- پاک آئرلینڈ سیریز؛ پہلا ٹی20 میچ آج کھیلا جائے گا
- کراچی؛ تاوان نہ ملنے پر 12 سالہ بچہ قتل، مرکزی ملزم بہنوئی گرفتار
- اسمبلی اجلاس؛ گورنر پختونخوا اور صوبائی حکومت آمنے سامنے
- ٹی20 ورلڈکپ؛ سابق کپتان کا بابراعظم، رضوان کو اہم مشورہ
- دبئی سے آنیوالے 2 مسافروں سے کروڑوں مالیت کے موبائل فونز برآمد
- اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی میں بھارت براہ راست ملوث
- دورہ آئرلینڈ؛ محمد عامر بالآخر ڈبلن روانہ
- ویپس میں استعمال کیے گئے کیمیکل انتہائی زہریلے ثابت ہوسکتے ہیں، تحقیق
- بلیک ہول میں گِرنے کا منظر کیسا ہوگا؟ ویڈیو جاری
- جاپان میں بیت الخلا سیاحوں کی توجہ کا مرکز کیوں بن رہے ہیں؟
- پی سی بی غیر ملکی کیوریٹر کی خدمات حاصل کرنے کا خواہاں
- آئرلینڈ کی کرکٹ کنٹریکٹ تنازع میں الجھ گئی
- حکومت کو 15روز میں کلائمیٹ اتھارٹی کے قیام کا حکم
- تاجر دوست اسکیم کامیاب بنانے کیلیے اقدامات کیے جائیں، وزیر خزانہ
- ٹیکس کیسز کا التوا، اٹارنی جنرل آفس کی ایف بی آر کو تجاویز
- اپریل کے دوران ترسیلات زر کی مد میں 2.8 ارب ڈالر آئے
- سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کے لیے 5 سالہ پروگرام تیار
- آئی ایم ایف کا پاکستان سے پنشن پر ٹیکس کے نفاذ کا مطالبہ
- نماز میں خشوع و خضوع
- تربیت اطفال کے اہم راہ نما اصول و ضوابط
پانچ منفرد نوبیل انعام یافتگان
متحدہ ہندوستان میں دہلی، لاہور، مدراس،کلکتہ، ممبئی بہت بڑے شہرتھے۔ثقافت، معیشت، تجارت اور قدیم تاریخی ورثے ان شہروں کے مضبوط حوالے تھے اور آج بھی ہیں۔ 1947 میں ہندوستان تقسیم ہوا تو نئے ملک پاکستان کے حصے میں صرف لاہورآیا، متحدہ ہندوستان کا دوسرا بڑا شہر لاہور، ڈاکٹر مشتاق اسمٰعیل اپنی کتاب ’’امیر خسرو جرمنی میں‘‘ لاہور کے بارے میں لکھتے ہیں ’’مشہور شاعر جان ملٹن نے اپنی شہرہ آفاق نظم “Paradise Lost” میںلکھا ہے کہ جب اللہ میاں نے حضرت آدمؑ کو جنت سے نکالا تو آسمانوں سے دنیا دکھائی اور مغلوں کا شہر لاہور دکھاتے ہوئے کہا کہ دیکھو ہم نے تمہارے لیے دنیا کتنی خوبصورت بنائی ہے۔‘‘اور اس وقت میں سوچ رہا ہوں کہ شاعر جان ملٹن کے زمانے میں لاہور کتنا خوبصورت ہوگا۔
ہندوستان کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح لاہور شہر میں بھی بہت بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے، اب یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے، آج میں ایک خاص حوالے سے اس شہر کا ذکر قارئین کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں اور اس کے لیے مجھے ڈاکٹر مشتاق اسمٰعیل صاحب کی کتاب کا سہارا لینا ہوگا، ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب میں زیر عنوان ’’وہ شہر جس نے پانچ نوبیل انعام یافتگان پیدا کیے‘‘ لکھتے ہیں ’’پنجاب کی فتح کے بعد انگریزوں نے لاہور کو صوبہ پنجاب کا دارالحکومت قرار دیا اور کئی عمارتیں بنوائیں، جن میں سب سے بڑی شاہراہ مال روڈ پر جامعہ پنجاب کی خوبصورت عمارت بھی شامل ہے۔ جامعہ پنجاب پاکستان کی قدیم ترین جامعہ ہے، جو شروع شروع میں تو جامعہ کلکتہ سے ملحق رہی، مگر بعد میں اس کو خود مختار حیثیت حاصل ہوگئی۔ جامعہ کے سامنے ایک نہایت خوبصورت عمارت ہے، جہاں لاہور کا عجائب خانہ قائم ہے۔
اس عجائب خانے کا محافظ ایک شخص ہوتا تھا، جس کا نام Kipling تھا، اس نے لاہور کالج آف آرٹ بھی قائم کیا تھا، اس کا بیٹا Rudyard Kipling عجائب خانے کے سامنے روڈ پر رکھی ایک نہایت عظیم الشان توپ پر کھیلا کرتا تھا اور دن میں بھی خواب دیکھا کرتا تھا ، بعد میں اس توپ کا نام “Kims Gun” پڑ گیا۔ جب وہ جوان ہوا تو اس نے اپنے دن میں خواب دیکھنے کی کہانی ایک کتاب کی شکل میں لکھ دی۔ اس کتاب کا نام “Kim” تھا۔ اس کتاب پر “Rudyard Kipling” کو 1907 میں ادب کا نوبیل انعام ملا۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی یہ پہلی کتاب تھی جس پر نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ Rudyard Kipling نے بعد میں لاہور کے مشہور اخبار ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘کے مدیرکی حیثیت سے کام کیا، یہ اخبار پاکستان بننے کے بعد بھی شایع ہوتا رہا۔
