یزید سے بھی مراسم، حسینؓ کو بھی سلام

زاہدہ حنا  ہفتہ 19 جنوری 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

دسمبر2012 کا مہینہ تھا۔کراچی آرٹس کونسل میں عالمی ادبی کانفرنس کی گہما گہمی تھی کہ اچانک ایک صاحب جو صورت آشنا ہیں، وہ کسی اجنبی کے ساتھ تشریف لائے۔ ہاتھ میں سفید رنگ کا ایک بڑا اور دبیز لفافہ تھا جس پر بہ زبان انگریزی ’’نظام کی تبدیلی‘‘ چھپا ہوا تھا۔ میں اگلی صف میں تھی، اس لیے میں نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا، مجھ سے سرگوشی میں کہا گیا کہ ہم آپ کو شیخ الاسلام کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کس ’’شیخ الاسلام‘‘ کا ذکر ہے۔

ہمارے یہاں اس نوعیت کے محترم القابات اس قدر عام ہوئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ القابات متعلقہ لوگ خود ہی اپنے آپ کو دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح جنرل ایوب آپ سے آپ فیلڈ مارشل ہوگئے تھے۔ میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس سے پہلے کیمرے کا فلیش چمکا اور دونوں حضرت ادب و احترام کے ساتھ میرے ہاتھ میں وہ لفافہ تھما کر غائب ہوگئے۔ میں نے لفافے پر ایک نظر ڈالی اور پھر شمیم حنفی کی باتیں سننے میں محو ہوگئی۔

چند دنوں بعد ایک دوست کا فون آیا کہ مبارک ہو تم منہاج القرآن میں شامل ہوگئی ہو۔ میں نے انھیں یقین دلایا کہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ میں کبھی کسی تنظیم میں شامل نہیں ہوئی۔ بڑی مشکل سے انھیں اعتبار آیا پھر انھوں نے بتایا کہ کسی اخبار میں تمہاری تصویر چھپی ہے جس میں تم منہاج القرآن کے ذمے دار حضرات سے علامہ طاہرالقادری کا پیغام لے رہی ہو۔ میں سرپیٹ کر رہ گئی کہ اس کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

اس کے چند دنوں بعد لاہور میں نقارے پر چوب پڑی جس کی آواز سے سارا ملک گونج اٹھا۔ حضرت علامہ شیخ الاسلام کی آمد کا غلغلہ بلند ہوا اور پھر کینیڈا کے ایک شہری کو ہم نے پاکستانی عوام کے غم میں غرق اپنے لشکر کے ساتھ اسلام آباد کی طرف کوچ کرتے دیکھا۔ ان دنوں جو کچھ ہوا اس سے ہمارا ہر خواندہ اور ناخواندہ شہری آگاہ ہے اور یہ سہرا ہمارے ٹیلی ویژن چینلوں کے سر ہے جنھوں نے سالارِلشکر کو ’شہادت پروف بنکر‘ میں اٹھارہ بیس کروڑ، لوگوں کے غم میں نڈھال دیکھا۔ ان کا لشکر جو زیادہ سے زیادہ چالیس اور آخری گھنٹوں میں دس پندرہ ہزار پر مشتمل تھا۔ اس میں شامل دودھ پیتے بچوں، کپکپاتے بوڑھوں، عورتوں اور نوجوانوں کو موسم سرما کی سختیاں اور آخری دن تیز بارش اور ژالہ باری کی صعوبتیں سہتے دیکھ کر ہر شخص ان لوگوں کے لیے افسردہ تھا لیکن افسوس کہ شیخ الاسلام پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔

