لودھراں کے نتائج پر عمران خان سے چند سوال
عمران خان کی سیاسی بقا اس وقت خطرہ میں لگتی ہے۔
BEIJING:
لودھراں کی ہار نے تحریک انصاف کی مقبولیت اور اس کے نظریہ سے انحراف کے حوالہ سے سنجیدہ سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ یہ بات سب مانتے ہیں کہ عمران خان کے تبدیلی کے نعرہ کو زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہوئی اور ان کا ووٹ بینک وجود میں آیا۔ لوگوں نے تبدیلی کی خواہش میں عمران خان کو اور ان کی جماعت کو ووٹ دینا شروع کیا۔ تبدیلی کا یہ نعرہ سب سے مقبول نعرہ ثابت ہوا ہے۔ نعرہ کی مقبولیت اور قبولیت نے ہی عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت کو پاکستان کی دوسری سب سے بڑی جماعت بنا دیا۔ کے پی کے میں حکومت دی اور عمران خان کو وزیر اعظم کا ایک مضبوط امیدوار بنا دیا۔
عمران خان کی سیاسی بقا اس وقت خطرہ میں لگتی ہے۔ ان کے حامی ووٹر ان سے ناراض ہو رہے ہیں۔ یہ بات اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت کے لیے خطرہ کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ ان عوامل پر نظر ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت میں کمی ہو رہی ہے۔
لودھراں کے انتخابات میں عمران خان نے جہانگیر ترین کے بیٹے کو ٹکٹ دے کر موروثی سیاست کے خلاف اپنے موقف کی خود ہی نفی کر دی۔ شائد عمران خان کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ان کے ووٹ بینک کی بنیاد میں موروثی سیاست کے خلاف نفرت ایک بنیادی جزو ہے۔ انھوں نے ملک میں موروثی سیاست کے خلاف ایک بڑی مہم چلائی تھی۔ وہ باپ کے بعد بیٹے کے نظام کے خلاف تبدیلی کا نعرہ لگا رہے تھے۔
ان کی جماعت کا سب سے بڑا نعرہ ہی یہ تھا کہ یہاں موروثیت نہیں ہے، عمران خان کے بعد ان کے بیٹے نہیں ہونگے۔ ایسے میں جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو ٹکٹ دے کر انھوں نے اپنی کئی سال کی محنت پر خود ہی پانی پھیر دیا اور اپنے سیاسی نظریہ کی خود ہی نفی کر دی۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد ان کے بیٹے کا آنا جائز ہے تو نواز شریف کے بعد مریم نواز کے آنے میں کیا حرج ہے۔ شائد عمران خان کو آج بھی اندازہ نہیں ہے کہ انھوں نے اپنا کتنا نقصان کر لیا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ جہانگیر ترین کے بعد ایک کارکن کو ٹکٹ دیا جاتا اور جہانگیر ترین اس کارکن کے لیے ووٹ مانگتے۔
لودھراں کے انتخابات میں ہار کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی اس کا سربراہ بھی جہانگیر ترین کو بنا دیا گیا ۔ بھئی آپ جہانگیر ترین کی موروثی سیاست کی وجہ سے ہی تو انتخاب ہارے ہیں۔آپ کے ووٹر نے آپ کے یوٹرن کو مسترد کر دیا۔ پھر آپ جہانگیر ترین کو ہی کمیٹی کا سربراہ بنا رہے ہیں ۔ جس وجہ سے ہارے ہیں اسی سے علاج ڈھونڈ رہے ہیں۔ ضروری تھا کم از کمیٹی تو ایسی بنا دی جاتی جو ناراض ووٹر کو منا لیتی جو اشک شوئی کر لیتی۔
میں یہ مانتا ہوں کہ صرف جہانگیر ترین کے بیٹے کو ٹکٹ دینا اکیلا ایسا عمل نہیں تھا کہ ووٹر ناراض ہو گیا۔ اس کے پیچھے بھی کافی عوامل تھے جن سے ووٹر کا ذہن بدل رہا تھا۔ یہ ماننا ہو گا کہ کے پی کے میں سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم نے بھی عمران خان کے ووٹر کو کے پی کے سے ناامید کیا ہے۔یہ ٹکٹ کے تبدیلی کے نعرہ کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتے۔
جب ٹکٹوں کی تقسیم پر سوال اٹھائے گئے تو عمران خان اس دلیل کے ساتھ سامنے آئے کہ پیسے والے لوگوں کو اس لیے ٹکٹ دئے گئے ہیں کہ انھوں نے پارٹی کو فنڈز دیے ہیں۔ کسی نے دھرنے میں فنڈز دیے تھے اس لیے اس کو ٹکٹ سے نواز دیا گیا۔ کسی نے ضمنی انتخابات میں پیسے خرچے تھے اس لیے اس کو ٹکٹ سے نواز دیا گیا۔ یہ تو ٹکٹ خریدنے والی بات ہو گئی۔
عمران خان کی جانب سے اس اقرار نے بلاشبہ پاکستان میں تبدیلی کی خواہش رکھنے والے نوجوان کے ارمانوں کا خون کر دیا ہے۔ یہ کیسی منطق ہے کہ اگر عمران خان کے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پیسے دیے جائیں تو جائز ہیں اور اگر ان کے سیاسی مقاصد کو ناکام بنانے کے لیے دیے جائیں تو ناجائز۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان کے پی کے میں سینیٹ کے ٹکٹ ان اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دیتے جنہوں نے گولڈ میڈل لیے ہیں۔ ریکارڈ بنائے ہیں۔ یہی وہ نوجوان تھا جو پاکستان میں تبدیلی لا سکتا ہے۔
