نادرا کی بدعنوانیوں نے قومی سلامتی دائو پر لگا دی

رحمت علی رازی  اتوار 6 دسمبر 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ کالم میں ہم نے پاکستان کے نیشنل ڈیٹابیس کے غیر محفوظ ہاتھوں میں ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور تجویز پیش کی تھی کہ نادرا جیسے انتہائی حساس ادارے کو فی الفور فوج کی تحویل میں دیدیا جانا چاہیے۔

اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کو اتھارٹی کی بجائے ایجنسی میں تبدیل کر دینے میں اب مزید غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ نادرا کے عام ملازمین کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ فوجی افسران کا جعلی شناختی کارڈ سکینڈلز میں ملوث پایا جانا حکومت و فوج دونوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ جعلی شناخت کا یہ گورکھ دھندہ اگر اسی ڈھنگ سے جاری رہا تو بعید از قیاس نہیں کہ پاکستانی قوم بہت جلد ایک ناقابل بیان شناختی بحران سے دوچار ہو جائے گی۔ نادرا کے ملازمین کو رتی بھر بھی حیا نہیں جو دیگر قومی اداروں کی طرح اسے بھی پراپرٹی ایجنسی سمجھ کر ہر فائل کے ریٹ مقرر کیے بیٹھے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی طرح نادرا کو بھی داخلی و خارجی مافیاز نے جکڑبند کر رکھا ہے۔ یہ بات آج کی نہیں بلکہ عشروں پر محیط ہے کہ پاکستان کے شناختی ادارے کو جتنا خطرہ اندر سے رہا ہے اس سے بھی کہیں بڑا خطرہ باہر سے اس کے شانہ بہ شانہ چلتا رہا ہے۔ 2000ء میں نادرا کے وجود میں آنے سے قبل تک شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پرنٹ کرنیوالی مشینیں بھی کرنسی ملوں کی طرح افغانستان اور علاقہ غیر کے غیر گنجان اور ناقابل رساء گوشوں میں پاکستانی شہریت کے ڈھیر اگلتی رہیں۔ تب شناختی دستاویزات کو پرکھنے کا کوئی معقول اور قابلِ بھروسہ نظام نہ ہونے سے فائدہ اٹھا کر لاکھوں افغانیوں کو پاکستان کے شناخت نامے جاری کیے گئے جن کی بنیاد پر بعدازاں انھوں نے نادرا سے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز بھی حاصل کر لیے جنہیں آج تک تحقیقاتی ادارے بھی جعلی ثابت نہیں کر سکے۔

یہ تو وہ شناختی کارڈز ہیں جن کا ماضی میں کوئی ریکارڈ نہیں رہا لیکن ان لاکھوں آئیڈنٹٹی کارڈز کا کیا جائے جو نادرا سے قبل محکمہ قومی شناخت کے صوبہ سرحد (سابقہ) کے ملازمین نے بالخصوص اور دیگر صوبوں کے ملازمین نے بالعموم افغان شہریوں کو جاری کیے تھے‘ حیران کن بات تو یہ ہے کہ یہ سلسلہ نادرا کے قیام کے بعد بھی بلاتامل جاری ہے۔ افغانیوں کی ایک بڑی تعداد گزشتہ 35 سالوں سے پاکستان میں جابجا آباد ہے‘ پھر امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد تقریباً آدھا افغانستان غیرقانونی طریقے سے پاکستان میں دَر آیا جسکا کوئی ریکارڈ (65 لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین کے علاوہ) پاکستان کے کسی تصدیقی یا سلامتی ادارے کے پاس بھی نہیں۔ غیرسرکاری ذرائع کے مطابق اس وقت افغانستان کی 10 فیصد آبادی پاکستانی شہریت کی حامل ہے۔

