ٹارزنوں کی واپسی

جاوید چوہدری  منگل 26 مئ 2015
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

یہ حسینہ معین کے ایک ڈرامے کی لائین تھی، سین کچھ یوں تھا، لڑکا خوبصورت، امیر اور بااخلاق ہے، لڑکی امیر بیوہ اور ایک بچے کی ماں ہے، لڑکا لڑکی کو بچے سمیت قبول کرنا چاہتا ہے، لڑکی اپنے والد سے مشورہ کرتی ہے اور والد فوراً انکار کر دیتا ہے، لڑکی والد سے پوچھتی ہے ’’کیا یہ اچھا انسان نہیں‘‘ والد جواب دیتا ہے ’’یہ آئیڈیل انسان ہے‘‘ لڑکی پوچھتی ہے ’’ پھر انکار کیوں؟‘‘ والد جواب دیتا ہے ’’ بیٹا لڑکے میں کوئی خرابی نہیں، مجھے صرف یہ چیز رشتے سے روک رہی ہے‘‘ بیٹی خاموش رہتی ہے، والد کہتا ہے ’’ میرا تجربہ ہے، آپ کو جس شخص میں کوئی خامی نظر نہ آئے آپ اس شخص سے بچ کر رہیں‘‘ میں نے حسینہ معین کی لکھی یہ لائین25 سال پہلے ٹیلی ویژن پر سنی اور یہ پوری زندگی کے لیے میرا مزاج بن گئی۔

میں ہر اس شخص سے دور رہتا ہوں مجھے جس میں کوئی خامی نظر نہیں آتی، میں ہر اس منصوبے سے بھی دور بھاگ جاتا ہوں جس میں کوئی رخنہ، کوئی خلا نہیں ہوتا کیونکہ مکمل اور خامی سے پاک صرف خدا کی ذات ہے، ہم انسان کچھ بھی ہو جائیں ہم تکمیل کی دہلیز پر قدم نہیں رکھ سکتے، ہمارے وزیردفاع اور بجلی اور پانی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف کیریئر کے شروع میں بی سی سی آئی بینک میں کام کرتے تھے۔

آغا حسن عابدی بینک کے سربراہ تھے، خواجہ آصف نے ایک دن عابدی صاحب سے کہا ’’ سر آج کا کام ختم ہو گیا‘‘ عابدی صاحب مسکرائے اور بولے ’’ بیٹا کام کبھی ختم نہیں ہوتا، دن ختم ہوتے ہیں، آپ کہو، آج کا دن ختم ہو گیا‘‘۔ ہم انسانوں کی تکمیل بھی نہیں ہوتی، ہم عمر بھر تکمیل کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور بس۔ ہم میں سے جو لوگ مکمل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یا ہمیں جب کوئی شخص یا کوئی منصوبہ مکمل دکھائی دیتا ہے تو ہمیں اس پر یقین نہیں کرنا چاہیے کیونکہ دنیا کا کوئی شخص، کوئی منصوبہ، کوئی ادارہ اور کوئی پراڈکٹ مکمل نہیں ہو سکتی، کوئی شخص اور کوئی ادارہ خدا کی برابری نہیں کر سکتا۔

پاکستان میں آج سے تین سال قبل بول نام کے ایک ٹیلی ویژن چینل کا غلغلہ شروع ہوا، یہ چینل ’’ایگزیکٹ‘‘کمپنی شروع کر رہی تھی، یہ کمپنی سافٹ ویئر کا بزنس کرتی تھی، شعیب احمد شیخ اور وقاص عتیق کمپنی کے مالک تھے، یہ آج بھی مالک ہیں، دنیا میں آئی ٹی کا بزنس نیا ہے، یہ کاروبار انتہائی منافع بخش ہے، دنیا کی 40 فیصد دولت اس وقت آئی ٹی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے،پاکستان میں قریباً 400کمپنیاں آئی ٹی سے منسلک ہیں۔