اگر عمران خان دو ایسے نوجوانوں کو بھی تکٹ دے دیتے تو ان کی سیاسی غلطیوں پر بھی پردہ پڑ جاتا۔ اور لوگ یہ ماننے لگتے کہ وہ اپنے نظریہ کے ساتھ سچے ہیں۔ اب تو شکوک پیدا ہو گئے ہیں کہ عمران خان خود ہی اپنے نظریہ پر کاربند نہیں ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ انھوں نے پیسے کی سیاست کے خلاف اپنا ووٹ بینک قائم کیا ہے۔ انھوں نے پیسے کی سیاست کے خاتمہ کا نعرہ لگایا ، وہ خود اس کا کیسے شکارہو سکتے ہیں۔
عمران خان اس سے پہلے بھی اپنے نظریہ اور نعرہ سے انحراف کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان کے ووٹر نے اس کو برداشت کیا۔ عمران خان نے سب سے پہلے اعلان کیا کہ وہ اپنی جماعت میں کارکن کو با اختیار بنائیں گے۔ تحریک انصاف کے کارکن کو اس بات کا اختیار ہو گا کہ اپنی قیادت خود چن سکے۔ اس مقصد کے لیے پارٹی میں متعدد بات انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کے اعلانات کیے گئے۔ لیکن پھر عمران خان کو یہ اندازہ ہوا کہ اگر وہ پارٹی میں شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کروا دیں گے تو ان کے پارٹی کے بڑے بڑے لیڈر ہار جائیں گے۔ ان کا کارکن ان کی مرضی کے لوگوں کو ووٹ نہیں دے گا۔
پہلے انٹرا پارٹی انتخابات میں بھی پیسے چلنے کے الزامات سامنے آئے اور اس بار بھی ایسا ہی ہونے کی امید تھی۔ اس لیے عمران خان نے پارٹی کے کارکن سے اپنا لیڈر چننے کا اختیار چھین لیا۔ایک فرضی اور بالکل اسٹیٹس کو کی حامی باقی سیاسی جماعتوں جیسے انٹرا پارٹی انتخابات کروا دئے گئے۔ اس طرح تحریک انصاف بھی باقی جماعتوں کے رنگ میں ڈھل گئی۔ اس پر تحریک انصاف کا ووٹر بہت دکھی تھا۔ لیکن اس نے اس دکھ کو پی لیا۔
عمران خان بھٹو کے بعد غریب اور پڑھے لکھے طبقہ کے لیڈر بن گئے تھے۔ وہ کرپشن کے خلاف نعرہ لگا کر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف نفرت پیدا کر رہے تھے۔ وہ ایک ایسی تبدیلی کا نعرہ لگا رہے تھے جس میں میرٹ کا بول بولا ہونا تھا۔ لیکن عمران خان خود ہی اس سے انحراف کر گئے۔ وہ یہ بات سمجھ ہی نہیں سکے کہ جس طرح ایک لبرل سیاسی جماعت ایک انتہا پسند مولوی کو اپنی جماعت میں اگلی صفوں میں نہیں بٹھا سکتی۔ ایک مذہبی دینی جماعت ایک لبرل سیکولر اور لا دین خاتون کو اپنا لیڈر نہیں بنا سکتی۔ اس طرح عمران خان پیسے والوں کے خلاف نفرت پیدا کر کے پیسے والوں کو ہی اپنے ارد گرد جمع نہیں کر سکتا۔ جیتنے والے گھوڑوں کی سیاست سب عمران خان کے سیاسی نظریہ کی نفی تھی۔
بات یہی تھی کہ ان کے ارد گرد پیسے والوں نے عمران خان کو قائل کر لیا کہ وہ ان کے پیسے کے بغیر جیت نہیں سکتے۔ ان کے پیسے کے بغیر منزل کا حصول ممکن نہیں۔ جس کی وجہ سے عمران خان مرحلہ وار اپنے نظریہ سے دور ہوتے گئے۔ اور پیسے پر ان کا انحصار بڑھتا گیا۔ اور یہ ایک میٹھا زہر تھا۔ اس میٹھے زہر نے جہاں عمران خان کو اپنا اسیر کر لیا وہاں ووٹر کو بھی زہر نے بد ظن کر دیا۔ یہ اب نظر آرہا ہے۔
عمران خان نے پڑھی لکھی نئی قیادت آگے لانے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ اپنے وعدہ سے بھی انحراف کر گئے۔ اور ایک بھی مثال ایسی نہیں ہے کہ انھوں نے کسی کو اس لیے تحریک انصاف میں اعلی مقام دیا ہوکہ اس نے کسی میدان میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ملک میں احتساب کا نعرہ لگانی والی جماعت اپنے اندر احتساب کا کوئی نظام قائم نہیں کر سکی ہے۔ کے پی کے کی حکومت بھی کوئی مثالی احتساب نہیں کر سکی۔ پارٹی میں جمہوریت قائم نہ ہو سکی۔ لوگوں سے سوال کرنے والا اپنے ساتھ سوال کرنے کو برا منانے لگا۔ کچن کیبنٹ کا معیار پیسہ ہو گیا۔
عمران خان کے پاس اب وقت کم ہے۔ انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ انھیں سمجھنا ہو گا کہ اب ان کا ٹاسک سیاسی مخالفین کو گرانا نہیں ہے بلکہ سب سے پہلا ٹاسک روٹھے ہوئے ووٹر کو منانا ہے۔ نظریہ پر واپس آنے کے بعد اپنا احتساب کرنا ہو گا۔ نئی قیادت سامنے لانا ہوگی۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو پارٹی کی قیادت دینا ہو گی۔ وقت کم ہے۔