ترقی چیونٹی کے پاؤں لے کر پیدا ہوتی ہے

جاوید چوہدری  اتوار 4 اکتوبر 2015
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

وہ مزدور کا مقدر لے کر پیدا ہوا تھا لیکن اس نے اپنے وژن، محنت اور ایمانداری سے اپنا مقدر بدل دیا، وہ 2007ء میں دنیا کا چوتھا امیر ترین شخص بن گیا۔

وہ 1926ء میں سویڈن کے ایک گاؤں Agonnaryd میں پیدا ہوا، اس کے والدین ایک فارم ہاؤس ایلمٹریاڈ (Elmtaryd) میں مزدوری کرتے تھے، اس کے والدین نے پانچ برس کی عمر میں اسے بھی مزدوری پر لگا دیا لیکن اس نے مزدور کی بجائے کاروبار کا فیصلہ کیا، اس کا نام تین سال کی عمر میں رکھا گیا، اس کے نام کے دو حصے تھے انگوار اور کیمپارڈ، اس نے گیارہ سال کی عمر میں ماچسیں بیچنا شروع کیں، وہ ماچسوں کے ڈبے لیتا اور سائیکل پر گلی گلی ماچسیں بیچتا رہتا، وہ یہ کام چھ ماہ تک کرتا رہا پھر ایک دن اسے معلوم ہوا اگر وہ شہر سے تھوک میں ماچس خرید لے اور یہ ماچس گاؤں کے دکانداروں اور پھیری بازوں کو بیچ دے تو وہ زیادہ منافع کما سکتا ہے۔

انگوار اگلے دن اسٹاک ہوم چلا گیا اور وہاں سے تھوک میں ماچس خرید لایا، اس نے یہ ماچسیں تھوڑا سا منافع رکھ کر بیچ دیں، اس نے اگلے سال تک ماچسوں کے کاروبار کو مچھلی، کرسمس ٹری، کرسمس کارڈز، پھولوں کے بیج، بال پوائنٹس اور پینسلوں تک پھیلا دیا، وہ یہ ساری اشیاء تھوک میں خریدتا تھا اور بعد ازاں گاؤں کے دکانداروں کو فروخت کر دیتا تھا، وہ 17 سال کا ہوا تو اس کے والد نے اسے تھوڑے سے پیسے دیے۔

اس نے اس معمولی سی رقم سے ایک ایسی کمپنی کی بنیاد رکھ دی جس نے آنے والے دنوں میں پوری دنیا کا لائف اسٹائل تبدیل کر دیا، انگوار نے اس رقم سے وزن میں ہلکا لیکن رنگوں میں تیز فرنیچر بنانا شروع کر دیا، لوگوں کا خیال تھا اس کا آئیڈیا ناکام ہو جائے گا کیونکہ اس وقت لکڑی کے بھاری بھر کم فرنیچر کا رواج تھا، لوگ ایک مرتبہ فرنیچر بنواتے تھے اور یہ فرنیچر تین نسلوں تک ان کا ساتھ دیتا تھا چنانچہ اس وقت یورپ میں فرنیچر ایک ایسی پراڈکٹ سمجھا جاتا تھا جس کی مانگ نہ ہونے کے برابر تھی، اس وقت تک فرنیچر کے اسٹورز اور شو رومز بھی شروع نہیں ہوئے تھے۔

لوگ ترکھانوں سے اپنی ضرورت کا فرنیچر بنوا لیتے تھے لیکن انگوار نے فرنیچر کو کاروبار کی شکل دینے کا فیصلہ کیا، اس کا خیال تھا آنے والے دنوں میں پوری دنیا میں نقل مکانی شروع ہو جائے گی، لوگ روزگار کے لیے آبائی شہروں سے باہر نکلیں گے لہٰذا اس نقل مکانی کے دوران بھاری فرنیچر کی نقل و حمل مشکل ہو  جائے گی۔

اس کا خیال تھا مستقبل قریب میں بڑے شہروں پر آبادی کا دباؤ بڑھ جائے گا جس کے نتیجے میں مکانوں اور فلیٹوں کا سائز چھوٹا ہو گا چنانچہ لوگوں کو چھوٹے سائز کے مکانوں کے لیے فرنیچر بھی چھوٹے سائز کا چاہیے، اس کا خیال تھا مستقبل رنگوں کا دور ہو گا، آنے والے دنوں میں ہر چیز رنگین ہو جائے گی چنانچہ اس نے ان تمام امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اکیا (ikea) کے نام سے یورپ میں فرنیچر سازی کی پہلی کمپنی کی بنیاد رکھی۔

