ازبک الیکشن

جاوید چوہدری  جمعرات 2 اپريل 2015
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

تاشقند میں اچانک برف باری شروع ہوگئی، میں، عیش محمد اور ترجمان شہباز الیکشن سینٹر سے نکلے تو شہر پر برف کے سفید گالے نازل ہو رہے تھے، پورا شہر سفید ہو چکا تھا، یہ بہار کی برف باری تھی، تاشقند کے لوگ بھی اس معجزے پر حیران تھے۔

تاشقند میں 19 مارچ کو نوروز کا جشن ہوا، نوروز سینٹرل ایشیا میں سردیوں کے خاتمے کا اعلان ہوتا ہے، نوروز کے بعد برف باری اور سردی کا امکان نہیں ہوتا لیکن 29 مارچ کو صدارتی الیکشن کے دن اچانک برف باری شروع ہوگئی، آسمان سے روئی زمین پر برسی اور شہر آدھ گھنٹے میں سفید ہو گیا۔

ازبکستان میں 29 مارچ 2015ء کو چوتھا صدارتی الیکشن تھا، ازبک حکومت نے الیکشن کی مانیٹرنگ کے لیے 44 ممالک سے 300 مبصرین کو دعوت دی، پاکستان سے 9 مبصرین مانیٹرنگ کے لیے ازبکستان گئے، میں بھی اس وفد میں شامل تھا، حکومت نے مبصرین کو شاندار سہولتیں دے رکھی تھیں، ازبکستان پہنچنے والے ہر مبصر کو گاڑی، ڈرائیور، پروٹوکول آفیسر اور ایک ترجمان کی سہولت حاصل تھی۔

یہ تین لوگ دن رات مبصر کے ساتھ رہتے تھے، مبصرین کے لیے فائیو اسٹار ہوٹل بک تھے، یہ مبصر کارڈ دکھا کر پورے ملک میں کسی بھی جگہ وزٹ کر سکتے تھے، ملک بھر کے لیے ہوائی سفر، ٹرین کا سفر اور لوکل ٹرانسپورٹ فری تھی، یہ لوگ سرکاری دفاتر میں بھی جا سکتے تھے اور وہاں سے بھی ہر قسم کی معلومات حاصل کر سکتے تھے، مبصرین مارچ کے ابتدائی دنوں سے یکم اپریل تک کسی بھی وقت ازبکستان پہنچ سکتے تھے اور ازبک مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔

مجھے ہوٹل میں ایسے مبصرین بھی ملے جو پورے مہینے سے ازبکستان کے مہمان تھے، یہ لوگ الیکشن کی مانیٹرنگ کے چکر میں نہ صرف پورے ملک کی سیر کر رہے تھے بلکہ زندگی کی تمام ناآسودہ حسرتیں بھی پوری کر رہے تھے، میں 25 مارچ کو تاشقند پہنچا، حکومت کی طرف سے عیش محمد اور شہباز دو معاون ملے، ڈرائیور ان کے علاوہ تھا، شہباز نوجوان طالب علم تھا، یہ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کا طالب علم تھا۔

حکومت نے مبصرین کی ترجمانی کا فریضہ یونیورسٹی کے طالب علموں کو سونپ رکھا تھا، مجھے یہ تکنیک اچھی لگی کیونکہ بیرونی دنیا سے اس انٹرایکشن سے طالب علموں کے وژن میں بھی اضافہ ہوا اور دنیا بھر کے مبصرین کو بھی ازبکستان کی نئی نسل کو سمجھنے کا موقع ملا، عیش محمد وزارت اطلاعات میں آفیسر تھا، حکومت نے پروٹوکول کی ذمے داری سرکاری افسروں کو سونپ رکھی تھی، شہباز اور عیش محمد دونوں مہمان نواز، مہذب اور زندہ دل انسان تھے، میں نے ان کی کمپنی کو پانچ دن خوب انجوائے کیا، ازبکستان میں پانچ سال بعد صدارتی الیکشن ہوتے ہیں۔

