’’غیرریاستی سیاسی جماعتیں جائز توغیر ریاستی مجاہدوں کی آمد پراعتراض کیوں؟‘‘

فرحان احمد خان  اتوار 25 دسمبر 2016
مجاہد اوّل نے کبھی لفظ ’’غدار‘‘ استعمال نہیں کیا،فوج کی اخلاقی حمایت کو عقیدہ سمجھتا ہوں، سردار عتیق احمد خان۔ فوٹو: ایکسپریس

مجاہد اوّل نے کبھی لفظ ’’غدار‘‘ استعمال نہیں کیا،فوج کی اخلاقی حمایت کو عقیدہ سمجھتا ہوں، سردار عتیق احمد خان۔ فوٹو: ایکسپریس

کشمیر کی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے کچھ کرداروں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔آزادکشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار محمد عبدالقیوم خان کاشمار انہی کرداروں میں ہوتا ہے۔ وہ عمر بھر کشمیر کی آزادی اور اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے سرگرم داعی رہے۔ بہت سے کشمیری حلقوں نے ان کے موقف سے اختلاف کیا اور جواباً انہوں نے بھی پوری قوت سے وار کیے۔وہ مداحوں اور ناقدین کے درمیاں زندگی گزارنے کے بعد گزشتہ برس اس دنیا سے کُوچ کر گئے۔

ان کی زندگی ہی میں آل جموںوکشمیرمسلم کانفرنس کی زمام ان کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان کے ہاتھ میں آئی اوروہ جماعت کے نویں صدر بنے ۔پھر اس چوراسی سالہ تاریخ کی حامل ریاستی جماعت میں بحران شروع ہوا۔تلخی داخلی دھڑے بندی کی صورت ظاہر ہوئی جو بالآخر آزادکشمیر میں مسلم لیگ (نواز) کی شاخ بننے پر منتج ہوئی۔ستم ظریفی دیکھئے جو مسلم کانفرنس اس سے قبل آزادکشمیر میں مسلم لیگ کی ایک طرح سے نمائندہ سمجھی جاتی تھی، اسی کی کوکھ سے مسلم لیگ (نواز) آزادکشمیر نے جنم لیا۔ بہت سے لوگ مسلم کانفرنس کی اس تقسیم کا الزام عتیق خان پر لگاتے ہیں۔

سردار عتیق احمد خان دو مرتبہ آزادکشمیر کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے کے علاوہ ایک بار قائدحزب اختلاف بھی رہ چکے ہیں۔ انہیں کشمیر کے موضوع پر ملکی اور بین الاقوامی فورموں پر بات چیت کا موقع بھی ملتا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں کشمیر بینک ، کشمیر ہائی وے اتھارٹی،کشمیر کلچرل اکیڈمی ، سماجی بہبود ٹرسٹ، کشمیر ٹورازم اتھارٹی، ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ووکیشنل اتھارتی جیسے اہم اداروں کی بنیاد رکھی۔خود کو نظریاتی سیاست کا امین قرار دیتے ہیں۔اُچٹتی نگاہ سے دیکھا جائے توان کے سیاسی کرئیر میں میں دو چیزیں بہت نمایاں نظر آتی ہیں۔ایک تو انکی کشمیر کے ’’ریاستی تشخص‘‘ کے متعلق حساسیت اور دوسرا’’ملٹری ڈیموکریسی‘‘ کا نظریہ۔

عتیق احمد خان کا خیال ہے کہ آزادکشمیر میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کی شاخیں بنانے کی بجائے وہاں خالص علاقائی جماعتوں کوسیاسی عمل میں شریک ہونا چاہئے۔دوسری جانب وہ کشمیر میں غیر ریاستی مسلح تنظیموں کے کردارکومدد قراردیتے ہوئے جائز سمجھتے ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ ملک چلانے کے لیے صرف سیاست دانوں پر انحصار کافی نہیں ہوتا اس لیے وہ ناقدین کی جانب سے  َبھد اڑانے کے باوجود ہر فورم پر اپنے ’ ملٹری ڈیموکریسی‘ کے نظریے کی پرزور وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔

سردار عتیق احمد خان وجیہہ سراپے کے حامل خوش لباس آدمی ہیں۔دھیمے لہجے میں تسلسل کے ساتھ بات کرتے ہیں۔تیکھے سوالات کی زد سے بچ نکلنے کے ہنرسے خوب واقف ہیں۔ایسے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وہ اکثرکہتے ہیں ’’دیکھیں جی اس میں دو باتیں ہیں‘‘ پھر ان دو باتوں کی تشریح کرتے ہوئے سائل کولے کر ضمنی بھول بھلیوں میںاُتر جاتے ہیں یا پھر فوراً پلٹ کرپوچھنے والے کی طرف  ایک سوال اُچھال کر اسے امتحان میں ڈال دیتے ہیں۔ سوال پوچھنے والے کی حاضر دماغی پر منحصر ہے کہ وہ اس اچانک وار کا توڑ کر سکتا ہے یا نہیں۔بہرحال گفتگو کا یہ لمحہ پر لطف ضرور ہوتا ہے۔

سخت سوال کے جواب میں تیوری نہیں چڑھاتے بلکہ ایک معنی خیز سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں ’’اِس کے جواب کی بجائے آپ پہلے اُصولی بات سمجھیں‘‘ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ وہ سامنے والے کو پوری توجہ سے سنتے ہیں اور اسی اطمینان کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔47ء میں کشمیر کے  مہاراجہ کیخلاف مزاحمت کے حوالے سے ان کے مرحوم والدسردار محمد عبدالقیوم خان کو بہت سے لوگ ’مجاہد اول‘کہتے ہیں ۔ عتیق احمد خان بھی اسی لقب کے ساتھ اپنے والد کا ذکر کرتے ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے ان کے خیالات کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں۔

عتیق احمد خان جو کہ اب اپنی عمر کی61ویں بہار دیکھ رہے ہیں ،کے ناقدین کو ان سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ وہ سیاست میں مقتدر قوتوں کے کردارکی حامی ہیں۔وہ اس سے انکار نہیں کرتے بلکہ فوج کی حمایت کو عقیدے کی طرح گردانتے ہیں اور اس بارے میں دلائل دیتے ہیں۔گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ علاقائی اور عالمی سیاست کی باریکیوں پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور اپنی بات کو جا بجا مثالوں سے مبرہن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ان کی تعلیم بین الاقوامی تعلقات میں ہے اور عربی زبان سے اچھی خاصی واقفیت رکھتے ہیں۔

مثبت زوایۂ نگاہ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے نفسیات کی مشہور ’’پانی کے آدھے بھرے ہوئے گلاس ‘‘والی مثال ضرور دیتے ہیں۔ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کو صاحب بصیرت، پراعتماد اور بہادر رہنما قرار دیتے ہیں۔سیاست دانوں کی نااہلیوں سے شاکی نظر آتے ہیں۔کشمیری علیحدگی پسند زعماء میں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے سابق سپریم ہیڈ امان اللہ خان مرحوم کا ادب سے تذکرہ کرتے ہیں۔ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے کے پرجوش وکیل ہوتے ہوئے بھی خودمختار کشمیر کے نظریے کے وجود کی نفی نہیں کرتے۔