ان افراد میں زیادہ تر دُہری اور کئی ایک تہری اور چوہری شہریت کے بھی حامل ہیں جن کے پاس پاکستان کے علاوہ اور بھی کچھ ممالک کی شہریتی دستاویزات موجود ہیں۔ پاکستان کی شہریت رکھنے والے افغانیوں کی ایک کثیر آبادی مستقلاً پاکستان میں آباد ہو چکی ہے جس میں لاتعداد لوگ جعلی کاغذات، رشوت دہی اور سیاسی سفارشوں کے بل پر نوکریاں بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ہمیں اُس وقت ایک خوفناک دھچکا لگا جب نادرا جیسے حساس قومی ادارے میں ایک افغان باشندے کے 8 سال سے بطور ایگزیکٹو کام کرنے کا انکشاف ہوا۔

روح اللہ نامی افغان شہری بینظیر قتل سے دو ماہ قبل جعلسازی اور نادرا حکام کی ملی بھگت سے قومی ادارے میں بھرتی ہو کر باجوڑ ایجنسی کے نادرا رجسٹریشن سینٹر میں جونیئر ایگزیکٹو تعینات ہوا۔ نادرا کی وِجیلنس ٹیم نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ روح اللہ نے نادرا کے افسراعلیٰ کے طور پر نہ صرف اپنے عزیز و اقارب بلکہ سیکڑوں افغان باشندوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کیے جنھوں نے پاکستان کے پاسپورٹ بھی بنوا رکھے ہیں‘ ان میں کئی افراد ایسے بھی ہیں جو پاکستان مخالف سرگرمیوں اور دہشت گردی کے واقعات میں بھی ملوث رہے ہیں۔ روح اللہ پر افغان خفیہ ایجنسی کا عہدیدار ہونے کا شک بھی ظاہر کیا جا رہا ہے اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ جن افغانیوں کو اس نے پاکستانی کارڈ جاری کیے وہ افغان سپائی نیٹ ورک کا حصہ ہو سکتے ہیں۔

ہمیں تو یہ خوف لاحق ہو گیا ہے کہ ایسے عناصر کل کو کہیں پاک فوج یا دیگر اہم سرکاری اداروں میں نہ بھرتی ہو جائیں‘ یہ اکلوتا کیس نہیں‘ نادرا میں اور بھی بہت سے افغان باشندے کلیدی عہدوں پر کام رہے ہیں جس پر وزیر داخلہ چوہدری نثار کافی حواس باختہ نظر آتے ہیں‘ شاید اسی لیے انہیں اسمبلی میں یہ پردہ برملا اُٹھانا پڑا کہ وہ اور کوئی نہیں بلکہ ارکانِ پارلیمنٹ ہیں جنھوں نے نادرا میں غیرملکی بھرتی کروائے‘ شناختی کارڈ صرف پاکستانیوں کا حق ہے‘ اسے غیرقانونی طریقے سے بنانے اور بنوانے والے دونوں کو جیل میں ہونا چاہیے‘ وزارتِ داخلہ کی ہدایت پر اس طرح بنائے گئے ایک لاکھ شناختی کارڈ بلاک کر دیے گئے ہیں‘ ان کے علاوہ بھی 2 لاکھ 36 ہزار 5 سو 34 مشکوک شناختی کارڈ منجمد ہیں۔

نادرا کے ساتھ ساتھ پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ کو بھی مافیا نے جکڑ رکھا ہے جس پر چوہدری نثار نے اپنی بے بسی یہ کہہ کر ظاہر کی کہ میں نے پھٹک پھٹک کر اپنا سر پھوڑ لیا ہے مگر یہ معاملہ کچھ زیادہ ہی گہرا ہے اور ایوان کی حمایت کے بغیر یہ گند صاف کرنا ممکن نہیں۔ جو ایک لاکھ شناختی کارڈ بلاک کیے گئے ان میں 25 ہزار سندھ اور 9 ہزار پنجاب میں منجمد ہوئے مگر مولانا فضل الرحمن اور غلام احمد بلور جیسے قوم پرستوں نے اس معاملہ کو بھی لسانی تعصب کا رنگ دیکر شور مچانا شروع کر دیا ہے کہ یہ شناختی کارڈ بلاک کر کے قبائل کو نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ اجتماعی زیادتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر فضل الرحمن اور غلام احمد بلور کو سارے افغانی صرف اسلیے قبائلی نظر آتے ہیں کہ ان کی زبان و ثقافت جناب کی تہذیب سے ملتی ہے تو گویا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پشتو، دری اور فارسی بولنے والے ہر افغانی کو پاکستانی شہریت حاصل کرنے کا پورا پورا استحقاق ہے۔

