اعلیٰ تعلیم کے میدان میں پاکستانی ناکامیوں کا سال: 2017

سید وقار علی  بدھ 3 جنوری 2018
موجودہ چیئرمین وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کسی سے مشورہ لینے کے قائل ہی نہیں۔ (فوٹو: فائل)

موجودہ چیئرمین وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کسی سے مشورہ لینے کے قائل ہی نہیں۔ (فوٹو: فائل)

کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی کا راز تعلیم میں مضمر ہے اور کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ تعلیمی میدان میں ترقی نہ کرلے۔ مگر افسوس کہ پاکستان کے حکمران اور متعلقہ ادارے اس کے با لکل برعکس ہیں۔ ایک ملک جہاں کروڑوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں وہاں تعلیمی نظام دنیا کا مہنگا ترین نظام ہے۔ یہاں اربوں روپے مالیت سے بننے والی ہالی ووڈ اور بالی ووڈ فلمیں ہزاروں ویب سائٹس پر مفت میں دیکھی جاسکتی ہیں مگر تعلیمی نصاب کی کتب ہزاروں میں بکتی ہیں۔

الیکشن مہم کو مؤثر بنانے کےلیے لیپ ٹاپ تو مفت میں دیئے جارہے ہیں مگر سرکاری جامعات کی فیسوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ پنجاب بھر میں مفت انٹرنیٹ کی فراہمی اور اس کے استعمال کےلیے باقاعدہ آگاہی مہم چلائی جاسکتی ہے لیکن اسکولوں سے باہر بیٹھے بچوں کو داخل کروانے کےلیے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ اسی طرح پاکستان کی جامعات ہماری ناقص پالیسیوں کی وجہ سے دن بدن تنزلی کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔

برطانوی ادارے ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی جانب سے جاری ہونے والی رینکنگ کے مطابق پاکستان کی صرف 3 جامعات دنیا کی 1000 بہترین جامعات میں جگہ بناسکی ہیں جبکہ پہلی 500 میں صرف ایک، قائداعظم یونیورسٹی شامل ہے؛ اور یہ بات بھی ہم سب جانتے ہیں کہ قائداعظم یونیورسٹی نے یہ مقام اپنے دم پر حاصل کیا ہے۔ کیو ایس کی جانب سے جاری کردہ جامعات کی درجہ بندی میں بھی پاکستانی جامعات کی پچھلے سال کی نسبت کارکردگی غیر تسلی بخش رہی۔ اس سال جامعات کی گرتی ہوئی رینکنگ کے علاوہ بھی اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ تعلیمی نظام کو سنوارنے کےلیے تشکیل دیئے جانے والے ہائر ایجو کیشن کمیشن نے بہت کچھ کھودیا ہے جسے تفصیل سے بیان کروں تو شاید پوری کتاب لکھنی پڑے۔ اس لئے قارئین کو صرف جھلکیوں سے ہی کام چلانا پڑے گا۔

1۔ پاکستان میں منظور شدہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد 186 سے تجاوز کر گئی جبکہ 150 سے زائد غیر قانونی ادارے اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی ہائر ایجو کیشن کمیشن کا منہ چڑا رہے ہیں اور یہ اعلیٰ تعلیمی میدان میں پاکستان کی پستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

2۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی اور وفاقی ہائر ایجو کیشن کمیشن کے مابین کشمکش جاری رہی اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کے سات سال گزرنے کے باوجود اعلیٰ تعلیمی شعبے میں صوبوں کو ان کے آئینی اختیارات حاصل نہ ہوسکے۔

3۔ اعلیٰ تعلیمی سال 2017 میں وفاقی ہائر ایجو کیشن کمیشن کے (جو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کےلیے تشکیل دیا گیا تھا) گورننگ بورڈ کا کوئی بھی اجلاس منعقد نہ ہوسکا؛ جبکہ اہم پالیسی ساز فیصلوں میں بھی گورننگ بورڈ اور وزیراعظم پاکستان کو بطور کنٹرولنگ اتھارٹی نظرانداز کر دیا گیا۔