سردار عتیق احمد خان ’ملٹری ڈیموکریسی‘ کے نام سے اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہتے ہیں اور وقتاً فوقتاً پاکستان کی سیاسی ومذہبی جماعتوں کے اتحادی پلیٹ فارم’’دفاع پاکستان کونسل ‘‘ کے اسٹیج پر بھی جلوہ گر ہوتے ہیں۔آج کل ان کا نام ابلاغی حلقوں میں سیز فائز لائن کراس کرنے کے اعلان کے بعد کافی گردش میں ہے ۔گزشتہ دنوںسردار عتیق احمدخان لاہور تشریف لائے تو ان سے دو طویل نشستیں ہوئیں۔

مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت سے بات شروع ہوئی، کشمیری سیاست کے ماضی کے اُتار چڑھاؤ ،ان کے ناقدین کے خیالات اور پھر آزادکشمیر کی حالیہ سیاست اور وفاق سے آزادحکومت کی اختیارات کے باب میں شکایات اوران کے اسباب زیر بحث آئے۔ان سے مصافحے کے بعدسب سے پہلے میری نگاہ ان کی واسکٹ پربائیں جانب لگے ہرے رنگ کے بیج پر پڑی جس پر انگریزی ترجمے کے ساتھ اردو میں یہ عبارت درج تھی ’’کشمیر توجہ چاہتا ہے‘‘۔میں نے پہلا سوال اسی سے متعلق پوچھا اور پھر بات بڑھتی چلی گئی۔

’’کشمیر توجہ چاہتا ہے‘‘

جنوبی ایشیا میں نظریاتی سیاست ختم ہو رہی ہے۔بھارت میں بی جے پی اچھی ہے یا بری لیکن اس کا ایک نظریہ ہے ۔اسی طرح پاکستان میں حافظ سعید سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر وہ ایک نظریے پر بہرحال کام کررہے ہیں۔باقی تو’’گنگا گئے تو گنگا رام اور جمنا گئے تو جمناداس‘‘ کی کیفیت ہے۔سیاست اب اقتدار کے گرد گھومتی ہے اور اقتدار میں حلال اور حرام کچھ نہیں ہوتا۔اقتدار کی سیاست آپ کو اپنے گرد گھماتی ہے جبکہ نظریاتی سیاست میں محور نظریہ ہوتا ہے۔ مسلم کانفرنس 1932ء سے اب تک ایک نظریے پر قائم ہے۔تقسیم سے پہلے قائداعظم نے متحدہ ہندوستان میں جہاں جہاں ممکن تھا مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ کیا لیکن ریاست جموں و کشمیر میں (جہاں وہ بہت آسانی سے مسلم لیگ بنا سکتے تھے) مسلم کانفرنس کی موجودگی میں انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔اس کے بعد سردار محمد عبد القیوم خان نے ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہ لگایاجوکہ ساری نظریاتی اور سیاسی بیماریوں کا مداوا ہے۔

اس بیج پر درج عبارت ’’کشمیر توجہ چاہتا ہے‘‘ میں کسی کے حق میں یا خلاف کوئی بات نہیں کی گئی۔یہ معصومانہ جملہ ہے اور اپنی تشریح خود ہے۔ اسے ساری دنیا سمجھ سکتی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والے کسی بھی شخص کو جتنی توجہ کی ضرورت ہے ، اسی قدر توجہ کے کشمیری بھی مستحق ہیں۔ میرے دور حکومت میں سب ملازمین سرکاری اوقات میں یہ بیج لگاتے تھے ۔اس کادنیا کی بے شمار زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ جب میں چین کے وزیراعظم کو ملنے گیا تھا تو اس وقت بھی میں نے چینی زبان میں لکھا ہوا یہ بیج لگایا ہوا تھا۔

’’مشرف کشمیریوں کو بچانا چاہتے ہیں‘‘

پہلی بات یہ ہے کہ پرویز مشرف نے کوئی باضابطہ فارمولا نہیں دیا۔ مشرف کو اللہ تعالیٰ نے قیادت کی صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔وہ صاحب بصیرت اورویژن والے آدمی ہیں ، ہمیشہ آگے دیکھتے ہیں ۔ تیسرا یہ کہ وہ بے خوف آدمی ہیں ۔ان میں سیاست دانوں کی طرح ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کے چھوٹا ہونے کااحساس کمتری نہیں ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ کی بنیادی قراردادوں پر سمجھوتا کیے بغیر متبادل راستے بھی تلاش کرنے کی کوشش کی جسے ’آؤٹ آف باکس سیٹلمنٹ‘ کہتے ہیں۔ان کی تین چار تجاویز تھیں جن میں کشمیر کی جغرافیائی اکائیوں کی تعریف و تحدیدِنو، خطے سے افواج کا انخلاء،انٹرا کشمیر ٹریڈ اینڈ ٹریول یعنی کشمیر کی اکائیوں (لداخ ، جموں ، سری نگر، گلگت بلتستان اور مظفرآباد)کے درمیان سفر اور تجارت کی بحالی اورمقامی حکومتوں کا قیام شامل تھا۔

آخری بات یہ تھی کہ اس سارے مذاکراتی عمل میں کشمیریوں کو شریک کیا جائے۔ان سب باتوں پر بھلا کسی کشمیری کو کیااعتراض ہو سکتا ہے؟ کشمیر کا مسئلہ یا تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہوسکتا ہے یا پھربنیادی قراردادوں کو چھیڑے بغیر نئے امکانات کی تلاش کے ذریعے ،جو ان میں سے کوئی حل نہیں چاہتے تو کیا وہ کشمیریوں کو ہندوستان کے رحم وکرم پر چھوڑتاچاہتے ہیں جبکہ مشرف کشمیریوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک بیک ڈور سفارت کاری کی بات ہے تو پاکستانی فوج موجودہ حالات میں بھی دنیا کے بے شمار ممالک میں ڈائیلاگ کا حصہ ہے۔اس وقت جبکہ بارڈر پر فائرنگ ہورہی ہے ایک اعلیٰ سطح کا ٹریک ٹو جاری ہے۔ان میٹنگز میں ہمارے تھری اسٹار اور فور اسٹار ریٹائر جنرل ،دانشور اور اسی سطح کے ہندوستان کے نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ سالہا سال سے پالیسی سازی میں کئی حاضر سروس لوگوں سے زیادہ مؤثر کام کر رہے ہیں۔