وہ تاریخ اسلام کے محترم ترین ناموں کے حوالے دیتے ہوئے ہمارے سیاسی منظر نامے پر طلوع ہوئے۔ انھوں نے لاہور کو’کوفہ‘ کہا، اسلام آباد ’کربلا‘ تھا۔ ان کے مریدین اور ملازمین ’حسینی لشکر‘تھے اور وہ خود قافلۂ حسینیت کے سالار تھے۔ وہ بار بار ’حسینی قافلے ‘کا میر کارواں ہونے کا دعویٰ کرتے رہے لیکن کسی میں یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ خون حسینؓ اور چادر زینبؓ کی بے حرمتی کرنے والے سے جواب طلب کرے۔ وہ موجود جمہوری نظام، پارلیمنٹ اور دوسرے جمہوری اداروں پر سب و شتم کرتے رہے، چار دن کے اندر انھوں نے اپنے تئیں صدر، وزیر اعظم ، وزراء سب ہی کو برطرف کردیا۔ یہ کہا کہ میرا لشکر پارلیمنٹ پر قبضہ کرلے گا۔ یہ لوگ اسلام آباد کو فتح کرلیں گے۔ اس درمیان عدلیہ اور فوج کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے ان کی زبان خشک ہوتی رہی۔ عدلیہ کی طرف سے ایک نہایت اہم فیصلہ وزیر اعظم کے حوالے سے آیا تو انھوں نے اپنے مریدوں اور ساری دنیا کو یہ تاثر دیا کہ وہ اس فیصلے سے آگاہ تھے یا شاید یہ فیصلہ ان ہی کے اشارے پر دیا گیا ہے۔ عدلیہ کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہوسکتی تھی۔ فوج پر وہ واری صدقے تھے۔

ان کی وہ بات جو حیران کرتی رہی ان کی مسلسل غلط بیانی تھی۔ وہ اپنے کہنے کے مطابق ’ملین مارچ‘ یعنی دس لاکھ افراد لے کر چلے تھے جو اسلام آباد پہنچتے پہنچتے چالیس لاکھ میں بدل گیا۔ اس بارے میں حکومت سے ایک نام نہاد معاہدہ ہوجانے کے بعد بھی اپنے بلٹ پروف شیشے کے پیچھے سے معاہدہ کے 4 صفحات لہراتے ہوئے یہی کہتے رہے کہ یہ چالیس لاکھ لوگ جو باہر کھڑے ہیں، وہ خود دیکھ لیں کہ فتح ہماری ہوئی ہے۔ اس وقت سڑک پر بہ مشکل دس ہزار لوگ موجود تھے۔

اس مرحلے پر دوسری جنگ عظیم سے ذرا پہلے کا ایک شخص یاد آتا ہے۔ وہ سیاست کے میدان میں اترا، ہٹلر کی کابینہ میں شامل ہوا، نازی پروپیگنڈے کا وزیر مقرر ہوا اور اس نے اپنے اس سیاسی فلسفے کو انتہا تک پہنچا دیا کہ اگر اپنے مقصد کے حصول کے لیے جھوٹ بولنا ہوتو ضرور بولو اور اسے اتنی بار دہرائو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔چند دنوں پہلے ہم نے اسی فلسفے پر عمل ہوتے دیکھااور سنا۔ یوں تو برسوں ہم صبح وشام ڈرون حملے سہتے رہتے ہیں لیکن یہ کوئی ڈرون حملہ نہ تھا۔ کینیڈا سے آنے والی اسکائی لیب تھی جو بے سان وگمان ہم پر آگری اور سارے ملک میں تہلکہ مچ گیا۔ان کا ایک بڑا جلسہ لاہور میں ہوا تو لوگوں کے کان کھڑے ہوئے کہ یہ صاحب کون ہیں۔

آپ جانیں کہ ’’اندر‘‘ کے معاملات کو کھود کر نکال لانے میں صحافی اپناثانی نہیں رکھتے۔ ایک اخبار میں ’’ ہندوستان ٹائمز ‘‘ کے حوالے سے یہ خبر شایع ہوئی کہ موصوف نے گزشتہ برس ہندوستانی ریاست گجرات کا دورہ کیا اور بی جے پی حکومت کے مہمان رہے ۔ انھوں نے گیتا اور قرآن پر دو گھنٹے لیکچر دیا جسے ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا ۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ اعلیٰ حضرت بی جے پی کے رہنما نریندر مودی کے مہمان تھے جنھیں آج بھی ان الزامات کا سامنا ہے کہ انھوں نے 2002ء میں مسلمانوں کے خلاف فسادات اور قتل عام پر آنکھیں بند کررکھی تھیں ۔ بھارت میں جمعیت العلماء ہند نے طاہر القادری پر الزام لگایا کہ وہ مسلمانوں کے قاتل کی مداح سرائی کررہے ہیں۔