اگر یہ حق تسلیم کر لیا جائے تو پھر نادرا باجوڑ سینٹر کے ایگزیکٹو روح اللہ کو برطرف کرنے کی بھی کیا ضرورت تھی‘ اسے پوری آب و تاب کے ساتھ کام جاری رکھنے دیا جاتا کیونکہ وہ جن لوگوں کے شناخت نامے بنا رہا تھا ان کے خیرخواہ بھی تو پاکستان ہی کے شہری ہیں۔ افغانیوں کی پشت پناہی فقط کے پی کے تک ہی محدود نہیں پنجاب اور سندھ میںبھی بیشمار پختون ویلفیئر تنظیمیں ہر علاقے میں موجود ہیں جو افغانوں کو یہاں سیٹل کرانے کے لیے تن من دھن سے برسرِپیکار ہیں۔ جب کبھی پولیس کریک ڈاؤن کر کے افغانیوں کو پکڑتی ہے تو ان تنظیموں کے سرکردگان احتجاج پر اُتر آتے ہیں اور ان کی رہائی کے لیے تھانوں اور آئی جی آفس تک پہنچ جاتے ہیں اور جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ پکڑے گئے افغانی قیامِ پاکستان سے قبل کے یہاں آباد ہیں اور انھوں نے یہاں اپنی جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ واضح رہے کہ پولیس صرف انہیں پکڑتی ہے جن کے پاس یہاں کے شناختی ثبوت نہیں ہوتے۔

ایسے لوگوں کے شناختی کارڈ بنوانے کے لیے ہمارے کئی پاکستانی بھائی رشوت اور رسوخ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں تا کہ مہاجرین کو یہاں رہائش اور کاروبار کا قانونی حق حاصل ہو سکے مگر انہیں کون سمجھائے کہ یہ لوگ پاکستانی معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ بننے کے علاوہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی زبردست خطرہ بنے ہوئے ہیں جو سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے بہت بڑا سر درد ہے۔ ابھی حال ہی میں پاکستان کی حساس تنصیبات اور بارڈر سے بیشمار افغانی پکڑے گئے جن کے پاس سے پاکستانی شناختی کارڈ ملے ہیں۔

آئی بی نے چار سال میں نادرا کو افغانیوں کے 2800 کیسز بھجوائے ہیں مگر آئی بی کو اس حوالے سے تاحال آگاہ تک نہیں کیا گیا کہ ان کیسز کا آخر کیا بنا۔ آئی بی ہر سال چار ہزار سے زائد کیسز کی تصدیق کرتی ہے‘ ان میں جو بوگس یا مشکوک ہوتے ہیں انہیں نادرا کے اعلیٰ حکام کو بھجوا دیا جاتا ہے‘ اس کے بعد نادرا کی صوابدید ہے کہ وہ انہیں منجمد کرے یا بحال رکھے۔ اس ضمن میں نادرا کی کارکردگی انتہائی حوصلہ شکن رہی ہے اور وہ جعلی شناختی کارڈ کا اجراء روکنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔

نادرا ملک کا واحد ادارہ ہے جو مادرپدر آزاد ہے‘ ہنوز اسے دائرہ احتساب میں لایا گیا ہے نہ اس پر کسی عقابی ایجنسی کی باضابطہ نگرانی ہے۔ 2013ء کے بعد افغان مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد بلوچستان میں داخل ہوئی ہے کہ نادرا کے پاس اس کے اعداد و شمار تو کیا اس کے مناسب ثبوت بھی موجود نہیں۔ ایجنسیاں ایسے افراد کو تلاش کرتے کرتے تھک گئی ہیں اور نادرا اپنے بدعنوان ملازمین کے دفاع میں وقت ضایع کیے جا رہا ہے۔

