور کہتی ہیں کرن کہاں ہو؟

جی امی؟ آپ نے مجھے بلا لیا ہوتا میں خود آپ کے کمرے میں آجاتی آپ نے تکلیف کیوں کی؟

چلو چلو یہ ڈرامے بازی نہ کرو یہ بتاؤ یہ برتنوں کا سیٹ تمہارے گھر والوں نے جہیز کے لئے نیا خریدا تھا یا جو تمہاری ماں اپنے جہیز میں لے کر آئیں تھیں وہی دے دیا؟

کرن گھبراتے ہوئے کہتی ہے نہیں امی جان، ابو نے ایک ایک پائی جمع کرکے سب کچھ نیا لیا تھا۔

اسلم سن رہے ہو اپنی بیوی کی زبان ابھی ایک دن ہوا نہیں ہے اور مجھے اس طرح جواب دے رہی ہے۔

امی میں تو بلکل آرام سے کہہ رہی ہوں کہ یہ سب کچھ نیا ہے۔

اسلم کی ماں کا غصہ مزید بڑھتا ہے جس کے بعد وہ پھر چیخ کے کہتی ہیں ٹھیک ہے لیکن یہ اتنا چھوٹا سا ٹی وی کیوں دے دیا؟ کم از کم 21 انچ کا تو دینا چاہئیے تھا، تم لوگوں نے یہ جہیز نہیں دیا بلکہ ہمارا مذاق اڑیا ہے۔ میرا بیٹا اسلم لاکھوں میں ایک ہے اس کے لئے تم سے کہیں اچھی لڑکی مل جائے گی اور اس گھٹیا جہیز سے اچھا جہیز بھی۔

لیکن امی میرے گھر والے جتنا کرسکتے تھے انہوں نے اتنا کیا ہے۔

اسلم تم اس کی محبت میں اندھے ہوگئے ہو کیا ؟ دیکھتے نہیں ابھی آئے ہوئے ایک دن بھی نہیں ہوا اور یہ لڑکی مجھ سے زبان لڑا رہی ہے۔ ابھی کے ابھی اس کو طلاق دو اور فارغ کرو۔

اسلم ماں کا حکم سنتے ہی فوراً کرن کو طلاق دے دیتا ہے۔ وہ لڑکی جسے اس گھر میں آئے ہوئے ابھی 24گھنٹے بھی پورے نہیں ہوئے تھے وہ طلاق لے کر چلی گئی ۔

فوٹو؛ فائل

ایک سروے کے مطابق آج کل پاکستانی معاشرے میں طلاق کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کے پیچھے کوئی ایک نہیں بلکہ بہت سی وجوہات کارفرما ہوتی ہیں۔ طلاق کا رجحان سب سے زیادہ غریب طبقے میں پایا جاتا ہے۔ شوہر کم آمدنی کے باعث بیوی اور بچوں کی ضروریات پوری نہیں کر پاتا، جس کی بناء پر لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اور آخرکار نوبت طلاق تک آجاتی ہے۔ وکیلوں کی جانب سے جب اس معاملے پر تحقیق کی گئی تو سامنے یہی عنصر آیا کہ وہ لڑکیاں جو اپنے سسرال آنے کے بعد بھی اپنی ماں کے کہنے پر چل رہی ہوتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ اسی راہ پر انکا شوہر، ساس، سسر اور باقی گھر والے چلنے لگیں یا پھر وہ اپنے شوہر کے ساتھ علیحدہ گھر لے کر بسنا چاہتی ہیں، یہی چیز گھر ٹوٹنے کا سبب بنتی ہے۔

اس طرح کی تمام باتیں لڑکیاں اپنی ماں، بہن یا ٹیوی سیریلز سے سیکھتی ہیں، کیونکہ آج کل آنے والے ٹی وی ڈراموں میں دکھائی جانے والی لڑکیوں کو بلکل آزاد خیال اور تمام تر ذمہ داریوں سے ماورا دکھایا جاتا ہے، پھر یہی چیزیں لڑکیاں اپنے سسرال میں آزماتی ہیں تو نتیجہ طلاق کی صورت میں ان کے سامنے آجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے کیسز میں لڑکا صرف اپنے ماں باپ کی سنتا ہے اور بیوی بچوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا جس سے آپس میں تلخیاں بڑھتی ہیں۔

فوٹو؛ فائل

لہذٰا شادی کے بعد لڑکے اور لڑکی دونوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ایسے اپنا گھر بسائیں جس سے خود بخود تمام تر بُری چیزیں ختم ہوجائیں اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب لڑکی رخصتی کے بعد اپنے سسرال ہی کو اپنا گھر سمجھے، نہ کہ وہ سسرال کو بس ایک قلعہ تصور کرلے اور خود کو ایک ایسا ڈپلومیٹ جس کی ذمہ داری یہ ہو کہ وہ بہت چالاکی سے اس گھر پر قابض ہو جائے کیونکہ جب تک لڑکی یہ سوچتی رہے گی، تب تک معاملات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جائیں گے۔

اس کے علاوہ مرد کو بھی چائیے کہ وہ عورت کو تمام ترحقوق دے جس کا حق اس کو شریعت اور قانون نے دیا ہے، کیونکہ جب لڑکا صحیح طور پر حقوق کا تعین کرکے اپنی شادی شدہ زندگی گزارنا شروع کرے گا تو زندگی خود بخود بہترین ہوتی چلی جائے گی۔ آخر میں ساسوں کی بھی ذمہ داری ہیں کہ وہ اس چیز کا خیال کریں کہ وہ کسی کی بیٹی کو شادی کرکے اپنے گھر لائی ہیں، اِس لیے دلہن کے کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں اور اگر ابتداء میں وہ ماحول میں گھل مل نہ پارہی ہو تو اُسے وقت دینا چاہیے تاکہ وہ بتدریج اپنے سسرال کو اپنا گھر تصور کرنا شروع کردے، صرف اس بناء پر لڑائی جھگڑا کرنا کے آج روٹی اچھی نہیں بنی یا آج سالن میں نمک کم ہوگیا ہے، بھلا یہ کہاں کا انصاف ہے! جس دن ہمارے معاشرے کی ساسوں کو یہ احساس ہوجائے اور وہ اپنی بہو کو اپنی بیٹی تصور کرنے لگیں تو بس اس دن کے بعد سے اس ملک میں کوئی بہو کچن میں جل کر نہیں مرے گی۔ بقول شاعر؛

پھر بہوجلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے
پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سید عون عباس

سید عون عباس

بلاگر نے جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ اس وقت وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ایم فل جا ری ہے۔ ریڈیو پاکستان، جامعہ کراچی کے شعبہ تعلقات عامہ سے منسلک رہنے کے علاوہ مختلف اخبارات اور رسالوں میں تحقیقی علمی و ادبی تحریریں لکھتے ہیں۔ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے صحافی اور ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