ایگزیکٹ کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں تھا، کمپنی نے پاکستان کا سب سے بڑا نیوز چینل بنانے کا اعلان کر دیا، یہ اعلان انڈسٹری میں سنسنی بن کر دوڑ گیا، میڈیا سے وابستہ لوگ بول کی طرف متوجہ ہو گئے، بول کی انتظامیہ نے ویب سائٹ بنائی، فیس بک پر اپنا پیج بنایا اور سوشل میڈیا پر ترغیبات کی بھرمار کر دی، یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا لیکن پھر اچانک میڈیا کے ایک بڑے نام اظہر عباس نے بول جوائن کر لیا، اظہر عباس ٹی وی نیوز کے گرو ہیں، یہ پوری انڈسٹری میں عزت کی نگاہ سے بھی دیکھے جاتے ہیں۔

اظہر عباس کے بعد کامران خان اور نجم سیٹھی کا نام آنے لگا، یہ خبر بھی گردش کرنے لگی بول کے پیچھے پاکستان کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے، یہ خبر بھی گردش کرنے لگی بول میں داؤد ابراہیم اور ملک ریاض کا پیسہ لگا ہے اور یہ خبر بھی نکلی ،یہ پاکستانی میڈیا کے خلاف غیر ملکی سازش ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ خبریں نکلتی رہیں لیکن بول کی انتظامیہ نے کسی خبر کی تردید نہ کی، اپریل 2014ء میں ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ پر برا وقت آیا تو بول کی بولتی میں اضافہ ہو گیا، کامران خان ٹوٹ کر بول میں شامل ہو گئے۔

یہ بول میڈیا گروپ کے صدر بھی بن گئے اور شیئر ہولڈر بھی۔ بول نے اس کے بعد ملک کے تمام چھوٹے بڑے اینکرز سے رابطے شروع کر دیے، یہ انھیں کراچی بلاتے، اپنا سیٹ اپ دکھاتے اور ایسی حیران کن پیش کش کر تے جسے سن کر اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ جاتا، ایک کروڑ روپے تنخواہ، مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو یا نئی پراڈو گاڑی، بزنس کلاس ٹکٹ، فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام، خاندان بھر کی ہیلتھ انشورنس، کروڑوں روپے کی لائف انشورنس اور دنیا کے شاندار ترین جزائر میں سالانہ چھٹیاں۔ یہ پیش کش محض پیشکش نہیں تھی، یہ سانس روکنے کا پورا پورا بندوبست تھا، یہ پیکیج اس قدر مکمل اور خامیوں سے پاک تھا کہ انسان کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔

کمپنی ملازمین کے گھروں میں منرل واٹر تک پہنچانے کی ذمے داری اٹھا رہی تھی، چینل کے دفاتر بھی کمال تھے، دنیا کا سب سے بڑا براڈ کاسٹنگ گروپ بی بی سی ہے، اس کے آٹھ ٹی وی چینلز اور دس ریڈیوسٹیشن ہیں، یہ 30 زبانوں میں براڈ کاسٹ ہوتا ہے، اتنی بڑی آرگنائزیشن کے پاس کل22 اسٹوڈیوز ہیں جب کہ بول نے صرف کراچی شہر میں 33جدید ترین اسٹوڈیوز بنائے، پاکستان کے تین بڑے چینلز کے پاس ایک ایک ’’وڈیو وال‘‘ ہے جب کہ بول نے تمام اسٹوڈیوز میں ’’وڈیو وال‘‘ لگائیں، دفتر کے اندر 30 کمروں کا فائیو اسٹار ہوٹل بھی تھا، کیفے ٹیریا ’’فائیو اسٹار‘‘ تھا، عمارت میں فائیو اسٹار سوئمنگ پول بھی تھا، فائیو اسٹار جم بھی تھا، فائیو اسٹار ’’سپا،، اور فائیو اسٹار میک اپ روم بھی تھا، فرنیچر بھی کمال تھا، کمپنی کا اپنا بحری جہاز بھی تھا، ڈی ایس این جیز کی تعداد پاکستان کے تمام چینلز کی کل ڈی ایس این جیز سے زیادہ تھی۔