4۔ ہائر ایجو کیشن کمیشن نے دعویٰ کیا کہ وہ غریب اور بے روز گار نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم اور روزگار میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ این ٹی ایس کے مقابلے میں نیشنل ٹیسٹنگ کونسل کاقیام عمل میں لائے گا۔ اس حوالے سے تفصیلی پریس کانفرنس ہوئی، لاکھوں روپے خرچ کر کے اس بارے میں تقریبات کا انعقاد بھی کیا گیا مگر اس اہم فیصلے میں بھی گورننگ باڈی کی منظوری نہ لی گئی جس کی وجہ سے سارا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا اور یہ فیصلہ سرد خانے کی نذر ہوگیا۔

5۔ ہائر ایجو کیشن کمیشن نے سبز باغ دکھا کر اربوں روپے کا ترقیاتی بجٹ متعلقہ اداروں سے جاری کروالیا مگر غیر مؤثر نگرانی کے نظام کی وجہ سے جاری کردہ ترقیاتی بجٹ کی 49 فیصد رقم ہی بروئے کار لائی جاسکی جس کا ذکر آڈٹ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔

6۔ کومسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اور لنکاسٹر یونیورسٹی کے مابین دوہرے ڈگری کیس پر عدالتوں اور مشترکہ مفادات کونسل کے واضح فیصلوں کے باوجود 2400 سے زائد طلبا کو دوہری ڈگری جاری کرنے کے حوالے سے فیصلہ نہ ہوسکا اور ہزاروں گریجویٹس آج تک ہائر ایجو کیشن کمیشن کے باہر سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں۔

7۔ لاہور ہائیکورٹ نے ایک اہم آئینی دخواست پر فیصلہ صادر کیا کہ وفاقی ایچ ای سی کو مشترکہ مفادات کی کونسل کے ماتحت کردیا جائے اور 6 ماہ کے اندر اندر اعلیٰ تعلیمی شعبے میں طے کردہ تمام معیارات کی منظوری مشترکہ مفادات کی کونسل سے لی جائے لیکن چھ ماہ گزنے کے باوجود وفاقی حکومت اس اہم فیصلے پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے کومسیٹس اور ایچ ای سی کے مابین تنازعات جیسے کئی اور معاملات التواء کا شکار ہیں۔

8۔ سینیٹ آف پاکستان کی متفقہ قراردار کی منظوری کے باوجود اسٹوڈنٹ یونین کی بحٓالی نہ ہوسکی جس کے باعث پاکستان کی کئی بڑی جامعات جن میں قائداعظم یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی بھی شامل ہیں، شدت پسندی اور گروہ بندیوں کا شکار رہیں۔

9۔ وفاقی ہائر ایجو کیشن کمیشن کی کارکردگی بھی پورا سال شدید تنقید کا ہدف رہی اور آل پاکستان فیڈریشن آف یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز نے وفاقی ایچ ای سی کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں بھی پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی شعبے کو شدید انتشار میں مبتلا قرار دیا۔

10۔ اس سال یہ بھی انکشاف ہوا کہ ایچ ای سی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بذاتِ خود چربہ سازی (plagiarism) میں ملوث ہیں جبکہ وفاقی ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کی تقرری تعلیمی اہلیت اور پروفیسر کے ٹائٹل کے استعمال کے خلاف عدالتوں میں سماعت جاری ہے۔

11۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن 2017 میں بھی اپنی سالانہ رپورٹ شائع کرنے میں ناکام رہا۔

12۔ 2017 میں پاکستان کی 20 سے زائد جامعات بغیر وائس چانسلر کے ہی چلتی رہیں اور آپ سمجھ سکتے ہیں بغیر ڈرائیور گاڑی صرف منزل مقصود تک پہنچانے میں ہی ناکام نہیں ہوتی بلکہ تباہی اور بربادی کا باعث بھی بنتی ہے۔

