اہتمام خر نوازی و اندیشات ہائے وطن

زبیر ترک  پير 23 نومبر 2015
گدھے تو ہمارے ہاں دو ٹانگوں والے بھی بکثرت پائے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک دھرنوں، مظاہروں، ہنگاموں اور ٹریفک حادثوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فوٹو :فائل

گدھے تو ہمارے ہاں دو ٹانگوں والے بھی بکثرت پائے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک دھرنوں، مظاہروں، ہنگاموں اور ٹریفک حادثوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فوٹو :فائل

خبریں تو دراصل دو ہیں اور کسی گھریلو معاملہ یعنی کہ ’’قطعی ذاتی معاملہ‘‘ کی طرح گھسی پٹی نہیں بلکہ تاذہ بہ تازہ سیدھے سبھاؤ گھوڑے نے پھونکی ہیں۔ پہلی خبر یہ ہے کہ ماشااللہ برادر کلاں (صوبہ پنجاب) نے مملکت ہائے چین و ترکی کے ساتھ 150 سے زائد معاہدوں پر دستخط کئے ہیں، جن میں توانائی، انفراسٹرکچر، صنعت، کان کنی اور دیگر کئی شعبے ہیں، دوسری خبر کچھ دن پرانی ہے کہ کل برادر خورد (صوبہ پختونخوا) کے وزیراعلٰی سے چینی سرمایہ کاروں کا ایک وفد ملا جس نے یہاں پر گدھوں کی افزائش کے فارم کھولنے کےسلسلہ میں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔

اب ان کو کون بتلائے کہ ہمارے یہاں تو کب سے یہ فارم بہت سے قومی اداروں کے نام سے قائم ہیں اور اب تو ہمارے گدھوں معاف کیجئے گا، سیاست دانوں کی تیسری نسل برآمد ہو رہی ہے بلکہ طفیلی کیڑوں کی طرح جن کی زندگی کا ایک حصہ اپنے کرم پروردہ کے جسم کے باہر نمو پا کر دوبارہ داخل ہوجاتا ہے۔ اکھاڑے میں اترنے کے لئے تیار ہے بلکہ اتر بھی چکی۔ استغفراللہ یہ میں کہہ بیٹھا کہ فی زمانہ عزت سادات کی تو کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ ملک ہائے مااست میں عزت دار کہلانے والے افراد صرف گنے چُنےاداروں کے ہیں۔ عام آدمی، اسلامی شعائر و اکابر اور قومی رہنماؤں کو آپ جو مرضی کہہ ڈالیں لیکن خبردار آپ کسی بڑے کے بارے میں کچھ کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ قوانین عام عوام کے لئے اور ان پر عملدر آمد نافذ کرنے والوں کی مرضی پر موقوف ہے، لہٰذا آئندہ سیاست کا تذکرہ نہیں ہوگا کہ یہاں پر فرشتوں کے پر جلتے ہیں۔

مرزا نوبت آج کل فارغ ہیں، شادیوں کے موسم میں بھی کوئی نہیں بلا رہا اس معاملہ پر معترض ہیں، فرماتے ہیں ’’یعنی کہ نوبت اب یہاں تک پہنچی کہ ہمارے دوست اب ہمیں گدھے پالنے کا مشورہ دے رہے ہیں‘‘۔ تجویز تو بہرحال اتنی بُری نہیں کہ اسکا بُرا منایا جائے۔ پالنے کے معاملہ میں باوجود اس حقیقت کے کہ ہماری جمہوریت ابھی تک پالنے میں ہے لیکن ہمارے مبینہ راہنما کتے پالتے ہیں، جاگیردار ڈاکو اور خوانین بدمعاش پالتے ہیں، حکومت اپنے آپ کو پالنے کے لئے قرض لیتی ہے اور کارپوریشن پال کے بیچتی ہے جبکہ عوام اس قرض کا روگ پالتے ہیں۔