پاکستان کا شاندار ترین ایڈیٹوریم بھی بول میں تھا، ایڈیٹوریم میں 536 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، یہ ایڈیٹوریم بیک وقت کانفرنس ہال، سینما اور تھیٹر تھا، کراچی میں ایمرجنسی حالات میں پورا اسٹاف دفتر میں رہائش پذیر ہو سکتا تھا اور بول میں پاکستان کا جدید ترین ’’نیوز روم‘‘ بھی تھا، آپ اگر دفتر دیکھیں، ٹیکنالوجی دیکھیں، سہولیات دیکھیں اور صحافیوں کو پیش کیا جانے والا پیکیج دیکھیں تو آپ کی ٹانگیں لرز جائیں گی لیکن سوال یہ ہے، کیا کوئی صحافی ان چیزوں سے متاثر ہو سکتا ہے؟ صحافی کی اصل طاقت سوال ہوتے ہیں۔

ہم کسی سے بھی 13 سوال پوچھتے ہیں اور غصب کرپشن کی بڑی سے بڑی عجب کہانی کا آزار بند ٹوٹ جاتا ہے لیکن آپ بدقسمتی دیکھئے ملک کے نامور، سینئر اور شاطر ترین صحافی پاکستان کے بڑے ڈبل شاہ کا شکار بن گئے اور یہ ’’بول‘‘ کے مالک سے یہ پوچھنا بھول گئے ’’ جناب ایپل دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے، یہ کمپنی صرف اپنا نام اور لوگو بیچ دے تو اسے 109 بلین ڈالر مل جائیں گے، ایپل کمپنی بھی اپنے ملازمین کو آپ کے برابر پیکیج نہیں دیتی، آپ کہاں سے دیں گے؟‘‘ یہ لوگ یہ پوچھنا بھی بھول گئے’’آپ پاکستان کے دس بڑے خاندانوں کی فہرستیں نکالیں، آپ کو ان میں ایسے لوگ بھی ملیں گے جن کے دفتروں میں بیس بیس ہزار ملازم ہیں جو بینکوں کے مالک ہیں اور جو ذاتی جہاز رکھتے ہیں لیکن یہ بھی آج تک اپنے ملازمین کو یہ سہولتیں دے سکے ہیں اور نہ ہی ایسے دفاتر اور ایڈیٹوریم بنا سکے ہیں۔

پھر آپ نے یہ کارنامہ کیسے سر انجام دے دیا؟ ’’یہ لوگ یہ پوچھنا بھی بھول گئے‘‘ پاکستان 20 کروڑ لوگوں کا ملک ہے، ہماری 68 برسوں کی تاریخ میں آج تک صرف ایک شخص میاں منشاء فوربس میگزین کے ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہوا، ان کے اثاثوں کی مالیت بھی ایک بلین ڈالر ہے جب کہ آپ دعویٰ کر رہے ہیں آپ سال میں ’’آئی ٹی‘‘ کے ذریعے ڈیڑھ بلین ڈالر کماتے ہیں، کیسے؟ اور اگر یہ سچ ہے تو پھر آپ کا نام فوربس میگزین میں کیوں نہیں آیا؟ اور یہ لوگ یہ پوچھنا بھی بھول گئے،بی بی سی 1922ء میں شروع ہوا، سی این این جون1980ء میں بنا اور فاکس نیوز اکتوبر 1996ء میں بنا لیکن یہ اربوں ڈالر کے سالانہ ٹرن اوور کے باوجود آج تک 33 اسٹوڈیوز اور اتنا بڑا انفراسٹرکچر نہیں بنا سکے۔