’’سیاست دانوں نے بہت سی غلطیاں کیں‘‘

آپ نے کہا تھا ’خارجہ پالیسی کو صرف سیاست دانوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘؟میں اب بھی یہی کہتا ہوں۔سیاست دانوں کو اہلیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔پرویز مشرف نے وردی پہن کر آگرہ میں کھڑے ہو کر کہا کہ آپ آزاد کشمیر کے جہادی کیمپوں پر سوال اٹھانے سے پہلے براہمداغ بگٹی کے بارے میں بتائیں جبکہ میاں نواز شریف اقوام متحدہ میں بھی کلبوشن یادیو کا ذکر نہیں کر سکے۔ خوف سے اُن کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔کلبوشن یادیو نے کھاتے پیتے چسکیاں لگاتے ہوئے ویڈیو بیانات ریکارڈ کروائے ہیں اوردرجنوں مولویوں، تاجروں، صحافیوں، سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے نام پتے اور اپنے فون میں موجود ان کے رابطہ نمبر افشاء کیے ہیں۔اس سب کے بعد بھی یہ کہنا کہ ہمارے پاس کافی ثبوت نہیں ہیں تو پھر سیاست دانوں کے بارے میں کیا رائے رکھی جائے۔ہاں بعض سیاست دانوں کے کردارکی نفی نہیں کی جاسکتی۔

قائداعظم سیاست دان تھے فوجی جرنیل نہیں تھے، ان کے کام کا فوج اور سیاست دان سبھی اعتراف کرتے ہیںلیکن بعد کے سیاست دانوں نے پے در پے نالائقیاں کیں۔مثال کے طور پر شملہ معاہدے سے پہلے مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہر عام آدمی جانتا تھا کہ یہ عالمی مسئلہ ہے، سیاست دانوں نے شملہ معاہدے میں اسے دو طرفہ سرحدی مسئلہ بنا دیا اوراس دوطرفہ مسئلے میں کسی تیسرے طاقتور کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔برطانیہ کے بغیر آپ کو آزادی نہیں ملتی ۔ورلڈ بینک کے بغیر سندھ طاس معائدہ نہیں ہوتا۔آپ کھیم کرن کا تنازع خود حل نہیں کر سکتے ۔آپ کو ہر قدم پر تیسرا فریق چاہئے تو کشمیر جیسے معاملے کو آپ نے دوطرفہ معاملہ بنا کر اس کا بیڑا غرق کردیا۔اس لیے غور کیا جاناچاہیے کہ قوم کو اس جمہوریت سے مل کیا رہا ہے؟

 ’’ہم مسئلہ کشمیر کو آزادی ہند کے منصوبے کا حصہ سمجھتے ہیں‘‘

آپ نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں کشمیر کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔کیا پس منظر ہے؟ دیکھیں اس کے شواہد موجود ہیں ۔شملہ معاہدہ تقسیم کشمیر کی طرف پہلی پیش رفت تھی۔مسلم کانفرنس کشمیر کو آزادی ہند کے منصوبے کا حصہ سمجھتی ہے۔اس میں ہمیں یہی حق ملا کہ جو لوگ چاہتے ہیں ہندوستان کے ساتھ چلے جائیں انہیں اختیار ہے اور جو پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں وہ اُدھر چلے جائیں۔ یہ مذاکرات کی میز پر طے ہوا ہے۔ اس کے بعد اعتراض کا کیا سوال ہے ۔ تقسیم برصغیرکے اس منصوبے سے ایک ارب لوگوں نے استفادہ کیا۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے کشمیر کے ایک سے ڈیڑھ کروڑ لوگ رہ گئے ہیں انہیں بھی اس میں حصہ ملنا چاہئے۔

مسلم کانفرنس نے قیام پاکستان سے تین چار ہفتے پہلے غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کے گھر میں چوہدری حمید اللہ خان کی صدارت میں قرارداد الحاق پاکستان منظور کی ۔اس وقت ریاست کی ساری کی ساری انتخابی نشستیں مسلم کانفرنس کے پاس تھیں۔گویا مسلم کانفرنس اس وقت ’ون آف دی پارٹیز‘ نہیں تھی بلکہ ’دی پارٹی آف اسٹیٹ آف جموں وکشمیر‘ تھی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم شروع ہی سے مسئلہ کشمیر کو آزادی ہند کے منصوبے کا حصہ سمجھتے ہیں۔

’’کشمیر پر حملہ کرنے والے قبائلیوں کا ایک حصہ سپانسرڈ تھا‘‘

قبائلی مزاحمت کا سب سے پہلے ذکر امریکا کی سابق وزیر خارجہ ایل برائٹ کے والد جوزف کاربل نے اپنی کتاب ’’ڈینجر اِن کشمیر‘‘ میںکیا ہے۔اس نے لکھا کہ ’کشمیر کی مسلح تحریک کا آغاز 23 سالہ زمیندار نوجوان سردار محمدعبدالقیوم خان نے نیلا بٹ سے 23اگست کو کیا‘دوسری بات یہ کہ اس وقت کشمیر کے اندر گاندربل میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ قبائلی پٹھانوں کی آبادی موجود ہے۔ آزادکشمیر میںسدوزئی قبیلہ بھی بنیادی طور پر پٹھان ہیں۔ان پٹھان کشمیریوں کے قبائلی عزیز واقارب نے ان کی مدد کرنا چاہی توخان عبدالقیوم خان نے سہولت کاری کی۔

کچھ قبائلی بعد میں گئے جن کی وجہ سے کئی طرح کے اعتراضات پیدا ہوئے،وہ سپانسرڈ (کرائے کے)قبائلی تھے ۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ تین جون کا منصوبہ آنے سے پہلے کچھ لوگ جاکر مہاتما گاندھی کو ملتے تھے ۔پھر مہاتما گاندھی بھی مری اور مظفرآباد سے ہوتے ہوئے سری نگر میں مہاراجہ کو ملے ،ان ملنے والوں میں کانگریس کے صدر،سرحد سے خان عبدالولی خان بھی شامل تھے۔عتیق خان کا خیال ہے کہ قبائلیوں کے اس مخصوص جتھے کا پس منظر ان ملاقاتوں میں تلاش کیا جانا چاہئے۔ ان کے بقول آج 70سال بعد لوگوں کو قبائلی یاد آگئے ، انہیں جموں وکشمیر کے مسلمانوں کا قتل عام اورانسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی ۔

’’اکائیوں کے داخلی تضادات کے باوجود مسئلہ کشمیر کے حل پر اتفاق ممکن ہے‘‘

آپ جب کسی ایک مرکزی تشخص سے تحت نہیںآتے ہیں تو مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔آج یورپین یونین داخلی تضادات کے باجودوجود میں آرہی ہے ۔میں سمجھتا ہوں ان تضادات کی موجودگی میں بھی کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے اتفاق ممکن ہے ۔قومی وحدت ایک جسم کی طرح ہے ۔جسم کے کسی حصے میں کینسر آجائے تو سارے جسم کو داؤ پر نہیں لگاتے بلکہ متاثرہ حصے کو ٹرانسپلانٹ کرتے ہیں۔اندرونی کمزوریوں کی بنیاد پر آپ وحدت کا امکان نہ ہونے کی بات نہیں کر سکتے۔