’’اکیا‘‘ ایک لایعنی لفظ تھا، یہ چار حروف آئی، کے ،ای اور اے کا مجموعہ تھا، اس نے چار حرف اپنے نام اور اپنے گاؤں سے لیے تھے، آئی اس کے نام انگوار کو ظاہر کرتا تھا، کے سے مراد کیمپارڈ تھی، ای کا تعلق اس فارم ہاؤس ایلمٹریاڈ سے تھا، جس میں اس نے پرورش پائی تھی اور اے اس کے آبائی گاؤں Agunnaryd کا پہلا حرف تھا، انگوار نے جب اپنی کمپنی کا نام ’’اکیا‘‘ رکھا تو لوگوں کا خیال تھا اس کے بزنس کی طرح اس کی کمپنی کا نام بھی لایعنی ہے لہٰذا یہ کاروبار اور یہ کمپنی چند ماہ میں ماضی کا قصہ بن جائے گی لیکن انگوار نے آنے والے دنوں میں لوگوں کے سارے خدشات باطل ثابت کر دیے۔

اس نے سائز میں چھوٹا، وزن میں ہلکا اور رنگوں میں تیز فرنیچر بنوایا اور یہ فرنیچر آنے والے دنوں میں دنیا کا لائف اسٹائل بن گیا، اس نے دنیا کی نفسیات اور طرز رہائش بدل کر رکھ دی ’’اکیا‘‘ بیس برس بعد یورپ کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی، اس کی یہ کامیابی اس کے وژن، محنت اور ایمانداری کا نتیجہ تھا، اس نے وقت کی تبدیلی کو بھانپ لیا تھا، وہ سمجھ گیا تھا چھوٹی اور کارآمد چیزوں کا دور آنے والا ہے لہٰذا مستقبل میں صرف وہی چیزیں کامیاب ہوں گی جو سائز میں چھوٹی، وزن میں ہلکی اور استعمال میں وسیع ہوں گی، 1980ء میں اس نے بزنس کو ایک اور کروٹ دی، اس نے گھر میں استعمال ہونے والی ہر قسم کی مشینری بنانا شروع کر دی، وہ اس وقت کچن میں استعمال ہونے والی چھوٹی چمچ سے لے کر گھر میں استعمال ہونے والے باتھ ٹب تک ہر چیز بنا رہا ہے۔

اس کا کاروبار یورپ سے لے کر امریکا تک اور دبئی سے لے کر نیوزی لینڈ تک دنیا کے 34 بڑے ممالک میں پھیلا ہوا ہے، اس کے اسٹورز پر روزانہ 900  ملین ڈالر کی سیل ہوتی ہے اور آج یہ کہا جاتا ہے یورپ میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو گا جس میں ’’اکیا‘‘ کی کوئی نہ کوئی چیز نہ ہو، مارچ 2007ء میں فوربس انٹرنیشنل نے مزدور کے اس بیٹے کو دنیا کا چوتھا امیر ترین شخص قراردیا تھا جب کہ جون 2015ء میں Bloomberg Billionaires Index نے اسے دنیا کا آٹھواں امیر ترین شخص قرار دیا، اس وقت اس کے ذاتی اکاؤنٹ میں 43 بلین ڈالر جمع ہیں جب کہ اس کی دولت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

انگوار کیمپارڈ ایک انتہائی دلچسپ شخص ہے، وہ ارب پتی ہونے کے باوجود انتہائی سادہ زندگی گزارتا ہے، وہ پندرہ سال پرانی والو گاڑی استعمال کرتا ہے، اپنی گاڑی خود چلاتا ہے، ہمیشہ جہاز کی اکانومی کلاس میں سفر کرتا ہے، اس نے سات سال کی عمر میں کرسمس پیپر بیچنے کا کام شروع کیا تھا وہ اب تک یہ کاروبار کر رہا ہے، وہ ہر سال کرسمس پیپر خریدتا ہے اور کرسمس کے بعد ان پیپرز کی سیل لگاتا ہے، اس نے ’’ اکیا ‘‘ کے تمام ملازمین کو کاغذ کی دونوں سمتیں استعمال کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔

اس کے کسی دفتر میں اگر کوئی شخص ایک سمت استعمال کر کے کاغذ ردی کی ٹوکری میں پھینک دے تو وہ لڑنے مارنے پرآمادہ ہو جاتا ہے، وہ ہمیشہ سستے ریستورانوں میں کھانا کھاتا ہے، اس نے چالیس برس قبل ’’اکیا‘‘ کے دفاتر اور فیکٹریوں میں ملازموں کے لیے سستا کھانا شروع کرایا تھا، وہ اگر کھانے کے وقت اپنی کسی فیکٹری یا دفتر کے نزدیک ہو تو وہ ہمیشہ ’’ اکیا‘‘ کے کیفے ٹیریا میں کھانا کھاتا ہے اور دو تین ڈالر ،پاؤنڈ ،مارک یا کراؤن بچا کر خوش ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی فراخ دل شخص بھی ہے، اس نے INGKA Fondation کے نام سے ایک فلاحی ادارہ  بنا رکھا ہے۔

