جنگ کا طلب گار… بھارت

عبدالقادر حسن  اتوار 30 اگست 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

مسلمانوں کی جانی دشمن قوم کے مسلم کش لیڈر نریندر مودی جب سے بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں تب سے وہ جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور پاکستان کو جنگ پر اکسانے کے لیے پاکستانی سرحدوں پر مسلسل حملے کر رہے ہیں اور ان حملوں میں پاکستانی شہید ہو رہے ہیں۔

بھارت کو اس کی اس گھٹیا جارحیت کا جواب دینے کا فرض ہماری سیاسی حکومت کا ہے لیکن وہ کئی دنوں کی خاموشی کے بعد اب کچھ گویا ہوئی ہے یہ بھی غنیمت ہے اور پاکستانی عوام خوش ہو گئے ہیں ورنہ انھیں خطرہ لگا کہ اب تک ہماری حکومت کا بھارت کے ساتھ ایک گہرا تعلق تھا اور ایسے پیدائشی اور جنم جنم کے دشمن کے ساتھ سلام دعا سے زیادہ تعلق خطرناک ہوتا ہے جب کہ ہم نے نہ جانے کس دل گردے کے ساتھ الیکشن میں بھاری اکثریت حاصل کرتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ہمیں یہ ووٹ بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے ملے ہیں جب کہ حقیقت میں کسی ایک پاکستانی نے بھی بھارت دوستی کا ووٹ نہیں دیا تھا بہرکیف جو ہونا تھا وہ ہو گیا مگر دکھ یہ ہے کہ یہ سب یک طرفہ ثابت ہوا جو  اب بے گناہ شہری پاکستانیوں کے لیے جان لیوا بن گیا ہے۔

بھارت کی طرف سے مسلسل جنگی کارروائیاں اگرچہ ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں لیکن ایسی حماقتوں میں عام شہری نہ صرف جان سے جاتے ہیں ان کی معیشت بھی تباہ ہو جاتی ہے۔ اگرچہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہمیں بے حد نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن بھارت کی کسی معاندانہ حرکت کے خلاف یہ قوم مسلسل تیار رہتی ہے۔

مشہور ہے اور واقعہ بھی ہے کہ جنگ کے سب سے زیادہ مخالف فوجی جرنیل ہوتے ہیں کیونکہ جنگ سیاستدانوں نے نہیں، اُنہیں لڑنی ہوتی ہے۔ جیت ہار کا نفع نقصان سیاسی حکمرانوں کو ہوتا ہے لیکن جیت ہو یا ہار دونوں صورتوں میں جان کسی فوجی کی جاتی ہے گولی اور بم کا نشانہ فوجی بنتا ہے۔ محفوظ گھروں اور زبردست قسم کی پناہ گاہوں میں کافی پینے والے سیاستدان بحث و تمحیص میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان تو کسی سیاسی جنگی رہنما کی نقل بھی نہیں کر سکتے۔

عالمی جنگ کے دوران گھبرائے ہوئے برطانوی شہریوں کا ایک وفد وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل سے ملنے گیا اور ظاہر ہے کہ پوچھا کہ ہمارے ملک کا کیا بنے گا۔ برطانیہ جنگ کا ایک فریق تھا۔ چرچل نے وفد سے سوال کیا  کہ کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں جواب ملا کہ بالکل کر رہی ہیں اس پر چرچل نے کہا کہ ہمیں شکست نہیں ہو سکتی۔ ایسی پر اعتماد قوم کو شکست کون دے سکتا ہے۔

