پاک افغان براہ راست بات چیت کا آغاز

اصغر خان عسکری  اتوار 18 فروری 2018
خونریزماہ جنوری کے بعد براہ راست مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل، کیا امن عمل کی راہ میں رکاوٹیں دورہوگئیں؟ فوٹو: فائل

خونریزماہ جنوری کے بعد براہ راست مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل، کیا امن عمل کی راہ میں رکاوٹیں دورہوگئیں؟ فوٹو: فائل

سن 2018ء کا پہلا مہینہ  پورے افغانستان کے لئے انتہائی خون ریز رہا۔اس مہینے میں پوری دنیا میں دہشت گر دی اور تخریب کاری کے تقریباً145 واقعات رونما ہوئے جس میں سے27 افغانستان میں پیش آئے۔

جنوری میں افغانستان میں دہشت گردی کے3 سانحات نے افغانستان سمیت پوری دنیا کو ہلا کر رکھا دیا تھا۔ 20 جنوری کو دہشت گردوں نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں انٹر کانٹی نینیٹل ہوٹل پر حملہ کیا جس میں 46 افراد جاں بحق جبکہ 22 سے زائد زخمی ہوئے ۔حملہ کی ذمہ داری افغان طالبان نے قبول کی، افغان حکومت نے الزام لگا یاہے کہ اس حملہ میں حقانی نیٹ ورک ملوث ہے۔

ابھی کابل سوگ ہی میں تھا کہ چند دن بعد 24 جنوری کو دہشت گر دوں نے پاکستان کے ساتھ متصل افغان صوبہ ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے دفتر کو نشانہ بنا یا ۔اس حملہ میں 6 افراد جاں بحق جبکہ 27 زخمی ہو ئے تھے۔ افغانستان کے عوام جلال آباد کے ما تم سے فارغ نہیں ہو ئے تھے کہ دہشت گر دوں نے کابل میں وزارت داخلہ کی پرانی عمارت کے سامنے بارود بھری ایمبو لینس اڑا دی جس میں 100سے زیادہ لوگ مارے گئے جبکہ 200 سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے۔

افغانستان سوگ اور ماتم میں ڈوبا ہو ا تھا، پورے افغانستان میں انسانی خون اور اعضا بکھرے پڑے تھے، افغان حکومت سکتے کے عالم میں تھی کہ اچا نک افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے ایک خصو صی وفد اسلام آباد بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔31 جنوری کو یہ وفد افغانستان کے وزیر داخلہ اویس احمد بر مک کی قیادت میں اسلام آباد پہنچا۔ ان کے ساتھ اس وفد میں افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سربراہ معصوم ستانکزئی بھی شامل تھے۔ افغانستان کے وفد نے اسلام آباد میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور عسکری حکام  سے ملا قات کی۔

اس ملاقات میں جنوری میں افغانستان میں ہونے والے دہشت گر دی کے خون ریز واقعات پر بات چیت ہو ئی، ملا قات کے دوران یہ اہم فیصلہ بھی کیا گیا کہ دہشت گر دی کے خلاف جاری اس جنگ سے نکلنے کے لئے اب اسلام آباد اور کابل کو براہ راست بات چیت کرنی ہوگی۔دونوں فریقین نے اس پر رضا مندی ظاہر کی۔بر اہ راست بات چیت کو آگے بڑھانے کے لئے فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کا وفد کابل کا فوری طور پر دورہ کریگا۔ اس دورے کا بنیادی مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان مشترکہ ورکنگ گر وپ کوفعال کر نا تھا۔ تین فروری کو سیکرٹری خا رجہ تہمینہ جنجوعہ کی قیادت میں اعلیٰ سول و ملٹری حکام پر مشتمل وفد نے کابل کا دورہ کیا۔کابل میں وفود کی سطح پر ملا قاتیں ہوئیں۔افغانستان کے وفد کی قیادت نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے کی ۔اس ملا قات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مشترکہ ورکنگ گر وپ کو فعال کیاجائے گا۔ اسلام آباد میں پاکستانی وفد کے ساتھ ملا قات میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ بر اہ راست بات چیت اور باہمی اعتماد سازی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے پر بے جا الزامات سے اجتناب کیا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ممالک مستقبل میں کس حد تک اس عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔

کابل ملا قات پر دفتر خارجہ کا اعلامیہ
تین  فروری کو پاکستان اور افغانستان کے سول اور ملٹری حکام کے درمیان کابل میں ہو نے والی ملا قات پر دفتر خارجہ نے اعلا میہ جاری کرتے ہوئے بتا یا کہ اس ملا قات میں دہشت گردی ،تشدد میں کمی ،امن بات چیت ،افغان مہا جرین کی وطن واپسی اور مشترکہ معاشی ترقی کے موضوعات پر بات چیت ہوئی ہے۔اعلامیہ میں مزید کہا گیا تھا کہ مذاکرات مثبت ماحول میں ہوئے ہیںجبکہ دونوں ممالک نے افغانستان، پاکستان ایکشن پلان برائے یکجہتی پر مثبت پیش رفت کی ہے۔ تاہم اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابھی چند اہم معاملات پر دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق رائے ہونا باقی ہے ۔ ان اہم معاملات پر اتفاق رائے پیدا کر نے کے لئے دونوں ملکوں کے سول اور ملٹری حکام کے درمیان ملاقات اسلام آباد میں اس وقت ہوگی جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہونگے۔

براہ راست مذاکرات میں کن امور پر فوری بات چیت کا امکان ہے؟
٭محفوظ سرحد: پاکستان کو ہمیشہ افغانستان سے شکایت رہی ہے کہ سرحد محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد با آسانی سرحد کے اس پار داخل ہو جاتے ہیں،اس لئے دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان نے پاک افغان سرحد کو محفوظ بنا نے کیلئے عملی طور پر باڑ لگانے اور سرحد پر فوجی چوکیاں قائم کرنے کا کام شروع کردیا ہے لیکن ساتھ ہی اسلام آباد کو شکایت بھی ہے کہ کابل اور واشنگٹن دونوں اس منصوبہ میں تعاون نہیں کر رہے ہیں۔ جب براہ راست مذاکرات ہوںگے تو محفوظ سرحد کے منصوبہ پر ضرور بات چیت ہوگی۔ اسکے بر عکس افغانستان کا بھی کہنا ہے کہ سرحد پر مر بوط نظام نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک اس اہم مسئلہ کو حل کرنے میں کس طر ح اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں،یقینی طور پریہ دونوں ممالک کے سول اور ملٹری حکام کے لئے ایک بہت بڑا امتحان ہے۔

٭ افغان مہاجرین کی وطن واپسی: غیرمحفوظ سرحد کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوسرا بڑا سنگین مسئلہ افغان مہا جرین کی وطن واپسی ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ افغان مہا جرین کی وجہ سے پاکستان کو افغانستان سے آنے والے دہشت گر دوں کی شناخت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہاں سے آئے ہوئے دہشت گردوں کے سہولت کار مہاجرکیمپوں میں مو جود ہیں جو دہشت گر دوں کو پناہ دیتے ہیں۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد چونکہ کیمپوں سے باہر اقامت پذیر ہے اس لئے پاکستان کو یہ بھی شکایت ہے کہ یہی دہشت گرد کیمپوں سے باہر افغان مہا جرین کے گھروں میں پناہ لیتے ہیں۔اس لئے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ  بر اہ راست بات چیت میں پاکستان اس مسئلہ پر کابل سے حتمی بات کرسکتا ہے۔

٭جامع ویزہ پالیسی: پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی جامع ویزہ پالیسی مو جود نہیں، لہذا امکان ہے کہ براہ راست مذاکرات میں اس مو ضوع پر بھی بات چیت ہو۔خصوصاً پاکستان اور افغانستان کے وہ صوبے اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علا قہ جات(فاٹا) کی وہ ایجنسیاں جن کی سرحدیں باہم مل رہی ہیں،وہاں کے عوام کو روزانہ کی بنیاد پر پاکستان سے افغانستان میں اور افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو نے کے لئے کو ئی منصوبہ بندی یا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔اسی طر ح تجارت پیشہ افراد،طالب علموں، مریضو ں اور ان افراد کے لئے بھی ویزہ پالیسی پر بات چیت ہوگی جن کی دونوں طرف رشتہ داریاں ہیں۔

