پولیس اور عوام کیسے قریب آئیں

محمد سعید آرائیں  جمعـء 12 اگست 2016

محکمہ پولیس میں ایسے متعدد اعلیٰ پولیس افسران گزرے ہیں اور یقینی طور پر اب بھی موجود ہیں جنھیں عوام کی نظروں میں عزت و احترام حاصل تھا اور لوگ ان سے دور نہیں بھاگتے تھے بلکہ ان کے قریب جاتے تھے اور ایسے پولیس افسروں اور عوام کے درمیان اچھے تعلقات تھے اور ایسے افسروں کو جن میں متعدد باعزت طور پر ریٹائر یا تبدیل ہوگئے انھیں اب بھی عزت واحترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

موجودہ آئی جی پولیس سندھ اے ڈی خواجہ ایسے افسروں میں ایک مثال ہیں۔ اے ڈی خواجہ جب ایس پی شکارپور تھے تو ان کے تبادلے پر بطور احتجاج لوگوں نے شہر تین روز بند رکھا تھا مگر یہ بات الگ ہے کہ اے ڈی خواجہ ایس پی کی حیثیت سے جتنے عوام کے قریب اور مقبول تھے بعد میں ڈی آئی جی اور اب آئی جی پولیس کی حیثیت سے عوام سے دور ہیں اور ان سے عوام کا ملنا ناممکن بنادیا گیا ہے۔ کافی عرصہ قبل ٹھٹھہ میں ایک اے ایس پی خادم حسین رند نے سندھ بھر میں مقبولیت حاصل کی تھی اور ان کے تبادلے پر احتجاج اور ہڑتالیں ہوئی تھیں مگر حکومت نے عوام کو نظرانداز کرکے ان کے مخالف ارکان اسمبلی کو اہمیت دی تھی جو حکومت کی سیاسی ضرورت تھی۔ سابق ڈی آئی جی گوجرانوالہ ذوالفقار چیمہ کو کون نہیں جانتا وہ جہاں جہاں رہے اچھی یادیں اور عزت چھوڑ کر آئے اور عوام میں مقبول رہے مگر انھیں بھی مختلف علاقوں میں عوام میں مقبولیت کے باوجود ارکان اسمبلی کی خفگی کے باعث سیاست کی بھینٹ چڑھنا پڑا۔

راقم نے اچھی شہرت کے حامل اور دیانتدار باریش ڈپٹی کمشنر شکارپور محکم الدین قادری سے پوچھا تھا کہ شکایات کے باوجود پولیس میں ایسے اچھے افسر بھی ہیں جن کے تبادلے پر احتجاج ہوا مگرکسی ڈپٹی کمشنر کے تبادلے پر احتجاج نہیں ہوتا تو وہ حیران ہوکر جواب نہ دے سکے تھے مگر ایکسپریس کے کالم نگار اور سابق بیوروکریٹ اوریا مقبول جان نے لکھا ہے کہ جب وہ بلوچستان میں ڈپٹی کمشنر تھے تو ان کے تبادلے پر احتجاج ہوا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت سیاسی مصلحت کے باعث ایسے احتجاج کے آگے نہیں جھکتی اورافسر تبدیل ضرور ہوتا ہے۔

محکمہ پولیس اگر واقعی عوام میں عزت خود کو تبدیل کرنے اور قابل عزت بننے سے ملے گی۔ پی پی کے ایک سابق وزیرعبدالوحید کٹپر کہا کرتے تھے کہ پیسہ اورعزت دونوں میں سے سرکاری عہدے پر رہتے ہوئے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا دونوں کا سرکاری عہدہ پر ملنا ناممکن ہے۔ پولیس پر سب سے بڑا الزام مختلف طریقوں سے لوگوں کو تنگ کرکے رشوت لینے کا ہے جب کہ رشوت کے معاملے میں دیگر سرکاری محکمے پولیس کو بہت پیچھے چھوڑچکے ہیں کیونکہ دیگر محکموں کے مقابلے میں پولیس زیادہ بدنام ہے کیونکہ عوام کا پولیس سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے خواہ وہ ٹریفک پولیس ہی کیوں نہ ہو جو سڑکوں پر بڑی گاڑیوں کو نظرانداز کرکے چھوٹی گاڑی والوں کو زیادہ روکتے ہیں اور غیر ضروری چالان کی دھمکی دے کر رقم بٹورتے ہیں اور نہ دینے پر چالان کردیتے ہیں جس سے بچنے کے لیے رشوت دینا مجبوری بن گئی ہے۔