آپ چینل اسٹارٹ ہونے سے پہلے یہ سب کچھ کیسے بنا رہے ہیں؟‘‘ میرا خیال ہے میرے دوستوں نے شعیب شیخ کی چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنے سوالوں کی وہ تلوارنیام میں رکھ لی تھی جس سے یہ پوری زندگی دوسروں کے سر قلم کرتے رہے، انھوں نے اپنا وہ قلم بھی توڑ دیا تھا جس کے ذریعے یہ پوری زندگی دوسروں کی پگڑیاں اچھالتے رہے اور انھوں نے اپنی اس زبان پر بھی تالا چڑھا دیا تھا جس سے یہ غصب کرپشن کی عجب کہانیاں بیان کرتے تھے۔

بول میں کون کون گیا ؟آپ وہ تمام چہرے انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں اور کس کس نے بول لانچ ہونے کے بعد بول کو جوائن کرنا تھا آپ وہ ساری صورتیں بھی بول کی مختلف تقریبات کی جھلکیوں میں دیکھ سکتے ہیں، یہ جھلکیاں انٹرنیٹ پر موجود ہیں،آپ کو ان جھلکیوں میں وہ تمام لوگ بول اور ایگزیکٹ کے ’’سی ای او،، شعیب شیخ کے دعوؤں پر تالیاں بجاتے، قہقہے لگاتے اور داد دیتے نظر آئیں گے جو تنخواہیں دوسرے اداروں سے لیتے تھے لیکن تعریف شعیب شیخ کی فرماتے تھے اور جو پگڑیاں دوسرے چینلز پر اچھالتے تھے لیکن تالیاں شعیب شیخ کے فنکشن میں بجاتے تھے، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ انٹرنیٹ پر بول اور ایگزیکٹ کی تقریبات کی فوٹیج دیکھ لیجیے، آپ کو میڈیا کے تمام پارساؤں کی پارسائی نظر آ جائے گی۔

آپ اگر اس پارسائی سے مطمئن نہ ہوں توآپ آخر میں با کردار لوگوں کے کردار کی مزید عظمت ملاحظہ کر لیجیے، یہ لوگ فارغ بیٹھ کر سال سال ،ڈیڑھ ڈیڑھ سال کروڑ کروڑ روپے تنخواہ لیتے رہے، یہ میڈیا کے جونیئر صحافیوں کو گمراہ کر کے بول میں بھرتی بھی کراتے رہے اور جب ان کی وجہ سے اڑھائی ہزار لوگ نوکریاں چھوڑ کر بول کے جہاز میں سوار ہو گئے تو ذرا سی آندھی چلی اور ان لوگوں نے جہاز سے چھلانگ لگا دی اور چھلانگ لگاتے وقت ایک لمحے کے لیے ان اڑھائی ہزار ملازمین کی طرف نہیں دیکھا جنہوں نے ان کی وجہ سے معاشی اور پیشہ وارانہ خودکشی کر لی تھی۔

کیا یہ کریکٹر ہے؟۔ کیا یہ پروفیشنل ازم ہے؟ آپ کو جب پیسے ملیں تو آپ پیسے دینے والوں سے بنیادی سوال تک نہ پوچھیں اور ادارے پر جب مشکل وقت آئے تو آپ اپنی رقم جیب میں ڈالیں اور گھر چلے جائیں،یہ لوگ ان سوالوں کا کیا جواب دیں گے؟ یہ رویہ انتہائی افسوس ناک ہے لیکن اس رویئے کا کلائمیکس اس وقت آئے گا جب یہ لوگ دوبارہ ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھیں گے اور قوم کوایک بار پھر نیکی اور ایمانداری کا درس دیں گے اور یہ حکمرانوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں گے اور یہ سیاسی لوٹوں کا احتساب کریں گے، آئیے ہم اس دن کا انتظار کرتے ہیں، اس دن کا انتظار جب میڈیا کے ٹارزن اپنے پرانے اداروں میں واپس آ جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