٭دوطرفہ تجارت کے فروغ  کا معاملہ
اس وقت پاکستان طورخم اور چمن بارڈر پر افغانستان کے ساتھ تجارت کر رہا ہے۔اس کے علاوہ وفاق کے زیر انتظام قبا ئلی علا قہ جات(فا ٹا) میں بھی مختلف مقامات پر مقامی تجارت کے لئے کئی راستے موجود ہے۔طورخم اور چمن بارڈر سے اگر ایک طرف بین الاقوامی تجارت ہو رہی ہے تو دوسری طرف مقامی افراد بھی روزانہ کی بنیاد پر سرحد کے دونوں اطراف تجارت کر تے ہیں لیکن ابھی تک اس کے لئے کوئی منظم طریق کار  نہیں بنا۔اس لئے حالات خراب ہو جانے کے بعد مقامی افراد کو کئی مہینوں تک تجارت میں مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ امکان یہی نظر آرہا ہے کہ بر اہ راست مذاکرات میں دونوں ممالک ایک طرف بین الاقوامی تجارت،آپس میں تجارتی سرگرمیاں بڑھانے پر بات چیت کریں گے تو یہ بھی امکان ہے کہ مقامی تجارت کو فروغ دینے کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں۔

٭افغان طالبان ،حقانی نیٹ ورک اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا معاملہ
پاکستان کو افغانستان سے شکایت ہے کہ کالعد م تحریک طالبان پاکستان منظم تنظیم کی شکل میں وہاں پر موجود ہے لیکن کابل،امریکا اور ان کے اتحادی ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ اسی طر ح افغانستان اور امریکا کو پاکستان سے شکایت ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف اسلام آباد کو ئی کارروائی نہیں کررہا ہے۔ لہذا براہ راست مذاکرات میں دونوں ممالک افغان طالبان ،حقانی نیٹ ورک اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں مشترکہ لائحہ عمل پر مشاورت کر سکتے ہیں۔

٭پارلیمانی،سفارتی اور عسکری سطح پر رابطوں کا فروغ : ریاستوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں پارلیمانی،سفارتی اور عسکری رابطوں کو بنیادی حیثیت حا صل ہے۔ جن ریاستوں کے درمیان پارلیمانی ،سفارتی اور عسکری سطح پر رابطے مضبوط ہوں تو ان کے تعلقات میں بھی مضبوطی پائی جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان اور افغانستان مستقل طور پر پارلیمانی ،سفارتی اور عسکری سطح پر رابطوں کو فعال بنا نے پر متفق ہو جائیں۔

٭با ہمی اعتماد سازی کے لئے ما حول کو ہموار کرنا: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی خرابی میں ایک اہم رکاوٹ با ہمی اعتماد سازی کی کمی بھی ہے۔مو جودہ صورت حال میں اعتماد سازی کے لئے فضا کو ہموار کر نا یقینی طور پر دونوں ممالک کے لئے بہت بڑا امتحان ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بر اہ راست مذاکرات اور مو جود خطرات: جہاں ایک طر ف پاکستان اور افغانستان کے درمیان بر اہ راست بات چیت کا امکان خوش آئندہے ،وہاں بہت سارے خطرات اور مشکلات بھی ہیں۔سب سے بڑا خطرہ صدر ڈاکٹر غنی اور سی ای او ڈاکٹر عبداللہ کے درمیان اختلافات ہیں۔کیا ڈاکٹر غنی اور ڈاکٹر عبداللہ پاکستان کے ساتھ تصفیہ طلب مسائل کے حل پر متفق ہو جائیںگے؟یہی وہ بنیادی سوال ہے، جس کے جواب پر براہ راست مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے۔ افغانستان کے مسئلہ کا ایک فریق امریکا بھی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان براہ راست مذاکرات میں کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں تو کیا امریکا کو وہ حل قبول ہوگا؟ساتھ اس بات کی ضمانت کون دیگا کہ دوسرا بنیادی فریق افغان طالبان اسلام آباد اور کابل کے بیانیہ کو تسلیم کریں گے؟

اس وقت حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یار گلبدین بھی کابل میں مو جود ہیں، وہ بھی سیاسی عمل میں بھر پور کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ براہ راست مذاکرات کے نتیجے میں تیار کردہ امن مسودہ کو وہ کس حد تک تسلیم کر تے ہیں؟پاکستان اور افغانستان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے بارے میں ایک خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ مو جودہ افغان حکومت کایہ آخری سال ہے ،وہ چند مہینے امن کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے۔اس لئے انھوں نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ طور پر امن بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ چند مہینے گز رنے کے بعد معاملات پر اسی نہج پر چلے رہیں گے  کیونکہ ہندوستان اور افغانستان میں انتخا بی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان پر زیادہ سے زیادہ تنقید کی جائے۔ بہر حال صورت حال آنے والے چند مہینوں میں واضح ہو جائے گی کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان براہ راست امن مذاکرات کا مستقبل کیا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