عوام صدر کا انتخاب براہ راست کرتے ہیں، صدر اسلام کریموف دسمبر 1991ء سے ازبکستان کے صدرہیں، یہ ازبکستان کے بانی بھی ہیں، اسلام کریموف نے 1991ء میں ازبکستان کو سووویت یونین سے آزادی دلائی ، یہ ازبکستان میں تاحال پاپولر ہیں، صدر کے عہدے کے لیے چار امیدوار تھے، صدر اسلام کریموف بھی الیکشن لڑ رہے تھے، ان کے علاوہ نریمان عمروف امیدوار تھے، یہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، حاتم جان کتمانوف پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار تھے اور اکمل صیدوف ڈیموکریٹک پارٹی آف ازبکستان کے امیدوار تھے۔

ازبکستان 12 صوبوں اور ایک نیم خود مختار علاقے قراقل پاکستان پر مشتمل ہے، وفاقی دارالحکومت تاشقند کو بھی صوبے کی حیثیت حاصل ہے یوں ازبکستان میں 14 انتظامی یونٹس ہیں، ان 14 یونٹس میں نو ہزار 60 الیکشن سینٹر بنائے گئے، کل ووٹرز 2 کروڑ 8 لاکھ 79 ہزار 52 ہیں۔ مجھے پانچ دنوں میں ازبکستان کے الیکشن سسٹم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور میں ازبکستان کے سینٹرل الیکشن کمیشن کی کارکردگی کی تعریف پر مجبور ہو گیا، ازبک لوگ الیکشن سینٹر کو الیکشن پریسنگ کہتے ہیں۔

یہ پریسنگ ہماری طرح اسکولوں، کالجوں، سرکاری عمارتوں اور بعض شہروں اور قصبوں میں پرائیویٹ عمارتوں میں قائم کیے جاتے ہیں، میں نے پریسنگ میں پانچ اہم چیزیں دیکھیں، پریسنگ میں بچوں کا کمرہ تھا، یہ کھلونوں سے بھرا ہوا کمرہ تھا، اس میں جھولے بھی تھے اور بچوں کے بیڈ بھی۔ ایک، ملک کے ہر پریسنگ میں بچوں کا کمرہ تھا، یہ کمرہ چھوٹے بچوں اور ان کی ماؤں کے لیے تھا، مائیں بچوں کو اس کمرے میں چھوڑتی تھیں اور ووٹ دینے کے لیے قطار میں کھڑی ہو جاتی تھیں۔

بچوں کے کمرے میں بچوں کی نگرانی کے لیے باقاعدہ آیائیں تھیں،دو، ہر پریسنگ میں ابتدائی طبی امداد کا کمرہ بھی تھا، یہ میڈیکل سینٹر عارضی طور پر بنایا گیا تھا اور اس کا مقصد ایمرجنسی کی صورتحال میں ووٹروں کو ابتدائی طبی امداد دینا تھا، تین، پریسنگ میں ایک طویل وائیٹ بورڈ لگا تھا جس پر حلقے کے تمام ووٹرز کے نام، شناختی کارڈ نمبر اور ووٹر نمبر درج تھے، آپ کسی بورڈ کے سامنے کھڑے ہو کر حلقے کے تمام ووٹرز کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے تھے۔

چار،بیلٹ باکس ڈبے کے بجائے ڈرم جیسا تھا،یہ ڈرم سامنے سے شفاف تھا، پورے حلقے کے ووٹرز کے لیے ایک ڈرم کافی تھا، یہ اچھا انتظام تھا کیونکہ دوسرا بیلٹ باکس نہیں ہو گا تو جعلی ووٹ بھی نہیں نکلیں گے اور پانچ، ووٹنگ کا وقت صبح چھ سے رات دس بجے تک تھا، حکومت نے ووٹروں کی سہولت کے لیے تین دلچسپ انتظامات کر رکھے تھے۔