ایسی کئی مثالیں ہماری اپنی اسلامی تاریخ میں بھی ملتی ہیں لیکن میں پاکستانی قارئین کے ڈر سے انھیں نقل نہیں کروں گا لیکن ایک بات کہوں گا کہ خدانخواستہ جنگ ہو بھی گئی اور ہم پاکستانیوں کا کوئی وفد خوفزدہ پاکستانیوں سے ملاقات میں کامیاب بھی ہو گیا تو ہمارا ’ونسٹن چرچل‘ وفد سے یہ سوال بھی نہیں کر سکے گا۔ ہمارا تو کوئی وزیر خارجہ بھی نہیں ہے اور خارجہ امور اللہ کے حوالے ہیں پورے ملک کی طرح جس کو ایک خوفزدہ ہندو دھمکیاں دے رہا ہے۔

مسٹر نریندر مودی ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں جہاں انھوں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا اور اس کی خبریں ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں اپنی مسلم کش کارروائیوں کے بدلے میں ان کو وزیر اعظم بنا دیا گیا اور اب وہ یہی کارروائیاں اونچی سطح پر جاری کیے ہوئے ہیں اب وہ جنگ چاہتے ہیں تا کہ مسلمانوں کے قتل عام سے اپنے دل کی آگ ٹھنڈی کر سکیں کسی بھی جنگ کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن بھارت کے ساتھ جنگ میں جب کہ وہ بھارت نے شروع کی ہو کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی فتح ممکن نہیں ہے۔

اس سے قبل بھارت کے خلاف جنگیں بھارت نے شروع کی تھیں اور پاکستانیوں کو دفاع پر مجبور کیا تھا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے تب پاکستان بیرونی ملکوں سے اسلحہ حاصل کرتا تھا اور ایک محتاج ملک تھا مگر اب اللہ کی مدد سے اور پاکستانیوں کی خداداد صلاحیتوں سے ہم بھارت سے برتر ہیں یعنی ہمارا ایٹمی ذخیرہ بھارت سے بڑا بھی ہے اور بہتر بھی۔ تعجب ہے کہ ہمارے وزارت خارجہ کے بابو لوگ اس کی تردید کرتے ہیں کہ ہم ایٹمی اسلحہ میں محتاط ہیں اور اسے حد سے بڑھا نہیں رہے ان بابوؤں کی یہ تردید عوام کی ہمتوں کو توڑنے والی ہے آج روس امریکا وغیرہ اس لیے بھی سپر پاور ہیں کہ ان کے پاس ایٹمی اسلحہ بہت ہے اور بہتر ہے لیکن یہ بددیانت ملک دنیا میں نئے ایٹمی ملکوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

ہمارے وزارت خارجہ کے کارکنان بھی ان کے رعب میں آ کر ان کی بات کر رہے ہیں لیکن ہم پاکستانی ان کی بات نہیں مانتے ہم بھارت کے مقابلے میں جب جان تک دے سکتے ہیں تو اسلحہ کیوں نہیں بنا سکتے۔ ڈاکٹر قدیر خان ایک زندہ خطرہ موجود ہے جس سے بھارت ڈرتا ہے اور ترقی یافتہ دنیا اس کے خلاف ہے۔

وہ پاکستان سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ اس سائنس دان میں حب الوطنی کا طوفان برپا رہتا ہے اور اس کے ساتھی کہا کرتے تھے کہ ہم ڈرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کہیں بھارت پر حملہ نہ کر دیں۔ اس بات کا میں بھی گواہ ہوں کہ جب وہ بھارت کے اہم مقامات کا نقشہ بنا کر ان کی نشاندہی کر رہے ہوتے تھے تو ان کے ساتھ کانپ رہے ہوتے تھے، غصے سے۔ انھوں نے اپنے دشمن کا بندوبست کر رکھا تھا آج ہمارے فارن آفس کے اہلکار کہتے ہیں کہ توبہ توبہ ہم بم وغیرہ نہیں بنا رہے جو بنانا تھا بنا لیا ہے اس میں اضافہ ہر گز نہیں۔ ان سرکاری ملازم جعلی پاکستانیوں سے کون کہے کہ کسی جنگ اور حملے کا جواب ایک مجبوری بھی ہے۔ حکمرانوں کی نہ سہی ہم عوام کی سہی۔ ہم کہاں جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