’’معائدہ کراچی کشمیریوں کو تسلیم کیے جانے کا ثبوت ہے‘‘

معاہدہ کراچی تاریخ پر دھبہ نہیں بلکہ ایک معرکہ ہے۔پرویز مشرف بڑی خوبصورت بات کہتے رہتے ہیںکہ آپ کو گلاس آدھا خالی دکھائی دیتا ہے حالانکہ وہ نصف بھرا ہوا بھی ہے۔ معاہدہ کراچی کا مطلب یہ ہے کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان میں انتظام وانصرام سنبھالنا چاہتی تھی اور اس نے اس مقصد کے لیے آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے صدر سے رابطہ کیا ۔اس رابطے اور دستخط کی ضرورت اس لیے پڑی کہ حکومت پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ذہن میں رکھ کر یہ اقدام اٹھا رہی تھی یعنی اگر اُس پار کچھ کرنا ہے تو نیشنل کانفرنس ذہن میں رکھی جائے اور اِس پار مسلم کانفرنس۔وہ ’’آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر‘‘ تھی اور ہے۔اسی وجہ سے حکومت پاکستان کو چوہدری غلام عباس سے رجوع کرنا پڑا۔ معائدہ کراچی اس بات کی تصدیق ہے کہ کشمیریوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔

’’کیا آزاد کشمیر کی حکومت واقعی آزاد ہے؟‘‘

کشمیریوں کو ووٹ کا حق ستر کی دہائی میں ملا۔71ء سے 75ء کے درمیان آزادکشمیر میں آئینی اصلاحات ایسے وقت میں ہوئیں جب وفاق میں بھٹوجیسا لیڈر سوشلزم نافذ کر رہا تھا۔اس وقت آزادکشمیر میں قاضیوں اور مفتیوں کا نظام نافذ کیا گیا۔وہاںکا لباس اورزبان ٹھیک کی گئی،آئین سازی کی گئی۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہم آزاد تھے اور ہیں۔نئی گاڑی پر نااہل ڈرائیور بیٹھ کر اگر جاپانیوں کو گالی دے تو یہ گاڑی کا قصور ہر گزنہیں۔میں نے کبھی اپنے اختیارات پر سمجھوتا نہیں کیا۔مقامی سیاست دانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’دراصل لوگ نالائق ہیں ،انہوں نے اپنی عزت پر سمجھوتا کیا ہوا ہے۔

’’قومی زندگی میں ہر چیز آپ کی مرضی سے نہیں ہو سکتی‘‘

آزادکشمیر حکومت کے محدود ترین اختیارات سے متعلق سوال کے جواب میں کہا ،دیکھیے یہاں بہت سے امور اصلاح طلب ہیں۔قومی زندگی میں ہر چیز آپ کی اور میری مرضی سے نہیں ہو سکتی لیکن چیزوں میں اصلاح ممکن ہوتی ہے۔میں جب ملٹری ڈیموکریسی کی بات کرتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ جمہوریت کی بے ادبی ہوگئی ہے۔تاریخ دیکھیے یحییٰ خان بہت بدنام ہے لیکن اس نے آپ کو ایکٹ 74ء دیا۔ آزادکشمیر کے شفاف ترین انتخابات بھی ایک فوجی جرنیل نے کروائے۔بہت بڑے جمہوریت پسند بھٹو آئے توشملہ معائدے کے ذریعے تقسیم کشمیر کی بنیاد رکھ گئے، انہوں نے سیز فائر سے ایل او سی کیا اوراب یہ انٹرنیشنل بارڈر کی طرف جا رہے ہیں۔

کشمیر کونسل شملہ معائدے کی کوکھ سے نکلی ہے۔شملہ 71ء میں ہوا اور پھر74ء میں یہ ایکٹ پاس ہو گیا۔جو اختیارات ایک فوجی جرنیل نے کشمیریوں کوایکٹ 70ء میں دیے تھے پاکستان کے بہت بڑے ڈیموکریٹ سمجھے جانے والے بھٹو نے انہیں محدود کر دیا۔کشمیر کونسل پر پہلی زد 74ء میں پڑی لیکن پھر بھی وہ قابل قبول تھی ۔دوسری زد پڑی جب سردار عبدالقیوم خان جیل میں تھے اور سردار ابراہیم خان ،کے۔ ایچ خورشید اورچوہدری نور حسین سمیت ساری کشمیری قیادت مرکزی حکومت کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی۔اس لیے ایکٹ 74ء کے باب میں سردار عبدالقیوم خان کو دوش دینا درست نہیں۔اس کے بعد جنرل محمد حیات خان نے ایک انتظامی حکم کے ذریعے آزادحکومت کے بچے کھچے اختیارات بھی سرنڈر کر دیے۔

’’بنیادی نوعیت کے سمجھوتے کیے بغیر پاکستان کی مجبوریوں کا لحاظ کرنا چاہئے‘‘

ایکٹ 74ء مان لینا درست تھا یا غلط؟میرے خیال میں ہمیں بہت بنیادی نوعیت کے سمجھوتے کیے بغیر کبھی کبھار پاکستان کی حکومتوں کی مجبوریوں میں ان کی مدد کرنی ہوتی ہے۔ان مذکورہ افراد کی شمولیت سے تشکیل پانے والے ایکٹ 74ء میں کوئی زیادہ قابل اعتراض مواد نہیں ملے گا لیکن جب یہ سارے پیپلز پارٹی کے سامنے سرنڈر کر گئے تو پھر اس کے بعد اس میں تبدیلی ہوئی جس میں کافی حد تک اصلاح کی گنجائش ہے۔

’’یہ کشمیری قیادت کا امتحان ہے کہ وہ سی پیک سے فائدہ اٹھائے‘‘

چین کی آپ کے پڑوس میں موجودگی کئی اعتبار سے اہم ہے ۔کشمیر چاروں طرف سے ایٹمی طاقتوں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ افغانستان بھی ’پراکسی نیوکلیئر ملک‘ ہے کیونکہ وہاں ہونے والی جنگوں کی پشت پر ایٹمی طاقتیں ہیں۔شمالی سمندر کے اپنے مسائل ہیں ،جاپان ، چین اور کوریا کے درمیان تناؤ پیدا ہورہا ہے، گوادر کے بھی کئی مسائل ہیں۔اس لیے سی پیک کے اثرات سارے خطے پر پڑیں گے۔میں سمجھتا ہوں سی پیک کا تعلق معیشت ،دفاع اور خطے کے توازن کے ساتھ ہے۔کشمیر اس اقتصادی راہداری کے بڑے مستفیدین میں سے ہے۔میرا ماننا ہے کہ سی پیک کے منصوبے میں کشمیری موجود ہیں ۔اب یہ کشمیری قیادت کا کام ہے کہ کیسے وہ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