یہی نہیں بلکہ نادرا تو آئی بی، آئی ایس آئی اور سپیشل برانچ کی جوائنٹ ویری فکیشن (جے وی سی) کمیٹی سے بھی نیک نیتی سے تعاون کرنے سے گریزپا ہے۔ یہ پارلیمان کی نااہلی ہے کہ جے وی سی بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں تو قائم ہو چکی ہے مگر سندھ میں جہاں کراچی جرائم اور جعلسازی کا گڑھ بن چکا ہے اور اس شہر میں ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ جعلی شناختی کارڈ بنائے گئے ہیں، جے وی سی کا قیام بدستور التواء کا شکار ہے۔

بلوچستان اور کے پی کے میں ماہانہ کی بنیاد پر جے وی سی میٹنگ ہوتی ہے اور غیر ملکیوں کی معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے لیکن جب تک افغان پناہ گزینوں کو ان کے کیمپوں تک محدود نہیں کیا جاتا اور ملک میں ان کے دخول و خروج کا کوئی ڈیٹا بیس مرتب نہیں کیا جاتا، جے وی سی کی سب دوڑ دھوپ رائیگاں جائے گی۔ بلاک کیے گئے شناختی کارڈ ز کی تصدیق بھی جے وی سی کی ضلعی سطح پر کام کر رہی کمیٹیوں ہی کے ذمہ ہے اور مشترکہ ٹیم کی رپورٹ کی بنیاد پر ہی منظور شدہ منجمد کارڈز بحال بھی کیے جاتے ہیں۔ نادرا اپنے قیام سے اب تک 10 کروڑ 16 لاکھ 66 ہزار کے قریب شناختی کارڈ جاری کر چکا ہے جن میں بلاک کیے گئے لاکھوں کارڈز بھی شامل ہیں جو فراڈ اور جعلی دستاویزات پر حاصل کیے گئے تھے۔

افغانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستانی پاسپورٹ پر دُنیا کے مختلف ممالک میں بھی رہائش پذیر ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو غیرممالک میں منشیات فروشی، ڈکیتی، قتل اور دہشت گردی کی وارداتوں میں آئے روز پاکستان کا نام ’’روشن‘‘ کر رہے ہیں۔ سعودی عرب جیسے سخت قوانین رکھنے والے ملک میں بھی یہ بلاخوف اپنی ثقافتی روایات کو جاری رکھے ہوئے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ سعودیہ کے کسی نہ کسی شہر میں ہر جمعۃ المبارک کو جامع مساجد کے سامنے منشیات فروشی، زنا اور چوری ڈکیتی وغیرہ کی سنگین وارداتوں کی پاداش میں دو تین پاکستانیوں کے سر ضرور قلم ہوتے ہیں۔ ایسے ہی پاکستانیوں کے 20 ہزار پاسپورٹ سعودی عرب نے کچھ ماہ پہلے پاکستان کے حوالے کیے ہیں۔

اس نوعیت کے جعلی پاکستانی جب مختلف ممالک سے ڈی پورٹ ہو کر پاکستان پہنچتے ہیں تو امیگریشن حکام کی پوچھ پڑتال پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہی نہیں‘ اور ان میں بیشتر تو اُردو تک بولنے سے قاصر ہیں۔ تافتان سرحد پر ہر ہفتے ایرانی حکام کی طرف سے پاکستانی امیگریشن کے حوالے کیے جانے والے غیر قانونی سفارین میں نصف سے زائد افغانی باشندے ہوتے ہیں جو کوئٹہ میں جعلی شناختی دستاویزات یا بلوچستان میں بیٹھے افغانی نژاد انسانی اسمگلروں کی ضمانتوں پر دوبارہ رہا ہو جاتے ہیں۔