ازبکستان کے تمام سفارت خانوں میں ووٹ ڈالنے کا بندوبست تھا، دنیا کے دوسرے ممالک میں موجود ازبک شہریوں نے ان ملکوں میں اپنے اپنے اپنے سفارت خانوں میں ووٹ کاسٹ کیے، وہ لوگ جو الیکشن کے دن ملک میں موجود نہیں تھے وہ 19 مارچ سے 29 مارچ تک اپنا ووٹ ڈال سکتے تھے، یہ لوگ اپنے علاقے کی پریسنگ میں جاتے تھے، اپنا ووٹ حاصل کرتے تھے، امیدوار کے نام پر مہر لگاتے تھے، ووٹ لفافے میں بند کر کے اس پر سیل لگاتے تھے اور یہ سیل شدہ لفافہ انچارچ کے پاس چھوڑ جاتے تھے۔

29 مارچ کے دن پریسنگ انچارج نے چاروں امیدواروں کے نمایندوں کے سامنے یہ لفافے کھولے اور ووٹ بیلٹ باکس میں ڈال دیے، الیکشن کمیشن نے بیماروں، انتہائی بوڑھوں اور اسپتالوں میں داخل مریضوں کے لیے بھی ووٹنگ کا بندوبست کر رکھا تھا، ملک کی ہر پریسنگ میں ایک سیل شدہ ڈبہ تھا، الیکشن کا عملہ یہ سیل شدہ ڈبہ لے کر اسپتالوں، محلوں اور گھروں میں جاتا تھا اور مریضوں اور بوڑھوں کو ووٹ کی سہولت دیتا تھا، الیکشن کمیشن نے مبصرین کے لیے بریفنگ کا بندوبست کیا، یہ بریفنگ پریس سینٹر میں ہوئی، الیکشن کے دن مبصرین اور میڈیا کو تین بار پریس سینٹر بلایا گیا، بریفنگ الیکشن کمشنر مرزا الغ بیگ نے دی۔

یہ بریفنگ مکمل طور پر ازبک زبان میں تھی، فارن میڈیا اور غیر ملکی مبصرین کو ساؤنڈ سسٹم دے دیے گئے، ساؤنڈ سسٹم میں تین زبانوں کا آپشن تھا، ہم لوگ اپنی مرضی کی زبان میں بریفنگ کا ترجمہ سنتے رہے، بریفنگ کے دوران کسی قسم کے سوال کی اجازت نہیں تھی، الیکشن کمشنر بریفنگ دیتا تھا اور بریفنگ ختم ہو جاتی تھی۔

ملک کے 14 ریجن کے انچارج بھی وڈیو لنک کے ذریعے بریفنگ میں موجود ہوتے تھے، الیکشن کمشنر جس انچارج کو کہتا تھا وہ وڈیو لنک کے ذریعے اپنے ریجن کی بریفنگ دینے لگتا تھا، میڈیا یہ بریفنگ براہ راست نشر کر رہا تھا، یہ بندوبست بھی اچھا تھا کیونکہ اس سے وقت بھی بچا اور قوم بھی کنفیوژن سے پاک رہی، ہماری بریفنگ میں بریفنگ کم اور سوال زیادہ ہوتے ہیں، یہ سوال بریفنگ کا رخ بھی تبدیل کر دیتے ہیں اور فضا کو بھی خراب کر دیتے ہیں۔

ہم اپنے صحافی بھائیوں کو اکثر ریلوے کے وزیر سے خارجہ امور کے سوال پوچھتے اور وزیر خارجہ سے ’’لوڈ شیڈنگ کب ختم ہو گی اور جوڈیشل کمیشن کب بنے گا،، جیسے سوال کرتے دیکھتے ہیں، یہ غیر متعلقہ سوال اور ان غیر متعلقہ سوالوں کے جواب ملک میں کنفیوژن پھیلاتے ہیں، ازبکستان میں الیکشن بریفنگ کے دوران کسی سوال کی اجازت نہیں تھی چنانچہ وہاں اس دن کوئی کنفیوژن پیدا ہوئی اور نہ ہی کوئی بریکنگ نیوز چلی، ہماری حکومت کو بھی کوئی ایسا فارمولا طے کرنا چاہیے جس کے ذریعے ہماری بریفنگ صرف بریفنگ رہے۔

