صرف 5 گھنٹے میں نیویارک سے اسلام آباد پہنچنے والا مسافر بردار طیارہ

ویب ڈیسک  پير 27 مارچ 2017
آواز کی دُگنی رفتار پر سفر کرنے والے مسافر طیارے کو امریکی کمپنی تیار کررہی ہے۔ فوٹو؛ فائل

آواز کی دُگنی رفتار پر سفر کرنے والے مسافر طیارے کو امریکی کمپنی تیار کررہی ہے۔ فوٹو؛ فائل

ڈینور، کولوراڈو: امریکا کی نجی کمپنی ’’بوم ٹیکنالوجی‘‘ نے آواز سے دُگنی رفتار پر سفر کرنے والے مسافر بردار طیارے کا پروٹوٹائپ بنالیا ہے جس نے گزشتہ ہفتے اپنی پہلی آزمائشی پرواز کرلی ہے۔

یہ کمرشل سپرسونک طیارہ آواز کے مقابلے میں 2.2 گنا زیادہ (ماک 2.2) یعنی 2334 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکے گا۔ اس وقت مسافر بردار طیارے میں نیویارک سے اسلام آباد تک پہنچنے میں کم از کم 20 گھنٹے لگتے ہیں لیکن مستقبل کے اس مسافر بردار طیارے میں یہی فاصلہ صرف 4 گھنٹے 45 منٹ میں طے کرلیا جائے گا۔

اس طیارے کے پروٹوٹائپ میں جسے ’’ایکس بی ون‘‘ (XB-1) کا نام دیا گیا ہے، صرف 2 افراد کی گنجائش ہے لیکن بوم ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ اس کا تجارتی ورژن (جو 2023 میں متوقع ہے) جسامت میں اس سے 3 گنا بڑا ہوگا جب کہ اس میں 45 سے 55 مسافر سفر کرسکیں گے۔

دنیا کے پہلے مسافر بردار سپرسونک طیارے ’’کنکارڈ‘‘ (Concord) کو ریٹائر ہوئے آج 10 سال سے زیادہ ہوچکے ہیں اور اس عرصے کے دوران ایسے کئی تجارتی طیاروں کے منصوبے سامنے آچکے ہیں جو نہ صرف کنکارڈ سے زیادہ بڑے ہوں گے بلکہ ان کی رفتار اور مسافروں کی گنجائش بھی کنکارڈ سے کہیں زیادہ ہوگی لیکن اب تک یہ تمام منصوبے تجرباتی یا آزمائشی مراحل ہی پر ہیں۔ ایکس بی ون کا معاملہ بھی ان سے کچھ مختلف نہیں۔

پہلی آزمائشی پرواز سے قبل یہ ہوائی سرنگ (وِنڈ ٹنل) میں 1000 گھنٹے سے زیادہ کی آزمائشیں پوری کرچکا تھا جس کے دوران اس میں فلائٹ کنٹرول اور ایویانکس کو حتمی شکل دی گئی جب کہ اس کا ایئرفریم (ڈھانچہ) بھی تیار کرلیا گیا۔

اس کے تجارتی ڈیزائن میں ماک 2.2 کی زبردست رفتار تک پہنچنے کے لیے جنرل الیکٹرک کمپنی کے تیار کردہ 3 عدد جدید ترین ٹربوفین جیٹ انجن نصب کیے جائیں گے۔ یہ جیٹ انجن آج کل کے نئے تربیتی لڑاکا طیاروں میں نصب کیے جارہے ہیں جنہیں کمرشل طیارے میں نصب کرنے کے لیے ضروری تبدیلیوں سے گزارا جائے گا۔

ایکس بی ون پروٹوٹائپ دیکھنے میں کسی لڑاکا طیارے ہی کی طرح نظر آتا ہے لیکن اس کا حتمی ڈیزائن خاصا بڑا اور مسافر بردار طیارے جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔

امریکی میڈیا اسے ’’مکمل نجی‘‘ منصوبہ ضرور قرار دے رہا ہے لیکن اس میں ناسا، پریٹ اینڈ وٹنی، لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ، نارتھروپ گرومین، اسپیس ایکس اور اسکیلڈ کمپوزٹس جیسے اداروں کے ماہرین بھی شریک ہیں جو کسی نہ کسی صورت امریکا میں ہوابازی کے سرکاری شعبے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔

اس کی تیز رفتاری اور دوسری خوبیاں اپنی جگہ، لیکن یہ کہنا ابھی مشکل ہے کہ یہ بروقت مکمل ہوسکے گا یا نہیں اور یہ کہ اسے ویسی ہی کامیانی حاصل بھی ہوگی کہ جس کی اس سے توقع کی جارہی ہے۔ البتہ ’بوم ٹیکنالوجی‘ کی جاری کردہ خبروں کے مطابق اس طیارے نے اپنی پہلی آزمائشی پرواز پوری کامیابی سے مکمل کی اور وہ تمام اہداف حاصل کیے جنہیں حاصل کرنے کےلیے یہ پرواز کی گئی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