تہران میں قائم اتباعِ خارجہ کے دفتر میں ویزا توسیع یا گمشدگی پاسپورٹ کے لیے کبھی جانے کا اتفاق ہو تو بیشمار افغان باشندے آپ کو قطار اندر قطار اپنی باریوں کے ٹوکن تھامے نظر آ جائینگے‘ ان میں خواتین، جوان، بچے، بوڑھے سبھی پاکستانی شہریوں کی لائن میں محو ِانتظار ہونگے اور جب آپ ان سے بات کرنا چاہیں تو وہ اشاروں میں گفتگو کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اُردو کا ایک فقرہ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ تین روز پہلے یونان سے بیدخل کیے گئے 49 مسافروں کا واقعہ اس کی زندہ مثال ہے‘ ان مسافروں کو یونان کا ایک چارٹرڈ طیارہ لے کر اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچا تو معلوم پڑا ان میں صرف 19 افراد پاکستانی ہیں‘ وزیر داخلہ نے یونانی سفیر کے اصرار کے باوجود 30 بوگس پاکستانیوں کو واپس بھجوا دیا۔ گرین پاسپورٹ جیب میں رکھ کر پاکستانی پرچم کو داغدار کرنے کا یہ رحجان انتہائی تشویشناک ہے۔

اس تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ کا یہ بیان کافی اہمیت کا حامل ہے کہ مغربی ممالک جرائم و دہشت گردی کی مد میں پاکستانی شہریوں کو ملک بدر کرنے سے پہلے حکومت پاکستان کو ثبوت پیش کریں اور پاکستان کی طرف سے ان عناصر کی شناختی تصدیق کے بعد کوئی فیصلہ کریں کیونکہ ضروری نہیں کہ پاکستانی دستاویزات رکھنے والا ہر مجرم پاکستانی شہری ہو۔ نادرا میں سرگرم مافیا کی وجہ سے لاکھوں غیرملکی پاکستانی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں جن میں بے پناہ افغانیوں کے علاوہ‘ بنگلہ دیشی، ازبک، برمی، ایرانی، سری لنکن اور بھارتی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ وزیرداخلہ کے اس بیان پر یورپین یونین نے پاکستان کے اس دفاعی موقف کی تائید کی ہے جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ دہشت گردی کو پسپا کرنے کے بعد پاکستان اپنی حیثیت کو دُنیا کے ہر فورم پر منوانے کی اہلیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔

افغانستان نے پاکستان کو اس کے قیام سے پہلے اور بعد میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پچھلا سب نقصان ایک طرف لیکن جو بربادی افغانیوں نے گزشتہ 14 سالوں میں کی ہے‘ اس کے اثرات سے نکلنے کے لیے پاکستان کو چودہ سو سال کا عرصہ درکار ہے۔ خیبرپختونخوا کی اپنی آبادی تین کروڑ کے لگ بھگ ہے جب کہ وہاں غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کو بھی شمار کیا جائے تو یہ تعداد ساڑھے تین کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔ 30 لاکھ افغان تو صرف کراچی شہر میں آباد ہیں‘ ان کے علاوہ بلوچستان اور پاکستان کے دیگر شہری و دیہی علاقوں میں آلو کی فصل کی طرح پھیلے ہوئے افغان باشندوں کی مردم شماری کی جائے تو یہ تعداد بھی دو کروڑ سے ہرگز کم نہ ہو گی۔ فاٹا میں ان کی موجودگی اس حد تک ہے کہ ہر تیسرا فرد افغانی ہے۔

امریکا طالبان جنگ کے دوران ڈیڑھ سے دو کروڑ افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے جن میں 65 سے 70 لاکھ رجسٹرڈ کیے گئے اور دیگر خیبر سے کراچی تک پاکستان کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ 2002ء سے جاری رضاکارانہ واپسی کے تحت پاکستان میں مقیم رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں میں سے اب تک 39 لاکھ افراد وطن واپس جا چکے ہیں جب کہ مہاجرین کیمپوں میں رہنے والے باقی 15 لاکھ کے پاکستان سے کوچ کرنے کی ڈیڈلائن پہلے 2012ء تھی‘ پھر 2015ء کی گئی اور اب افغان حکومت کی درخواست پر ایک بار پھر دسمبر 2017ء کر دی گئی ہے۔ یو این ایچ سی آر کے ہاتھ کھینچ لینے سے اب یہ لاکھوں افراد حکومت پاکستان کے سرکاری مہمان ہیں اور ان کی تواضع پاکستانی عوام کے خون پسینے سے کی جا رہی ہے۔