پولیس تھانوں سے پہلے عوام کا واسطہ کم پڑتا تھا مگر جب سے شناختی کارڈ، پاسپورٹ وغیرہ اگر گم بھی جائیں تو متعلقہ تھانے سے لیٹر لیے بغیر دوسرے نہیں بنتے۔ موبائل فون چھن جائے یا پرس موبائل سم کی وجہ سے پولیس کے پاس اندراج ضروری ہوا ہے تب سے لوگوں کو مجبوراً پولیس کے پاس جانا پڑتا ہے جہاں رشوت کے بغیر جائز کام بھی ناممکن بنادیا گیا ہے۔ اس موقعے پر پولیس کا رویہ نہایت خراب ہوتا ہے اور ہر آنے والے کو پولیس مجرم سمجھ کر سلوک کرتی ہے ،سندھ کے ایک سابق آئی جی پولیس رانا مقبول نے کراچی کے عوام اور پولیس کو قریب لانے کے لیے پولیس کمیونٹی سروس شروع کرائی تھی۔ ہر تھانے کی موبائل پر تھانے کا فون نمبر لکھا ہوا تھا اور پولیس کو عوام کی کسی ضرورت پر مدد کا پابند بنایا گیا تھا جس پر عمل بھی ہوا۔ پولیس کو سختی سے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ چیکنگ کے لیے کسی گاڑی کو روکیں تو پہلے سلام کریں اور خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔

گزشتہ 17 سال سے یہ خوش اخلاقی پولیس سے ختم ہوچکی ہے اور ہر شخص پولیس کو سلام کرنے سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں پولیس غلط نہ سمجھ لے۔ رات کو پولیس چیکنگ اور نہ رکنے پر بے گناہوں کو مار دینے کے جو واقعات بڑھے ہیں۔ راتوں کو بعض پولیس اہلکار شراب پی کر ڈیوٹی کرتے ہیں۔ اب لوگ بھی تپے ہوئے رہتے ہیں اور بہت سے پولیس سے لڑ جاتے ہیں اور پولیس ڈیوٹی اٹکاؤ کے الزام میں ان کے ساتھ وہ سلوک کرتی ہے جس پر انھیں مقدمے بھگتنا پڑتے ہیں اور پھر وہ پولیس کے قریب سے گزرنے سے بھی ڈرتے ہیں تو ایسی صورتحال میں پولیس اور عوام ساتھ ساتھ کیسے ہوسکتے ہیں اور انھیں پولیس کے قریب کیسے لایا جاسکتا ہے۔ یہی بات غور طلب ہے پولیس اہلکار سڑکوں پر آئے دن شہید کردیے جاتے ہیں ظاہر ہے کہ وہ بھی کسی کے باپ، بھائی اور شوہر ہوتے ہیں۔ ان کی جان بھی قیمتی ہوتی ہے جس کی حفاظت عوام نہیں کرسکتے بلکہ عوام کی حفاظت ہی پولیس کا فرض ہے اس لیے دونوں کا ساتھ انتہائی ضروری ہے مگر اصل حقائق اور اس سلسلے میں درمیانی رکاوٹوں کو بھی دیکھا جانا چاہیے تاکہ پولیس اور عوام کے درمیان حائل خلیج ختم ہوسکے۔

اس سلسلے میں اشتہاری مہم کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے جس پر سنجیدگی اور عملی طور پر کچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔ پولیس وردی رعونت کا نشان بن چکی ہے۔ وردی پہن کر پولیس اہلکار معمولی معمولی باتوں پر مشتعل ہوکر شہریوں سے جو سلوک کر جاتے ہیں اس کے مناظر اب ٹی وی چینلز پر آئے دن نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں پولیس کا امیج مسلسل خراب ہو رہا ہے۔ ایسی حرکات روکنے کی فوری ضرورت ہے۔ ڈیوٹی کی زیادتی، معاشی مسائل، بیماریاں اور پولیس کے باہمی معاملات عدم برداشت کا سبب ہیں جس کا غصہ عوام پر اترتا ہے پولیس کا آپس میں لڑ جانا بھی عام ہوتا جا رہا ہے جس میں پولیس کے ہاتھوں پولیس کا جانی نقصان بڑھ رہا ہے اس لیے پولیس کے مسائل پر فوری حل کیے جانے کی ضرورت ہے۔

پولیس افسران اور اہلکاروں کی اصلاح کے لیے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔ پولیس اہلکاروں کو خوش اخلاق بنانے کے لیے ان پر شہریوں کو روکنے کے وقت سلام میں پہل کرنے کو لازمی قرار دیا جائے اور شہریوں سے بداخلاقی کے عادی افسروں اور اہلکاروں کو معطل اور معافی پر بحالی کا سلسلہ شروع کیا جائے اور ان کی اخلاقی تربیت ضروری قرار دی جائے اور دوران تربیت جوانوں کو انسٹرکٹرزکی گالیوں سے بچایا جائے۔ پولیس میں کمیونٹی سروس دوبارہ بحال کرکے پولیس کو شہریوں کی ہنگامی ضرورت پر مدد کا پابند کیا جائے اورجھوٹے مقدمات درج کرنے والے پولیس افسروں اور ہیڈ محرران کو کڑی سزا دی جائے۔ محکمہ پولیس میں مقررہ ڈیوٹی، چھٹیوں کی سہولت، معقول تنخواہ، طبی اور تعلیمی سہولیات فراہم کرکے ہی انھیں عوام کے قریب لایا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