جامعہ پنجاب میں کیمسٹری کے شعبے میں ایک پروفیسر تھے شانتی سروپ بھٹ ناگر، جو بعد میں ہندوستان کے محکمہICSIR کے چیئرمین بنے۔ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی انھی کے ماتحت ICSIR دہلی میں ڈائریکٹر تھے۔ بھٹ ناگر نے ایک ترازو ایسی بنائی کہ اس کے ایک بازو کے چاروں طرف ایک برقی مقناطیس لپیٹ دیا۔ اس ترازو سے وہ یہ ناپا کرتے تھے کہ کسی چیز کا وزن مقناطیسی میدان میں اتنا ہی رہتا ہے؟ کم ہوتا ہے یا زیادہ ہوجاتاہے۔ اس ترازو کی شہرت سن کر انگلستان سے ایک صاحب آئے جن کا نام Comptain تھا۔ انھوں نے اس تھیوری پر کام کیا اور ان کے مقالے پر ان کو 1927 میں طبیعات کے نوبیل انعام سے نوازا گیا جب کہ بنیادی کام جامعہ پنجاب لاہور کے پروفیسر شانتی سروپ بھٹ ناگر صاحب نے کیا تھا۔
ایک صاحب تھے گووند کھورانا “Govind Khorana” جو پیدا تو ملتان میں ہوئے تھے، مگر انھوں نے ساری تعلیم کالجوں کے شہر لاہور میں حاصل کی تھی، وہ جامعہ پنجاب سے ایم ایس سی کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں استاد کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1947 میں فسادات کی وجہ سے گووند صاحب امریکا چلے گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کی۔ 1968 میں جینیات (Genetics) پر کیے گئے ان کے کام پر ان کو میڈیسن کا نوبیل انعام ملا۔ ان کے انعام ملنے پر ہندوستان نے بڑی دھوم مچائی کہ ایک ہندوستانی کو نوبیل انعام دیا گیا، مگر گووند کھورانا صاحب نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ ’’میں پہلے برطانوی شہری تھا، اب امریکی شہری ہوں، ہاں البتہ میں لاہوری ضرور ہوں۔‘‘
لاہور کے مضافات مغل پورہ میں ریلوے کی ایک ورکشاپ میں جنوبی ہندوستان کے ایک انجینئر کام کرتے تھے ، ان کا نام تھا سبرامینیم(Subramanium) ان کا بیٹا چندرا شیکھر نہ صرف لاہور میں پیدا ہوا بلکہ اس نے وہیں ساری تعلیم بھی پائی۔ جامعہ پنجاب سے ایم ایس سی کرکے وہ امریکا سدھار گیا۔ اس نے کائنات میں Black Hole دریافت کیے، جس پر 1983 میں طبیعات کے نوبیل انعام سے چندرا شیکھر کو نوازا گیا۔ اس کے نام پر ’’چندرا‘‘ نامی دوربین (Telescope) بھی خلاء میں بھیجی گئی تھی، اس نے بھی لاہوری ہونے پر فخر کا اظہار کیا تھا۔
نوبیل انعام حاصل کرنے والے پانچویں شخص کا نام ڈاکٹر عبدالسلام ہے، ڈاکٹر صاحب جھنگ شہر میں پیدا ہوئے اور میٹرک سے ایم ایس سی تک ہمیشہ اول آتے رہے۔ 1979 میں طبیعات کا نوبیل انعام ان کو ملا۔ ان کے کام یعنی روشنی، مقناطیسیت، کشش ثقل، حرارت، توانائی، ان سب کو ملاکر ایک واحدانیت (Unified Field Theory) ثابت کرنے پر ملا۔ ڈاکٹر صاحب نے بعد میں اٹلی کے شہر ٹریسٹ میں ایک ادارہ ’’انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف تھیوریٹیکل فزکس‘‘ کے نام سے قائم کیا۔ اس طرح شہر لاہور کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے پانچ نوبیل انعام یافتہ افراد دنیا کو دیے ۔
آخر میں ڈاکٹر مشتاق اسمٰعیل صاحب کا مختصراً تعارف کروادوں۔ ڈاکٹر صاحب سائنسدان ہیں، کئی ممالک میں خدمات انجام دے چکے ہیں، اور ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی صاحب کے زیر سایہ زندگی کے طویل ماہ و سال گزارے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب صوبہ بہار کے دارالخلافے پٹنہ میں پیدا ہوئے اور حال مقیم کراچی ہیں جہاں آج بھی درس و تدریس کا کام کر رہے ہیں ۔ (کتاب امیر خسرو جرمنی میں سے اکتساب)
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