یہ پناہ گزین نادرا کے مختلف مراکز پر رسوخ استعمال کر کے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرنے کے درپے رہتے ہیں اور ان میں کئی اس کوشش میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ چیئرمین نادرا اپنے ادارے کی قباحتوں پر قابو پانے اور بدعنوان عملے کو فارغ کرنے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتے‘ صرف سینٹرز کی تعداد بڑھانے اور نئے فنڈز جاری کروانے پر ہی ساری توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں۔ 2011ء میں نادرا کے رجسٹریشن سینٹرز کی تعداد 300 تھی جو 2014ء میں بڑھ کر 560 ہو گئی‘ اس سال مزید کچھ دفاتر قائم کیے جانے تھے جو تاخیر کی نذر ہو چکے ہیں۔

دیکھا جائے تو موجودہ حکومت بھی نادرا کی طرح پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ میں بھی کوئی اصلاحات لاگو نہیں کر پائی‘ ہاں اتنا ضرور کیاکہ ایمرجنسی پاسپورٹ کا وقت 6 سے کم کر کے4 دن کر دیا گیا‘ نارمل 14 کے بجائے 10 دن اور پاسپورٹ کی مدت 5 سے بڑھا کر 10 سال کر دی گئی ہے‘ اور سابق وزیر داخلہ کی نااہلی کے سبب را میٹریل نہ خریدے جانے کی وجہ سے جو 5 لاکھ پاسپورٹس زیرالتوا تھے‘ اس کا بیگ لاگ موجودہ وزیر داخلہ نے دو ماہ میں کلیئر کیا۔

یہ کیا کارنامہ ہوا؟ اصل مسائل تو جوں کے توں ہیں! وی آئی پی کلچر اتنا پردھان ہو چکا ہے کہ بائیومیٹرک سسٹم کے کیمرے صدر، وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور برہمن سیکرٹریز کے گھروں پر ان کے اہل خانہ کی تصویریں اتارنے کے لیے پہلے بھی جاتے تھے آج بھی جاتے ہیں‘ بلکہ اب تو ایسے وزراء و خاصان کی تعداد اور بھی بڑھ چکی ہے جو اس مغلئی سروس سے مستفید ہو رہے ہیں جب کہ عوام کا یہ حال ہے کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے کے لیے انہیں صبح کی اذان سے لے کر3 بجے تک چار چار دن دفاتر کے باہر قطاریں لگانا پڑتی ہیں پھر بھی جب تک ایجنٹ مافیا سے رابطہ نہ کیا جائے ان کے ریکارڈ کی خامیاں درست نہیں ہو پاتیں۔ عام پاسپورٹ کی سرکاری فیس 3 ہزار، ارجنٹ 5 ہزار، گم ہونے پر 6 ہزار اور مافیا کی فیس 4 ہزار ہے‘ عوام کا خون کشید کر کر کے پاسپورٹ کا ریونیو (علاوہ مافیا کی کمائی) 20 بلین تک پہنچ چکا ہے مگر عوام الناس کی فلاح کے لیے ایک دھیلا بھی صرف نہیں کیا گیا۔

اسی طرح شناختی کارڈ کی جنرل فیس 300 روپے اور ایگزیکٹو ٹوکن ہزار بارہ سو ہے لیکن عملے کے ناروا سلوک کیوجہ سے سائلین ایجنٹوں سے 1500 سے 3500 تک ٹوکن خریدنے پر مجبور ہیں۔ رشوت لے کر جائز کام کرنا تو ایک سماجی اور اخلاقی برائی ہے جو قانون کی گرفت میں نہ بھی آئے تو کسی حد تک قابلِ برداشت ہے لیکن چند روپوں کے لیے ملکی سلامتی کو داؤ پر لگانا ناقابل معافی جرم ہے۔ دستی شناختی کارڈ کے دور میں جعلسازی اور دونمبری کے واقعات آج سے کہیں زیادہ تھے‘ تب ہر چھوٹے سے چھوٹے مجرم کے پاس بھی ایک سے زائد شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہونا عام سی بات تھی۔ 80ء اور 90ء کی دہائیوں میں جتنے جعلی شناخت نامے اور سفرنامے بنائے گئے اتنے پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں بنے۔