’’غیرریاستی سیاسی پارٹیاںجائز توغیر ریاستی مجاہدوں کی آمد پراعتراض کیوں؟‘‘

غیر ریاستی عناصر کی بات تومسلم کانفرنس روز اول سے کر رہی ہے لیکن اگر غیر ریاستی سیاسی پارٹیاں کشمیر کے تشخص کو پامال کر کے تحریک آزادی کو کمزور کرنے کے لیے آئیں اور دوسری طرف کوئی مجھ سے حافظ سعید یا صلاح الدین کی کشمیر میں سرگرمیوں کے بارے میں سوال کرے تو بات نہیں بنتی۔آزادکشمیر میں غیرریاستی سیاسی دخل اندازی کے ذریعے قائداعظم کی کشمیر پالیسی کی بیخ کنی کر دی گئی ۔کشمیری قیادت پر اعتماد نہیں کیا گیا۔جب دونوں جانب پاکستان اور بھارت کے فارن آفس موجود ہیں تو کشمیر میں اپنی پارٹیاں بنانے کی ضرورت کیا ہے۔مدد کے لیے کوئی قاعدہ کلیہ نہیں دیکھا جاتا۔ زلزلہ ہوا تو پاکستان کے باشندوں نے بغیر کسی قاعدے کے کھلے دل سے کشمیریوں کی مدد کی۔ کشمیریوں کا پاکستانیوں کے ساتھ فطری ، جغرافیائی اور معاشی تعلق ہے۔

’’مہاجرین جموں کشمیر کے رائے دہی کے حق پر کوئی بھی سمجھوتا زہر قاتل ہے‘‘

مہاجرین جموں وکشمیر مقیم پاکستان کی مختص نشستوں کے بارے میں اصلاحات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟میری دلچسپی اس بات سے ہے آیا کشمیریوں کو ووٹ کا حق ہے یا نہیں۔آپ اگر گلگت کو صوبہ بنائیں گے تو دس لاکھ کشمیریوں کے کشمیر میں حق رائے دہی کو ختم کر دیں گے۔آپ پاکستان کے اندر سے کشمیر کے بیس لاکھ ووٹ ختم کرنا چاہتے ہیں۔مودی چھ لاکھ خاندانوں کوسری نگر میں آباد کرکے 30 لاکھ افراد کا سری نگر میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔عارضی طور پر الیکشن میں ہارنے جیتنے سے کشمیر کی تقدیر کو نہیں جوڑا جا سکتا(مسلم کانفرنس کی رواں برس انتخابات میں شکست کی جانب اشارہ)آپ کو مستقل بنیادوں پر سوچنا ہو گا۔ میرے نزدیک مہاجرین جموں وکشمیر کے رائے دہی کے حق پر کوئی بھی سمجھوتا زہر قاتل ہے۔

’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ، کیا یہ قائداعظم کا قول ہے؟‘‘

قائداعظم کے اس قول کے ثبوت کا تعلق تحقیق کے ساتھ ہے۔قائداعظم جب کوئٹہ کے قریب زیارت میں اپنی علالت کے دنوں میں مقیم تھے تو اس وقت یہ بات انہوں نے کئی بار ذکر کی۔جب پاکستان کی کابینہ بنی تو قائداعظم نے انہیں پوری آزادی دی لیکن ایک شرط لگائی کہ کشمیر پر ہر قرارداد حتمی منظوری سے پہلے میں خوددیکھوں گا۔اس کی کوئی نہ کوئی تو اہمیت ہے۔(عتیق احمد خان نے راقم کو ایک دستاویزی ثبوت بھی بھیجنے کا کہا جو ابھی موصول ہونا باقی ہے)

’’سیز فائر لائن توڑنے کی تاریخ میں توسیع یوٹرن نہیں بلکہ حکمت عملی ہے‘‘

ہم نے سوشل میڈیا پرکشمیریوں کے لیے ایک وضاحتی بیان جاری کردیا تھا۔سیز فائر لائن کراس کرنے کے لیے ہمارا بنیادی ہدف تھا کہ ہم زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کریں۔سید علی گیلانی، میر واعظ، یاسین ملک اور آسیہ اندرابی کی تائید توآ گئی۔یہاں سے متحدہ جہاد کونسل ،پی ایس سی، پیپلز پارٹی اور جے کے ایل ایف کی حمایت بھی آ گئی۔ابھی ہم اس حمایت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

’’سردار عبدالقیوم خان نے کبھی لفظ ’’غدار‘‘ استعمال نہیں کیا‘‘

میں نے چھوٹ کر پوچھا کہ نوے کے اوائل میں آپ کے والد سیز فائر لائن توڑنے کی بات کرنے والوں کو غدار کہتے تھے جس کا ثبوت اس وقت کے اخبارات میں شائع ہونے والے ان کے تند وتیز بیانات ہیں تو کہا سردار محمد عبدالقیوم خان نے ساری زندگی کسی کے لیے لفظ ’’غدار‘‘ استعمال نہیں کیا ۔ماضی قریب میں دو دفعہ سیر فائر لائن توڑی گئی۔ نوے میں این ایس ایف نے اورپھر بیانوے میں امان اللہ خان نے۔سیز فائر لائن کراس کرنے اور لاء اینڈ آرڈر میں خلل ڈالنے میں فرق کرنا چاہئے۔

اس واقعے کے دوران مظفرآباد میں عزیز ہوٹل کے سامنے قائداعظم کی تصویر اور پاکستان کا پرچم جلایا گیا تھا جس کے بعد سخت بیانات سامنے آئے تھے۔یہ حقیقت اپنی جگہ کہ میں امان اللہ خان مرحوم کا میں دل سے احترام کرتا ہوں ۔وہ کشمیر کی آزادی کے لیے مشنری جذبے کے ساتھ کاربند رہے۔ امان صاحب کہتے تھے کہ یہ لوگوں کا جمہوری حق ہے کہ وہ خودمختار رہتے ہیں یا الحاق کرتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ریاست جموں وکشمیر میں دو ہی نظریات نے باقی رہنا ہے ایک کشمیر بنے گا پاکستان اور دوسرا کشمیر بنے گا خود مختار۔کوئی تیسرا نظریہ نہیں ٹھہر سکے گا۔

’’جو کام اپنی قیادت سے میٹنگ کے ذریعے ہو سکتا ہے فاروق حیدر اس کے لیے مہم چلا رہے ہیں‘‘

آزادکشمیر کی داخلی سیاست سے متعلق سوال کے جواب میں کہا فاروق حیدر ’’مجاہد منزل‘‘ تشریف لائے یہ ان کے بڑے پن اور ذمہ داری کا مظاہرہ ہے۔ویسے بھی وہ میرا نہیں بلکہ ’مجاہد اول‘ کا گھر ہے ۔میں توصرف وہاں چوکیداری کرتا ہوں۔ان کی آمد پر ان کا شکر گزار ہوں ۔جہاں تک ان کاصوبائی حکومتوں سے فاروق حیدرکی رابطہ مہم کا تعلق ہے تو میں صرف یہ کہتا ہوں کہ وہ اس وقت ایک پارٹی کے ڈسپلن کا حصہ ہیں۔