وہ ’ وزیر اعظم، وزرا کو سابق، اور وہ لوگ جنھیں وہ خائن، لٹیرے، چور اور ڈاکو کہہ رہے تھے۔ جنھیں وہ یزید ، نمرود، فرعون اور شداد قرار دے رہے تھے،ان ہی سے انھوں نے مذاکرات اتنی گرم جوشی سے کیے کہ’ آملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک‘ جیسی کیفیت کا گمان ہورہا تھا۔

جن کے اشارے پر ان کا ورود مسعود ہوا تھا، ان کی تفصیل بھی سامنے آجائے گی۔ ابھی تو یہ بات معرض بحث میں ہے کہ اسلام آباد ڈیکلریشن، کی قانونی اور آئینی حیثیت کیا ہے؟ اب یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ مذاکرات کے دوران وہ جب بھی پٹڑی سے اترنے لگتے یا کسی نکتے پر بھی اڑنے کی کوشش کرتے تو مذاکراتی ٹیم کے افراد میاں نواز شریف کا نام لے کر یہ کہتے کہ اس پر وہ ہر گز راضی نہ ہوں گے اور ان کے اس گرینڈ اپوزیشن اجلاس کو یادکیجیے جو صرف 48 گھنٹے پہلے یہ اعلان کرچکا ہے کہ ماورائے آئین کوئی بات برداشت نہیں کی جائے گی اور اگر آزادانہ انتخابات کی راہ میں کسی نے بھی روڑے اٹکانے کی کوشش کی تو ہم سب مل کر اس سے نمٹ لیں گے۔ میاں نواز شریف کا نام سن کر وہ فوراً ٹھنڈے ہوجاتے۔ ادھر چیف جسٹس صاحب نے بھی اپنا وزن آئین اور جمہوری نظام کے پلڑے میں ڈالنے میں دیر نہیں لگائی۔

وہ بڑے کروفر سے آئے تھے اور نامراد واپس گئے۔ ان کے مریدوں اور ملازموں سے سارے پاکستان کو دلی ہمدردی ہے جنھوں نے بدترین موسم میں وفاداری نبھانے کا کمال مظاہرہ کیا۔ حکومت بہ طور خاص وزیر داخلہ رحمان ملک نے تدبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ۔ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی بیماریوں کی خبریں آئیں، ان کا مستعدی سے علاج بھی کیا گیا۔ یہ جمہوریت کی عطا ہے کہ ’’شیخ الاسلام‘‘ کو لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے اور پھر دارالحکومت کو یرغمال بنا لینے اور دھمکیاں دینے ، لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کے باوجود ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی۔

ایک بے ضرر سی ایف آئی اے کا ذکر ہوا تو ہمارے اس شیر دل سالار کارواں نے چار صفحے کے معاہدے میں ہر قسم کے مقدمے اور قانونی کارروائی نہ کرانے کا وعدہ بھی لے لیاہے۔ وہ جو اپنے بُلٹ پروف شیشے سے اپنی جھلک دکھاتے رہے اور اپنے لشکر کو منجمد کردینے والی ہوائوں کے سپرد کرکے اپنے ٹرالر میں گرمی کے سبب کوٹ اور شیروانی اتارتے رہے، ان کا یہ جملہ ساری دنیا نے سنا کہ ’بیٹا میں کوٹ اتاروں گا، گرمی بہت ہے، وہ موسم سرما کی کٹیلی بارش میں بھی اپنی پیشانی اور چہرے سے پسینہ پونچھتے رہے۔

لوگ منتظر ہیں کہ انتخابات سے پہلے اب کس کا ظہور ہوگا۔ آخر میں یہ ضرور عرض کردوں کہ انھوں نے تاریخ اسلام کے جن شاندار استعاروں ’کربلا‘ اور ’حسینیت‘ کو اپنے سرپرستوں کے مفادات حاصل کرنے کے لیے بار بار استعمال کیا، وہ سراسر اسلام اور حسینیت کی توہین ہے جس نے اس ملک کے کروڑوں لوگوں کو ناراض کیا ہے اور ان کا دل دکھایا ہے۔ وہ اس قبیلے سے ہیںجس کے بارے میں اس سے درست بات اور کیا ہوگی کہ:
یزید سے بھی مراسم، حسینؓ کو بھی سلام

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