ان ہی دو عشروں کے دوران افغانستان میں بھی جعلی پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دھڑا دھڑ بنتے رہے اور پاکستان میں بھی۔ سی این آئی سی کے متعارف ہونے کے بعد جعلسازی کا عمل ہر سطح پر کافی حد تک سست روی کا شکار ہوا ہے جس کیوجہ سے کسی غیر ملکی کا نیا ریکارڈ تخلیق کرنا کسی حد تک مشکل ضرور ہے مگر ناممکن کبھی نہیں رہا‘ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے اجراء کے بعد بھی نادرا نے افغانیوں و دیگر غیرملکیوں کو اب تک دس لاکھ کے قریب قومی شناختی کارڈ جاری کیے ہیں۔ کسی غیرملکی کا شناختی کارڈ بنانے کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں کہ یا تو اس کی جنم پرچی نئی بنوائی جائے اور جعلی نکاح نامے کے ذریعے اسے کسی فرد کی بیوی یا خاوند ظاہر کیا جائے یا پھر اسے کسی خاندان کے افراد میں داخل کر دیا جائے۔

ایسے داخل کیے گئے کیسز کا اکثر اصل خاندان کو بھی علم نہیں ہو پاتا۔ نادرا کا ریکارڈ گواہ ہے کہ اس کے حریص اہلکاروں کی طرف سے ملک بھر کے متعدد خاندانوں کے ریکارڈ ز میں کئی ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کا تعلق ہی پاکستان سے نہیں۔ یہ صورتحال کئی خاندانوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ممکنہ طور پر نادرا حکام کی جانب سے نادرا ریکارڈ میں شامل کیے گئے غیر ملکی افراد دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان افراد کا ڈیٹا جن خاندانوں کے ریکارڈز میں شامل کیا گیا ہے وہ ملکی و غیر ملکی سیکیورٹی اداروں کے عتاب کا نشانہ بھی بن سکتے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ ایک خاتون کا ہے جس نے نادرا کا سرٹیفکیٹ پولیس کو پیش کیا جسکے مطابق ایک نادرا اہلکار نے کچھ نامعلوم اضافی افراد کو شناختی کارڈ جاری کرنے کی غرض سے اس خاتون کے 21 بچے بنا دیے ہیں جن میں متعدد کی تاریخ پیدائش ایک ہی مہینہ اور ایک ہی سال کی ہے اور جاہلانہ دلیری کی انتہا سنئے کہ ان بچوں کے نام کے آخر میں خان یا نیازی لگا ہوا ہے جب کہ وہ عورت کسی اور ذات سے تعلق رکھتی ہے۔ موصوفہ کا دعویٰ ہے کہ اس کی یہ ناجائز اولاد بلاشبہ افغانی النسل ہے۔ بی بی نادرا کا ایک اور کارنامہ ملاحظہ ہو: 23 سالہ نوجوان محمد گلفام نے 2012ء میں شناختی کارڈ بنوایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کی جنس مرد کے بجائے عورت درج کر دی گئی ہے۔