یہ کام وہ پارٹی کی قیادت سے میٹنگ میں حل کر سکتے ہیں۔جس کام کی منظوری ان ہی کی پارٹی کے وزیراعظم نواز شریف نے دینی ہی اس کے لیے وہ مراد علی شاہ اور پرویز خٹک سے مل رہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ کس کے خلاف حمایت حاصل کر رہے ہیں۔ پیسے مرکز نے دینے ہیں لیکن کشمیر کونسل سارے کے سارے پیسے الیکشن میں کھا گئی ہے بلکہ ایڈوانس کا پیسہ بھی کھا گئے۔

’’نواز شریف کی جلا وطنی کے دور میں بیگم کلثوم کا مظفرآباد میں بھرپوراستقبال کیا‘‘

جب مسلم لیگ نواز مشکل میں تھی تو ہم نے اس کا ساتھ  دیا۔نواز شریف جلا وطن تھے تو بیگم کلثوم نواز آزادکشمیر آئیں،ان کے ساتھ پورے پاکستان سے صرف تین آدمی گئے، اس وقت ہمارے انتخابات سر پر تھے لیکن ہم نے انہیں دوسو گاڑیوں کے  جلوس میں کوہالہ میں استقبال کر کے وصول کیا۔پھر پرویز مشرف ملک سے جانے لگے تو انہوں نے ایک تقریر میں کہا کہ پاکستان کا خدا حافظ، اب میں جا رہا ہوں۔ میں نے آرمی ہاؤ س کے ویزٹنگ رجسٹر پر طویل نوٹ لکھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے سیاست کا موقع دیا کہ اس لیے آپ کو واپس آ کر پاکستان میںسیاست کرنی چاہیے۔ جب بھی وہ رجسٹر چھپے گا تو سب کو پتہ چل جائے گا۔بعد میں ان سے میں نے خود بھی کہا اور شاہد ملک کے ذریعے بھی ایک دو بار کہلایاآپ پاکستان میں ہر آدمی کا نام کے کر بات نہ کیا کریں۔

یہ بات میں نے میاں صاحب سے بھی کہی۔جلا وطنی کے دنوں میں ان سے ملنے گیا تو وہاں شاہی قسم کا کھانا چنا جا رہا تھا۔میں نے کہا میں صرف آپ سے ملنے آیا ہوں ۔دوران گفتگووہ جرنیلوں پر تنقید کرنے لگے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ان کا ذہن شاید کسی پاکستان دشمن نے خراب کیا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مشرف الیکشن کی تیاری کر رہے تھے۔ میاں صاحب نے کہا الیکشن نہیں ہو سکے گا، لوگ بائیکاٹ کر جائینگے۔میں نے کہا یہ درست ہے کہ لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں لیکن ایسا ہر گزنہیں کہ لوگ ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ذاتی حیثیت میں نواز شریف بہت مہذب اور شریف الطبع روایتی آدمی ہیں۔

’’اب دنیا میں ایجنسیوں کی بنائی ہوئی حکومتیں چلیں گی‘‘

ایک زمانے میں مقتدر قوتوں کے نزدیک آپ کے مقابلے میں شاہ غلام قادر(موجودہ اسپیکر آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی) پسندیدہ کیوں تھے؟اس سوال کے جواب کوایک طرف رکھ کر ایک اُصولی بات سمجھیں۔یہ بات یاد رکھیں کہ اس وقت دنیا میں جنوئین اوراپنی رائے رکھنے والی قیادت مشکل سے ہی سروائیو کر سکتی ہے۔اب ساری دنیا میں ایجنسیوں کی بنائی ہوئی حکومتیں چلیں گی ۔امریکا کا حالیہ الیکشن دیکھ لیں۔بیس لاکھ ووٹ ہیلری زیادہ لیتی ہے لیکن منتخب ٹرمپ ہوتا ہے۔’مجاہد اول‘ نے نوے کی دہائی میں جنگ کے ادارتی صفحے پرایک مضمون میں لکھا کہ جیتے کا کوئی اورفتح کسی اور کی ہو گی۔کسی صاحب الرائے آدمی کا سیاست میں سروائیو کرنا بہت مشکل کام ہے ۔اگر میں نے سمجھوتا کرنا ہوتا تو آج نواز شریف سے سمجھوتا کر سکتا تھا۔

’’میں فوج کی اخلاقی حمایت کو عقیدہ سمجھتا ہوں‘‘

میں آؤٹ آف کنوکشن اور پورے عقیدے کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری فوج کو مضبوط اور طاقتور ہونا چاہیے اور اسے اخلاقی حمایت ملنی چاہئے۔ایجنسیوں کا کردار اب پوری دنیا میں بڑھ جائے گا۔امریکا میں عموماً صدر بننے سے پہلے دو سال تک فوج میں کام کرنا پڑتا ہے جبکہ ہمارے ہاں جس کو غلیل پکڑنی نہیں آتی وہ ایشین ٹائیگر بننے نکل پڑتا ہے۔فوج کے ادارے کو دنیا میں سب نظریوں کے لوگ سپورٹ کرتے ہیں۔یہ واحد ملک ہے جس کے بد بخت سیاست دان اور دیگر چند عناصر فوج کے خلاف بات کرتے ہیں۔

آزادکشمیر کے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے پنڈی اور مری جا کر ملاقاتیں نہیں کیں؟ٹائم مانگتے تھے اور پھر بلائے جاتے تھے۔ جب آپ مری یا پنڈی وقت لے کر چلے جاتے ہیں تو پھر آپ کا اختیارات سے متعلق کوئی شکوہ کرنامناسب نہیں۔ اس سب کے باوجود آپ میرا پورے پانچ سال کا ریکارڈ نکالیں ،میں ایک دو بار ان کی دعوت کے علاوہ وہاں کبھی نہیں گیا ۔ میں دل سے فوج کا حمایتی ہوں لیکن آپ میری وہاں ملاقاتیں دیکھ لیں کہ کتنی ہیں۔آپ اپنی عزت نفس خود نہیں بچاتے تو پھر کسی دوسرے سے شکوہ کیسا۔

’’فوج پڑھے لکھے لوگوں کا ادارہ ہے اور سیاست دان ان پڑھ لوگوں کا ادارہ ہے‘‘

عتیق خان نے کہا فوج پڑھے لکھے لوگوں کا ادارہ ہے اور سیاست دان ان پڑھ لوگوں کا ادارہ ہے ۔اس جملے پر میں نے حیرت کا اظہار کیا تو انہوں نے تاکید سے کہا کہ ’فوج ہی پڑھی لکھی ہے باقی اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے‘ ،ایک سو سال پہلے جنرل مٹگمری کے زمانے میں جو فوجی صبح چار بجے اٹھتا تھا وہ آج بھی چار بجے اٹھتا ہے ۔سیاست دانوں کا معاملہ البتہ دوسرا ہے ۔ قائداعظم کسی میٹنگ میں تاخیر سے پہنچے تو نہرو نے کہا جناح ! آپ چند منٹ تاخیر سے آئے ہو۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور گاندھی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔

قائداعظم نے گھڑی دیکھی اور کہا کہ آپ اپنی گھڑی ٹھیک کر لیجیے ،جناح لیٹ نہیں ہوتا۔ایک وہ لیڈر تھا اور اب حالت یہ ہے کہ صبح آٹھ بجے وقت دیا جائے تو لوگ رات آٹھ بجے پہنچتے ہیں اورپھر کہتے ہیں کہ فوج کچھ نہیں کرتی حالانکہ آپ ساری قوم کو ٹرک کی بتی کی پیچھے لگاتے ہیں۔ میرا تھوڑا بہت فوجی اداروں میں آنا جانا بھی ہے۔نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بھی جاتا رہتاہوں اور یہ اعزاز کی بات ہے ۔ایک مرتبہ میں سٹاف کالج کوئٹہ گیا۔وہاں دوسو نوجوان میجرز کے ساتھ یادگار بات چیت ہوئی۔ان کی گفتگو اور سوالات کا معیار دیکھ کر ان کی قابلیت کا اندازہ ہوا۔ سیاست دانوں میں سوائے چند ایک کے کوئی بھی پڑھنے لکھنے کا رجحان نہیں رکھتا۔

’’میاں صاحب! نے کہا جو فوج کو قریب دیکھنا چاہتاہے مجھ سے دور ہو جائے‘‘

آزادکشمیر کی سیاست پر زیادہ تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ۔ میں چاہتا ہوں فاروق حیدر تھوڑا وقت ملنا چاہئے ۔ انہوں نے بڑی مشکل سے حکومت حاصل کی ہے لیکن آپ کے سوال کے جواب میں کہتا ہوں کہ یہ کوئی علیحدگی پسندی یا مرکز نوازی نہیں ہے ۔ فاروق حیدر محفلوں میں فوج کے خلاف کھل کر گفتگو کرتے تھے ۔اس واحد قابلیت کی بنیاد پرمیاں صاحب نے ان کو وزیر اعظم بنایا۔میاں صاحب جب چکار گئے تو میں نے اپنی جماعت کے ملک نواز، دیوان چغتائی سمیت پانچ چھ لوگوں کو ان کے پاس بھیجا تو میاں صاحب نے کہا کہ دیکھو! آپ سب میرے عزیز ہو لیکن آپ میں سے جو فوج کے قریب ہے یا خود کو ان قریب دیکھنا چاہتا ہے وہ مجھ سے دور ہو جائے۔

سقراط سے کسی نے عالم اور جاہل کا فرق پوچھا تو اس نے کہا کہ جو ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرے وہ عالم ہے ورنہ جاہل ہے۔ فوجیوں کو دور کرتے کرتے بھٹو صاحب کدھر پہنچے۔بے نظیر حکومت ختم ہوئی تو انہوں نے کراچی میں پریس کانفرنس کی میری حکومت بریگیڈئر امتیاز اور میجر عامر نے ختم کی ہے حالانکہ میجر عامر بڑا اجلا اور دین دار قسم کا آدمی اور بڑے صاحب علم باپ کا بیٹا ہے۔

’’فاروق حیدر اوپر سے آنیوالے احکامات کے پابند ہیں‘‘

کشمیر کونسل کے دو نئے ممبران کے متعلق سوال کے جواب میں کہا انہوں نے کہا وفاق کے لوگوں کا فاروق حیدر کے ساتھ مزاج نہیں ملا ،انہیں شروع میں کنارے لگانے کی کوشش بھی کی گئی۔فاروق حیدر نے لیگی رہنما عبدالخالق وصی کا کشمیر ہاؤس میں داخلہ بند کر دیا تھا۔اوپر سے حکم گیا کہ آپ ان کا نام کشمیر کونسل کے لیے تجویز کریں۔اس کے بعد فاروق حیدر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے کشمیر سے بٹلی سیاست کا خاتمہ کر دیا۔دوسرا پیغام آیا کہ صدیق بٹلی دوسرا امیدوار آرہا ہے۔یہ دو اہم مثالیں ہیں۔ تیسری بات آپ نارروال سے ایک غیر کشمیری خاتون کو ووٹ دیتے ہیں۔جب اقتدار اور لالچ سر پر سوار ہو جائے تو کوئی سوچ باقی نہیں رہتی۔اقتدار کی خواہش رکھنے والوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ لوگ مسلسل پارٹیاں اسی لیے بدلتے ہیں۔

’’ترجیح حاصل کرنے کی اہلیت ہونی چاہئے‘‘

ترجیح وفاق دیتا ہے یا نہیں ۔میں یہ کہتا ہوں کہ ترجیح ساری دنیا میں آپ کو خود لینی پڑتی ہے۔بھٹو لیڈر تھے انہیں چین ، ماسکو اور امریکا میں بھی اہمیت اور عزت ملتی تھی۔وہ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے ہوئے تھے کسی امریکی نے ازراہ مذاق کہا کہ تمہیں اندازہ ہے کہ ہم نے تمہیں کہاں پہنچا دیا ہے؟مطلب یہ تھا کہ ہم نے پاکستان میں تمہیں لیڈر بنا دیا ہے ۔ بھٹو نے کہا ہاں جانتا ہوں کہ اس وقت وائٹ ہاؤس میرے پاؤں کے نیچے ہے۔فیلڈ مارشل کا امریکا کا استقبال دیکھیں ۔اس دور میں تمام ترقی پذیر ممالک میں سے واحد جنرل راحیل شریف کا دنیا کے مختلف ملکوں میں بھرپور استقبال ہوتا رہا۔جان کیری نے اتوار والے دن فارن آفس کھول کر ان کا استقبال کیا۔

’’ایکٹ 74ء میں میری تجویز کی گئیں اصلاحات تاریخ کا حصہ ہیں‘‘

ایکٹ 74ء کے بارے میں شاید آپ کو پریس میں کچھ نہ ملے مگر جو کیٹالاگ میں نے بنا کر دیا ہے اس کی کاپی مظفرآباداوراسلام آباد میںموجود ہے۔میں نے جداول کی صورت میں اس کی بعض شقوں میں موجود سقم کی نشاندہی کی اور تیسرے کالم میں حل کی تجاویز دیں۔ان تجاویز کی کاپی اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل کیانی، ڈی جی ایم آئی جنرل ندیم ،کور کمانڈرجنرل صلاح الدین ستی اور پرویز مشرف کو دی اور پانچویں کاپی اپنے پاس رکھی۔میں نے انہیں کہا کہ میں اس پر آپ کے لیگل برانچ سے بات کرکے یہ مسائل حل کرنا چاہتا ہوں ۔

