ڈونلڈ ٹرمپ کی نفرت انگیزی امریکی چپ کیوں

اگرڈونلڈ ٹرمپ جیسامتعصب اورشدت پسند ذہنیت رکھنےوالاامیدوارامریکاکاصدرمنتخب ہوجاتاہےتوامن عالم شدید خطرےسےدوچارہوجائےگا


Editorial December 10, 2015
امریکا کو سمجھنا ہوگا کہ ٹرمپ کے متذکرہ بیان سے نہ صرف مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے بلکہ امریکا مخالف جذبات کو بھی مہمیز ملے گی۔ فوٹو: فائل

قبل از انتخابات خوشنما و دل آویز نعرے اور بیانات ووٹرز کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے اور ووٹ کے حصول کے لیے ایک ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں، بیانات کی سحر انگیزی کو موثر بنانے کے لیے عوام کے دلی جذبات اور نفسیات کو کارفرما رکھا جاتا ہے لیکن امریکا میں صدارتی الیکشن کے لیے ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیانات کے ذریعے انتہاپسندی کے مظاہر اور اپنے خلاف تنقید کے پہاڑ کھڑے کردیے ہیں۔

ان کے انتہاپسندانہ اور نفرت انگیز بیانات کے تناظر میں امریکا میں فہمیدہ حلقے انھیں ''فاترالعقل'' قرار دے رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو امریکا کے مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ ''امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگا دینی چاہیے''۔ امریکا جیسی عالمی طاقت میں صدارتی امیدوار کو تعصب پر مبنی یہ بیان زیب نہیں دیتا، ٹرمپ کے اس بیان پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور امریکا میں اس کی وسیع پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے۔

وائٹ ہاؤس کی طرف سے اس بیان پر تنقید کرتے ہوئے اسے ''غیر امریکی'' قرار دیا گیا ہے، جس کے مطابق یہ بیان امریکی اقدار اور قومی سلامتی کے خلاف اور امریکی قوم کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ ڈیموکریٹس کی ممکنہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اسلام کے خلاف جنگ کا اعلان کرنا یا امریکی مسلمانوں کو برا بھلا کہنا نہ صرف ہماری اقدار کے برعکس ہے بلکہ یہ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھیلنا ہے۔ سینیٹر گراہم نے بھی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صرف بنیاد پرست اسلام کو ہوا دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ماضی میں بھی متنازع بیانات دیتے رہے ہیں جس کے تناظر میں ان کی متعصب ذہنیت اور شدت پسندی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اس سے قبل انھوں نے امریکا کے ہسپانوی باشندوں کے بارے میں کہا تھا کہ ''امریکن ہسپانویوں کو جن کا آبادی رجسٹر میں نام نہیں ہے، امریکا بدر کر کے میکسیکو سے متصل امریکی سرحد پر دیوار اٹھا دینی چاہیے تاکہ یہ لوگ امریکا میں داخل نہ ہوسکیں''۔ اس قدر نفرت انگیز بیانات کے باوجود امریکا کی ری پبلکن پارٹی ایسے شخص کو کیوں برداشت کررہی ہے۔ ٹرمپ کے بیان کی مخالفت کرنے والوں میں ان کی اپنی جماعت کے افراد بشمول سابق صدر ڈک چینی بھی شامل ہیں تاہم یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ امریکا جو عالمی امن کا نام نہاد ہی سہی علمبردار ہے اور شدت پسندی و دہشت گردی کی مخالفت میں مختلف ممالک پر فوج کشی کرچکا ہے۔

اپنے ہی صدارتی امیدوار کے متعصبانہ بیانات کو روکنے کے لیے کوئی کارروائی عمل میں کیوں نہیں لارہا؟ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے نفرت انگیز بیانات امریکی پالیسی کا حصہ ہیں؟ امریکا کو سمجھنا ہوگا کہ ٹرمپ کے متذکرہ بیان سے نہ صرف مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے بلکہ امریکا مخالف جذبات کو بھی مہمیز ملے گی۔

امریکی سیاست کا اثر پوری دنیا پر لامحالہ پڑتا ہے، اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیسا متعصب اور شدت پسند ذہنیت رکھنے والا امیدوار امریکا کا صدر منتخب ہوجاتا ہے تو امن عالم شدید خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔ سوشل میڈیا پر بھی ڈونلڈ ٹرمپ پر امریکا ہی نہیں دنیا بھر سے لوگوں نے تنقید کی ہے جن میں سے کئی نے انھیں ہٹلر سے تشبیہہ دی اور ان پر نفرت پھیلانے اور اکسانے جیسے الزامات لگائے ہیں۔ لوگوں کی مذمت اور مخالفت کا احساس کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے بیان پر معافی مانگتے ہوئے آیندہ ایسے نفرت انگیز بیانات سے گریز کی راہ اپنانی چاہیے۔

مقبول خبریں