تین سال سے جنس کی تبدیلی کے لیے اسے مختلف حیلوں بہانوں سے ٹرخایا جا رہا ہے جب کہ مرد کا شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان ملازمت سے بھی محروم ہے۔ بوائز کالج والے شناختی کارڈ دیکھ کر اسے گرلز کالج بھجوا دیتے ہیں جب کہ 2013ء کے الیکشن میں اسے زنانہ پولنگ اسٹیشن پر ووٹ ڈالنا پڑا۔ اسی طرح کے ایک اور لطیفے میں نادرا نے ٹنڈوالٰہ یار کے ایک نوجوان کو عورت بنا دیا۔ باکمال لوگ لاجواب سروس کے کیا کہنے کہ سنجرچانگ کے عثمان کا شناختی کارڈ نادرا آفس کے کئی ماہ دھکے کھانے کے بعد بن کر آیا تو اس کی جنس بھی عورت درج تھی‘ یہی نہیں بلکہ والد کے خانہ میں شوہر لکھ کر اس کی بیوی خیری کا نام درج کر دیا یعنی خیری کو عثمان کا شوہر بنا دیا۔

ایسے اور بھی اَن گنت چٹکلے ہیں جن میں کہیں ایک ہی شخص کو ایک ہی نام سے دو شناختی کارڈ جاری کر دیے گئے تو کہیں نوجوان کو بوڑھا اور کہیں بوڑھے کو نوخیز بنا دیا گیا۔ کیا تعجب ہے کہ نادرا اپنی فنی غلطیوں پر معذرت خواہی کے بجائے ایسے افراد کو سالہاسال چکر لگواتا رہتا ہے اور بالآخر معاملات عدالت جا کر ہی نمٹتے ہیں۔ جڑواں بھائی اور جڑواں بہنیں ہونا تو اس ملک میں شناختی عذاب سے کم نہیں‘ اس نوع کے متعدد کیسز ہیں جن میں صرف ایک بھائی یا بہن کو کارڈ جاری کیا گیا جب کہ ان کے ہمزاد کے کارڈ بلاک رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تو ازراہِ ظرافت ہم بذلہ سنجی کی طرف جا نکلے تاہم نادرا کو ان فنونِ لطیفہ سے دامن واگزار کرانے کی معجل ضرورت ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ نادرا نے 900 بدعنوان افراد کی جو فہرست تیار کی ہے ان میں طاقتور بتوں کو بچانے کے لیے خفیہ ایمپائر حرکت میں آ چکی ہے مگر نادرا کے ذمے داران کو اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان بدعنوان ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر کے ان پر نیشنل ایکشن پلان کے تحت غداری کے مقدمات درج کروانے چاہییں اور اپنے اندر مزید کالی بھیڑوں کو تلاش کر کے انہیں قرار واقعی سزا دینی چاہیے کیونکہ اس کرپٹ مافیا نے اب تک جتنے جعلی شناختی کارڈ جاری کیے ہیں ان کے حاملین میں 70 سے 80 فیصد کا تعلق افغانستان سے ہے جو سی این آئی سی کی بدولت پاکستان میں مبینہ طور پر جرائم میں ملوث ہیں۔ افغانیوں کی نقل و حمل بڑے سانحات کا باعث بن رہی ہے جو مختلف کالعدم تنظیموں کے لیے خیبرپختونخوا اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہیں۔

وزارتِ داخلہ کو چاہیے کہ نادرا میں غیرملکی بھرتی سکینڈل کی تحقیقات اپیکس کمیٹیوں سے کروائے‘ معاملہ سنگین اور دہشت گردی کے واقعات سے منسلک ہے‘ غیرملکیوں کی بھرتیوں میں ملوث اراکین پارلیمنٹ کی شناخت پریڈ کر کے ان کے نام سامنے لائے جائیں اور نادرا ملازمین کی ملی بھگت سے جن رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین نے پاکستانی شناختی کارڈ بنوائے ہیں جن کی بنیاد پر انھوں نے بڑی تعداد میں جائیدادیں بھی بنائی ہیں اور کروڑوں کا کاروبار بھی کر رہے ہیں، ان کے خلاف آئی ایس آئی سے تحقیقات کروائی جائیں اور ملک بھر سے جاری کیے گئے جعلی شناختی کارڈز کو فوری منسوخ کر کے ذمے داران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے‘ پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے والے افغانیوں کو گرفتار کر کے افغان حکومت کے حوالے کیا جائے کیونکہ یہ وہ جنات ہیں جن کا فائدہ کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کو تو ہو سکتا ہے پاکستان کو نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