فی زمانہ اس سے بہتر کوئی روزگار نہیں اور چونکہ دوستوں کی نظر میں ہم لوگ کسی اور کام جوگے نہیں، کیوں کہ ’’پڑھا لکھا پنجاب‘‘ تحریک تو صرف اٹک پار تک اپنا چمتکار دکھا سکی اور ہمارا دیرینہ مطالبہ تھا کہ شاہراہ ترقی یعنی کہ پاک چین اقتصادی راہ داری میں ہمیں حصہ ملے تو ہمارے بھائیوں نے ابھی سے اس راہ پر ہماری استطاعت کے مطابق ہماری سواری کا بندوبست کرنے پر غور و خوض شروع کردیا اور ہمیں مشورہ دیا کہ بھاڑ جھونکنے سے تو بہتر یہی کہ باہمی فلاح کا یہ کام کرلیا جائے بلکہ اپنے فاضل معلمین و اطبا کرام کو اس کام سے لگا دیا جائے تاکہ ان کی سمع خراشی سے محفوظ رہا جاسکے۔

ہماری قوم تو تقریباً ہر معاملہ میں درآمد شدہ مال پر یقین رکھتی ہے خواہ وہ بیوی ہو، وزیراعظم ہو یا اسپتالوں کے منتظم اعلیٰ۔ ہمارے مزاج کو تو امپورٹڈ کا لیبل ہی بھاتا ہے تو کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم برآمد کے لئے تو اپنے دیسی گدھے پالیں اور سواری کے لئے امریکی گدھے؟ لیکن اُمید ہے کہ اس سے امریکیوں سے ہمارے تعلق دیرینہ میں گرم جوشی آئے اور آخر ان کو بھی ایک دن احساس ہوجائے کہ ارے  پاکستانی تو بہت خر نواز قوم ہے۔

ایک اور وجہ شاید اس کی یہ بھی ہو کہ ان کو کسی نے بزرگوں کی تمنا کا تذکرہ کیا ہو کہ ’’اے اللہ! بس ایک گدھا اور ایک کلہاڑا دے دے باقی میں جانوں اور میرا کام‘‘۔ گدھے تو ہمارے ہاں دو ٹانگوں والے بھی بکثرت پائے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک دھرنوں، مظاہروں، ہنگاموں اور ٹریفک حادثوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کچھ پرائی جنگ کا ایندھن بن کر اڑ جاتے ہیں، جبکہ چند ایک کو ملک بدر کیا جاتا ہے۔ عمومی بہانہ تعلیم یا روزگار کا ہوتا ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہے کہ جب یہ حضرات گھوم پھر کر دوبارہ یہاں وارد ہوجائیں کہ مشہور اس چوپائے کے بارے میں یہی ہے،

’’جتھے دی کھوتی اُتے آن کھلوتی‘‘۔

عمومی تعلیم بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی (غنی بابا انہی کے بارے میں کہہ گئے ہیں،

’’کعبہ کی بُزرگی میں کسی شک کی گنجائش نہیں لیکن گدھے کو طوافوں سے حاجی نہیں بنایا جاسکتا‘‘۔

یا شاید ہمارے دوستوں کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ہماری قوم گدھوں کی تربیت اور ان کے انتخاب میں مہارت رکھتی ہے اول الذکر کی مثال ہماری کارپوریشنز اور سرکاری ادارے ہیں کہ نو منتخبان کی اکثریت کسی نہ کسی بڑے آدمی یا سیاستدان سے رشتہ داری کا دعوٰی رکھتی ہے۔ موخر الذکر کی مثال رہنے دیتے ہیں، یہ واقعہ برطانوی پارلیمان کی تاریخ میں رقم ہے کہ ایک رکن نے کہا،

’’اس ایوان کے آدھے ارکان گدھے ہیں‘‘َ۔

جب اس جملہ پر نقطہ اعتراض اٹھایا گیا تو وہی حضرت گویا ہوئے،

’’اگر ایوان کا استحقاق اس سے مجروح ہوا ہے تو میں اپنے بیان میں ترمیم کرنا چاہوں گا، اس ایوان کے آدھے اراکین یقینًا گدھے نہیں ہیں‘‘۔

لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ گدھا جس راستے پر ایک دفعہ چلا جائے تو یہ اس کی یاداشت کے لئے کافی ہے، جیسا ہمارے ہاں ایک دفعہ کا انتخاب اگلی دفعہ کے لئے پارلیمینٹ جانے کی گارنٹی ہے۔

خرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا اب زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

کیا آپ گدھوں اور اُن کی اقسام سے متعلق بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

زبیر ترک

زبیر ترک

لکھاری میڈیکل گریجویٹ اور پیشے کے اعتبار سے معالج ہیں۔ اِن کا مشغلہ اپنی اور قوم کی حالت پر کڑھنا ہے کہ ایمان کا تیسرا درجہ ہے اور اس سے زیادہ کا اختیار نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