’’یہ موروثی سیاست نہیں بلکہ بزرگوں کے نظریات کی پہرے داری ہے‘‘

سردار عبدالقیوم خان مرحوم کے بعد عتیق خان اور پھر عثمان عتیق کیا یہ موروثی سیاست نہیں؟موروثی سیاست کو سمجھنے کے لیے ورثے کی تعریف ضروری ہے۔ایک ورثے کا تعلق سرمائے سے ہے جس میں شوگر مل،سٹیل مل اور اتفاق فاؤنڈری ملتی ہے۔ایک قسم وہ ہے جس میں آپ کو اپنے نظریے اور تاریخ پر پہرہ دینا ہوتا ہے۔جس باپ دادا کی تاریخ پر دنیا فخر کرتی ہو اس پر پہرہ دینا چاہیے۔میں نے کہا بالکل درست لیکن چیف پہرہ دار کوئی اور بھی ہو سکتا ہے یا نہیں ؟سیاست ایک کل وقتی مصروفیت ہے اور نظریاتی سیاست کے لیے آپ کو زیادہ محنت کرنی ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں موروثیت اس لیے نہیں ہے کہ ہم برادری ازم کی بنیاد پر تو شاید آزادکشمیر میں ایک دو ضلع کونسل کے ممبر بھی نہیں بنا سکتے۔ دوسری بات یہ ہے ہمارے پاس کوئی سرمایہ نہیں ہے۔جو لوگ اپنا اور خاندان کا وقت قربان کر کے تاریخ کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے محنت کرتے ہیں اس میں وراثت کہاں سے آئی۔مجاہد اول نے سردار سکندر کو وزیراعظم بنایا۔میرے خلاف فاروق حیدر صاحب نے عدم اعتماد کیا۔ میں نے اپنی زبان سے انہیں وزیراعظم نامزد کیا۔اگر نظریاتی ورثے پر کوئی پہرہ دیتا ہے تو اعتراض کیا ہے۔

’’میاں صاحب نے کہا: مزا نہیں آیا، دھیر کوٹ والی مل جاتی تو اور بات ہوتی‘‘

کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم کانفرنس زوال کی ڈھلوانی راہ میں بے ہنگم لڑھک رہی ہے؟سب سیاسی جماعتیں نشیب وفراز سے گزرتی ہیں۔ ہر پارٹی ہمیشہ عروج پر نہیں ہوتی۔جب بے نظیر آئیں تو ان کے پاس صرف 17 سیٹیں تھیں، نواز شریف گئے تو ساتھ صرف ذاتی عملہ تھا،عتیق خان تسلیم کرتے ہیں کہ پارٹی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ اپنی آبائی نشست کی اہمیت بتائے ہوئے کہا حالیہ الیکشن میں فتح کے بعد مسلم لیگ نواز آزادکشمیر والے جب میاں صاحب سے ملنے گئے تو ان کا خیال تھا کہ میاں صاحب بہت تپاک سے ملیں گے اور کہیں گے کہ کمال ہو گیا مگر میاں صاحب نے کہا نہیں یار مزا نہیں آیا۔ اگر وہ دھیر کوٹ والی سیٹ(عتیق خان کا انتخابی حلقہ) بھی ہوتی تو اور بات ہوتی۔

عتیق خان کے بقول آزادکشمیر میں مسلم کانفرنس کے علاوہ صرف اور صرف پیپلز پارٹی کا ووٹ ہے۔نون لیگ کا ایک فی صد بھی ووٹ نہیں ہے۔اگر نون لیگ کا ووٹ ہوتا تو مسلم کانفرنس کے اٹھائے ہوئے چہروں کی جگہ نئے لوگوں کو ٹکٹ دیتے۔اگر الکٹیبلز کو اٹھا دیں تو دیکھیں کہ مسلم لیگ نوازکے پاس کیا بچے گا۔ان کے بقول آزادکشمیر میں غیر ریاستی جماعتوں میں سے پی پی کے علاوہ کسی کا ووٹ نہیں ہے۔

’’حضرت عمرؓ اور علیؓ کے گورننس کی اصول بہترین ہیں،سوانح عمریوں میں دلچسپی ہے، جھاڑ پھونک کیلئے روحانیت کی ضرورت نہیں، میرا اور مجاہد اول کا پیر خانہ ایک ہے،موسیقی کا ذوق ہے ،فلم ’زرقا‘ کی کہانی اچھی تھی، والد کا ریکارڈ مرتب اور محفوظ کر رہا ہوں ‘‘

گورننس کے بہترین اصولوں کا مرکز حضرت عمرؓ اور حضرت علی ؓہیں ۔ان کے وضع کردہ گورننس کے اُصول قیامت تک قابل عمل ہیں،ہماری تاریخ میں قائداعظم گڈ گورننس کی بہترین مثال ہیں۔ہماری قیادت میں چوہدری غلام عباس اور سردار عبدالقیوم خان بڑے لیڈر تھے۔چوہدری غلام عباس کو ساری زندگی اقتدار کی پیش کش ہوتی رہی لیکن انہوں نے ہامی نہیں بھری۔دیگر لوگوں نے قیادت کا کردار خراب کیا ہے۔کشمیریت کو بچانے میں شیخ عبداللہ کا کردارجھٹلایا نہیں جا سکتا۔

سوانح ،خود نوشتیں ، شاعری اور تاریخ کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ملٹری اور سیاست دونوں کا تجربہ رکھنے والے افراد کی کتابوں میں بھی دلچسپی ہے۔نیلسن منڈیلا کی خود نوشت سوانح ’لانگ واک ٹو فریڈم‘ کا بطور خاص نام لیتے ہیں۔

شرارتاًپوچھا سنا ہے آپ جھاڑ پھونک بھی کرتے ہیں تو کہا ’اس کے لیے روحانیت کی ضرورت نہیں ہوتی ، یہ اسلام کے اندر موجود ہے‘موسیقی کا ذوق ہے لیکن کم موقع ملتا ہے۔کندن لال سہگل کو سنتا ہوں،میری گاڑی میں اس وقت بھی اس کی سی ڈیز موجود ہیں۔اس کے علاوہ جگ موہن ،پنکھج ملک، کمالاجھاریہ،  فارسی ناشناس اور کارن بھارا اورجیوتھیکا رائے کو سنتا ہوں،جیوتھیکا رائے کی غزل ’’گھونگھٹ کے پٹ کھول رے‘‘ کا ایک مصرعہ سنیں تو سر سے لے کر پاؤں تک بجلی دوڑ جاتی ہے۔

مہدی حسن، نورجہاں، حبیب ولی محمد، ایم کلیم، ملکہ پکھراج اور ثریا ملتان کر کے منتخب گیتوں کی تعریف کرتے ہیں۔ طالب علمی زمانے میں فلمیں دیکھتا تھا اب موقع نہیں ملتا۔’زرقا‘ فلم کی کہانی بہت اچھی تھی۔شاعری میں میر اور غالب سے لے کر کے آج تک کے شعراء تک کوپڑھا ہے۔ پڑھنے کی بات چلی تو کہا ’مجاہد اول کہا کرتے تھے کہ اگر سیاست میں سے علمی ذوق وشوق نکال دیا جائے تو پھر سیاست کی بجائے کھیتی باڑی بہتر ہے۔اپنے مرحوم والدکی سیاسی زندگی کا ریکارڈ محفوظ کررہے ہیںاور ان دستاویزات کو زمانی ترتیب میں مرتب کر رہے ہیں۔کشمیری مخصوص کھانوں کا تو ذوق نہیں ہے۔اپنی ضرورت کا کھانا میں پکا لیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