وہ اس ادارے کے ذریعے اب تک 36 بلین ڈالر کی چیرٹی کر چکا ہے، دنیا کے نامور میگزین اکانومسٹ کے مطابق انگوار فلاح عامہ میں بل گیٹس کے مقابلے میں کہیں زیادہ رقم خرچ کرتا ہے لیکن وہ اپنی چیرٹی کے تمام کاموں کی تشہیر نہیں کرتا لہٰذا دنیا اس کی خیرات اور فلاحی کاموں سے پوری طرح واقف نہیں، اگر انگوار کیمپارڈ کی ذات کا مطالعہ کیا جائے تو وہ ایک ’’ کنجوس سخی،، محسوس ہوتا ہے، وہ ایک طرف اپنے کسی ورکر کو ایک پنسل ضایع کرنے کی اجازت نہیں دیتا، وہ کاغذ کی دوسری پرت ضایع کرنے کے جرم میں اپنے ایم ڈی تک کو فارغ کر دیتا ہے جب کہ دوسری طرف وہ اربوں کھربوں ڈالر خیرات کر دیتا ہے، وہ شاید اس وقت دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد شخص ہو گا۔

مجھے انگوار کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا، اس انٹرویو میں اس نے دو دلچسپ باتیں کیں ، اس نے بتایا ’’ دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی شخص خوشحال نہیں ہو سکتا، انسان کی معاشی زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے کام کا آغاز کرتا ہے‘‘ اس کی دوسری بات اس سے بھی دلچسپ تھی، اس کا کہنا تھا ’’کامیابی اور ترقی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں، اس کا کہنا تھا ’’اگر تعلیم سے روٹی کمائی جا سکتی تو آج دنیا کے تمام پروفیسر ارب پتی ہوتے‘‘ اس کا کہنا تھا اس وقت دنیا میں ساڑھے نو سو ارب پتی ہیں لیکن ان میں ایک بھی پروفیسر ، ڈاکٹر یا ماہر تعلیم شامل نہیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’دنیا میں ہمیشہ درمیانے پڑھے لکھے لوگوں نے ترقی کی، یہ لوگ وقت کی قدر و قیمت سمجھتے ہیں چنانچہ یہ لوگ ڈگریاں حاصل کرنے کی بجائے طالب علمی کے دور ہی میں کاروبار شروع کر دیتے ہیں چنانچہ ان کی کامیابی انھیں کالج یا یونیورسٹی سے اسٹور، کارخانے یا منڈی میں لے جاتی ہے‘‘ اس کا کہنا تھا وہ زندگی میں کبھی کالج نہیں گیا لیکن اس وقت اس کی کمپنی میں 30 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کام کر رہے ہیں۔

یہ تعلیم یافتہ لوگ وژن، علم اور دماغ میں اس سے کہیں بہتر ہیں بس ان میں ایک خامی تھی، ان میں نوکری چھوڑنے کا حوصلہ نہیں تھا، انھیں اپنے اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تھا‘‘ اس کا کہنا تھا ’’اگر کوئی شخص انگوار کے لیے کام کر سکتا ہے تو وہ خود اپنے لیے بھی کام کر سکتا ہے،بس اس کے لیے ذرا سا حوصلہ چاہیے‘‘ اس نے دنیا بھر کے نوجوانوں کو پیغام دیا ’’ترقی چیونٹی کے پاؤں لے کر پیدا ہوتی ہے لیکن جوان ہونے تک اس کے پاؤں ہاتھی جتنے بڑے ہو جاتے ہیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’دنیا میں ہر چیز کا متبادل موجود ہے لیکن محنت کا کوئی شارٹ کٹ نہیں‘‘ اس نے کہا ’’ دنیا کا کوئی کیمیائی عمل لوہے کو سونا نہیں بنا سکتا لیکن انسانی ہاتھ وہ طاقت ہیں جو دنیا کی کسی بھی دھات کو سونے میں  بدل سکتے ہیں‘‘۔

اس نے کہا ’’ دنیا میں نکمے لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں جب کہ کام کرنے والوں کے لیے پوری دنیا کھلی پڑی ہے‘‘ اس نے کہا ’’ہنر مند شخص کا ہنر اس کا پاسپورٹ ہوتا ہے‘‘ میں نے جب انگوار کے یہ خیالات سنے تو میں نے سوچا کاش میں یہ خیالات پاکستان کے ان تمام بے روزگار نوجوانوں تک پہنچا سکوں جو دن رات بے روزگاری کا رونا روتے رہتے ہیں، کاش میں ان نوجوانوں کو بتا سکوں اگر فارم ہاؤس کا ایک مزدور مسلسل محنت سے انگوار بن سکتا ہے تو پاکستانی نوجوانوں کے راستے میں کیا رکاوٹ ہے؟ یہ لوگ کامیاب کیوں نہیں ہو سکتے، انگوار نے کہا تھا ’’آگے بڑھنے کا راستہ انھیں ملتا ہے جو چلنا جانتے ہیں‘‘ میرا خیال ہے ہمارے نوجوانوں  کو چلنے کا ہنر نہیں آتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