یہ پریس کانفرنس نہ بنے اور پریس کانفرنس ، پریس کانفرنس ہو یہ بریفنگ نہ بن جائے، ہم لوگ انگریزی بولنے کے خبط میں بھی مبتلا ہیں، ہمارے حکمران ہر بریفنگ اور ہر پریس کانفرنس میں انگریزی بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور اچھے خاصے نالائق ثابت ہوتے ہیں، ازبکستان میں کسی بریفنگ میں انگریزی نہیں بولی گئی، میں سینٹرل الیکشن کمیشن میں الیکشن کمشنر سے ملاقات کے لیے گیا، الیکشن کمشنر مرزا الغ بیگ پڑھے لکھے انسان ہیں، یہ تین سینئر ممبرز کے ساتھ میرے سامنے بیٹھ گئے۔

یہ لوگ ازبک زبان میں بات کرتے رہے، میرا ترجمان اس کا انگریزی میں ترجمہ کردیتا تھا، میں انگریزی میں جواب دیتا تھا اور ترجمان اس کا ازبک میں ترجمہ کر دیتا تھا، ہماری اس کمیونیکیشن سے الیکشن کمشنر کی بے عزتی ہوئی اور نہ مجھے کوئی دقت یا کوفت ہوئی، ہم ایسا کیوں نہیں کرتے؟ہم اپنی زبان سے اتنے شرمندہ کیوں ہیں؟ میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا۔

یہ الیکشن بھی صدر اسلام کریموف 90 اعشاریہ 39 فیصد ووٹ لے کر جیت گئے، یہ اسلام کریموف کی مقبولیت کا ثبوت ہے، کریموف ازبکستان میں بہت پاپولر ہیں، یہ کیوں پاپولر ہیں، میں پانچ دن لوگوں سے یہ سوال پوچھتا رہا، ازبکستان غریب اسلامی ملک ہے، کرنسی زمین کو چھو رہی ہے، آپ ایک امریکی ڈالر دیتے ہیں اور آپ کو اوپن مارکیٹ سے چار ہزار ازبک سم ملتے ہیں۔

آپ چار ہزار سم کے کاغذ کا ریٹ نکالیں تو یہ نوٹوں کی مالیت سے تین گنا زیادہ ہو گا، لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ تین سے چار سو ڈالر ہے لیکن اس کے باوجود اسلام کریموف مقبول ہیں، کیوں؟ پہلی وجہ امن تھا، اسلام کریموف ملک میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ، ازبکستان دنیا کے ان چند اسلامی ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں لاء اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ نہیں، آپ دن ہو یا رات ملک کے کسی حصے میں نکل جائیں آپ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔

ملک میں جرائم اور اسلحہ زیرو پرسنٹ ہے، اسلام کریموف نے ملک میں لبرل اور مذہبی دونوں طبقوں کو قابو میں رکھا ہوا ہے، لبرل مسجد پر اعتراض نہیں کر سکتے اور مذہبی لوگ موسیقی، رقص اور شراب خانوں کی طرف انگلی نہیں اٹھا سکتے، مساجد اور مدارس حکومتی کنٹرول میں ہیں۔

ملک میں کھانے پینے کی اشیاء کی فراوانی ہے ، یہ اشیاء سستی بھی ہیں اور ملک میں بجلی، گیس اور پانی کی سہولتیں پوری آبادی کو یکساں حاصل ہیں اور یہ بھی بہت سستی ہیں چنانچہ لوگ اسلام کریموف سے خوش ہیں۔ یہ 77 سال کی عمر میں عوام کے سامنے رقص بھی کر لیتے ہیں اور لوگ انھیں ناچتا دیکھ کر خوش بھی ہوتے ہیں چنانچہ یہ جیت گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