میں نے ہائر ایجو کیشن کمیشن کے پندرہویں یوم تشکیل پر ایک کالم/ بلاگ میں ذکر کیا تھا کہ ایچ ای سی کی پالیسیوں اور انتظامی امور کےلیے ایک 18 رکنی گورننگ بورڈ بنایا جاتا ہے جس کی تشکیل کا عمل گزشتہ چار سال سے (یعنی جب سے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر مختار اس منصب پر فائز ہیں تب سے) رکا ہوا ہے؛ اور وہ تمام فیصلے جو 18 رکنی گورننگ بورڈ کو کرنے ہوتے ہیں، آج کل انفرادیت کا شکار ہیں جو ایچ ای سی کی بربادی کاایک بڑا سبب ہے۔ اس ضمن میں ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ موجودہ چیئرمین ایچ ای سی مشوروں کے قائل ہی نہیں، اس لئے وہ کسی گورننگ بورڈ یا دیگر ماہرین کی رائے لینے سے اجتناب برتتے ہیں۔

ماہرین تعلیم نے ہائر ایجو کیشن کمیشن کی ان مسلسل ناکامیوں اور پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی میدان میں تنزلی کا ایک سبب یہ بھی بتایا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اگر صرف تعلیمی اداروں کی معاونت تک محدود رہتا تو بہت مناسب تھا اور اعلیٰ تعلیمی میدان میں خاصی بہتری بھی ہوسکتی تھی مگر ایچ ای سی نے اپنا اصل کام چھوڑ کر دیگر کئی غیر ضروری کاموں میں مداخلت شروع کردی ہے جس کی ایک بڑی مثال ہمارے پاس ایچ ای سی کا کومسیٹس یونیورسٹی کے ساتھ دوہری ڈگری تنازعہ ہے۔

ماہرین کے مطابق ایچ ای سی کی ناکامیوں کا ایک بڑا سبب وفاقی ایچ ای سی کا صوبائی ایچ ای سی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ ہونا بھی ہے کیونکہ اس وقت پاکستان میں پرائیویٹ اور سرکاری جامعات کی مجموعی تعداد 186 جبکہ 100سے زائد سب کیمپسز ہیں جن کی ڈیویلپمنٹ اور معاونت کےلیے یقیناً ایچ ای سی کو اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والی صوبائی جامعات کے ساتھ مسلسل کوآرڈینیشن کی اشد ضرورت ہے جبکہ ایک مشترکہ ٹھوس لائحہ عمل بنانے کی بھی ضرورت ہے جو تمام صوبائی اور وفاقی ایچ ای سی پالیسیز پر عمل درآمد کروانے میں معاون ثابت ہو۔

اس وقت اعلیٰ تعلیمی حلقوں میں ہائر ایجو کیشن کمیشن کی مسلسل ناکامیوں کے پیش نظر انتہائی تشویش پائی جارہی ہے۔ جامعات کی عالمی رینکنگ، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ اور بالخصوص جامعات سے فارغ التحصیل نوجوانوں کی بے روزگاری کے اسباب کے حوالے سے جاری ہونے والی رپورٹس نے پوری قوم کو مایوسی کا شکار کر رکھا ہے۔ ایسے میں ہائر ایجو کیشن کمیشن کو چاہیے کہ فی الفور تمام غیر ضروری کاموں سے جان چھڑوا کر صرف اور صرف ایک معاون ادارے کا کردار ادا کرے، جامعات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کےلیے انہیں مطلوبہ فنڈز فراہم کئے جائیں، تعلیمی نصاب کو ملازمت فراہم کرنے والے اداروں کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے اور وہ تمام منصوبہ جات جن کے نام پر ہر سال اربوں کا فنڈ جاری ہوتا ہے، ان کی تکمیل کےلیے صوبائی ہائر ایجو کیشن کمیشن اور باقی تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ٹھوس حکمت عملی بنائے تاکہ اعلیٰ تعلیمی سال 2018 کے اختتام پر ہم مایوسیوں کے بجائے خیر اور خوشخبریاں بانٹنے والوں میں سے ہوں۔

ہمارا 2018 جہالت کے اندھیروں کا سال نہ ہو بلکہ علم کی روشنیوں سے منور ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید وقار علی

سید وقار علی

مصنف سوشل سروسز پارٹنرشپ کے نیشنل کو آرڈینیٹر اور یوتھ کونسل پاکستان کے صدر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