- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
توجہ ہرعورت کو اچھی لگتی ہے
ڈرامے کے ڈائلاگ ’’توجہ ہر عورت کو اچھی لگتی ہے‘‘ میں مجھے بہت حد تک حقیقت نظر آئی، بحثیت عورت میں نے بھی اپنے اندر اس چیز کو کئی بار محسوس کیا۔ عورت کو ہمیشہ سے توجہ کا مرکز بننا اچھا لگتا ہے، یہ عورت کی فطری کمزوری سمجھ لیں یا اس کے نفس کا لالچ، لیکن وہ ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل میں بھی داد وصول کرنا چاہتی ہے اور حوصلہ افزائی کی منتظر رہتی ہے۔ اس چھوٹی سی تمنا کی تکمیل کےلیے طرح طرح کے جتن کرتی نظر آتی ہے۔ کبھی من پسند کھانے بنا کر تو کبھی خوبصورت لباس زیب تن کرکے، تو کبھی اپنی دماغی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے۔ ہر صورت میں وہ اپنی ذات کو محور بنا کے اپنے اردگرد کے کرداروں سے بس توجہ ہی تو چاہ رہی ہوتی ہے۔
لیکن عورت اس توجہ کے معاملے میں ہمیشہ سے بڑی جلدباز واقع ہوئی ہے۔ اس کو حوصلہ افزائی اور داد کی وصولی فوراً چاہیے ہوتی ہے۔ اور چاہیے بھی تصدیق شدہ، شائشتہ الفاط کی ادائیگی کی صورت میں۔ جبھی یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سوشل میڈیا پہ عورتیں اپنی تصاویر مردوں کے مقابلے میں زیادہ پوسٹ کرتی ہیں، جہاں انہیں اپنی چھوٹی سی ’’سیلفی کاوش‘‘ کا صلہ چند سکینڈز میں لائیکس اور حوصلہ افزاہ کمنٹس کی صورت میں مل جاتا ہے، اور یہی اس کے ذہنی اعصاب کو سکون بخشتا ہے۔
عورت کےلیے عصرِحاضر کے تقاضوں میں اچھی گفتگو، پختہ سوچ، بھلی شکل و صورت، عمدہ لباس اور کیرئیر اورینٹڈ ہونا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جیسے جیسے انسان ماڈرن ازم کی طرف آیا، عورتوں کی خوبیوں اور صلاحیتوں کے معیار بھی بدلتے چلےگئے۔ اب روٹی چولہا، سلیقے سے گھر داریا اور بچے پال لینا کوئی خاص معیار نہیں رہا۔ میڈ، کلینر، کُک، خانساماں کی صورت میں ہر کام کا متبادل وجود میں آچکا ہے۔ یہ ہماری ماؤں کا زمانہ تھا جب دن بھر روٹی چولہا کرکے ایک داد کی منتظر ہوتی تھیں کہ آج کھانے میں نمک بالکل برابر تھا۔
آج کی عورت کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کےلیے خاصے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اکثر عورتیں یہ کام صرف توجہ کے حصول کےلیے نہیں کر رہی ہوتیں، بلکہ وہ اپنی تمام تر کوشش اور جدوجہد کے بعد داد کی وصولی کی منتظر ضرور ہوتیں ہیں اوراپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پہ توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔
لیکن کچھ عورتوں کےلیے یہ توجہ لاحاصل تمنا بن جاتی ہے۔ پھر اس تمنا کو پا لینے کےلیے وہ اپنے اندر کچھ ایسا تلاش کرتی ہے، جو فوراً سب کی توجہ کا مرکز بن جائے۔ اس ضمن میں وہ عورت اپنے اندر کئی صلاحتیں ڈھونڈ نکالتی ہے۔ فطری، ذہنی، جسمانی اور جذباتی۔ ایسی عورتوں کی جلد باز فطرت بغیر ذہنی و دماغی محنت کے کچھ شارٹ کٹ راستے تلاش کرتی ہے۔ اور ایسے میں اس کے پاس اپنی سب سے قیمتی شے اس کا جسم ایسا محور ہوتا ہے جس کی وہ سرِعام نیلامی کرتی ہے۔
اس ضمن میں خاص کر مغرب کی عورت کا ایک سرسری سا جائزہ لیا جائے تو اُس معاشرے میں اب کوئی ایسی چیز نہیں رہی جو مرد کے مقابلے میں عورت نہ کرسکے۔ مرد و عورت کی کام کرنے کی صلاحتیں تقریباً ایک جیسی ہو چکی ہیں، سوائے جنسی خدوخال کے کوئی خاص فرق نہیں رہا۔ ایسے میں عورت اسی فرق کو زیادہ نمایاں کرنے کے درپے ہے جو اسے مردوں سے مختلف بناتا ہے۔ تبھی آج مغرب کی عورت لباس کو مختصر سے مختصر کرکے توجہ کا مرکز بنتی نظر آتی ہے۔
،مرد عورت کے جسم کی وجہ ہی سے تو اس کی طرف سب سے زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ مرد کی فطرت ہے کہ وہ عورت کو اس کے ظاہری حسن کی وجہ سے پسند کرتا ہے دوسرے الفاظ میں مرد کی جنسی خواہش عورت کے ظاہری خدو حال اور جسمانی خوبصورتی دیکھ کر ہی جاگتی ہے۔ بے شک ہر مرد کا معیار اور اس کی فطرت الگ ہوتی ہے، لیکن بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کِم کردیشان ہے، جس نے اپنے علم یا دماغی صلاحیت سے اپنا آپ نہیں منوایا بلکہ اپنے جسمانی خدوخال کو مختلف سانچوں میں ڈھال کے وہ آئے روز مختلف اخبار و میگزین کے سرِورق کی زینت بنی رہتی ہے۔
یہ مغربی معاشرے کے وہ ڈارک شیڈز ہیں جسے آزاد معاشرے کا نام دے کر، جس میں عورت کسی قید کے بغیر آزاد زندگی بسر کر رہی ہے، کی تقلید کی طرف ہمیں مائل کیا جاتا ہے۔ جب معاشرے کے اصول فطرت سے ہٹ کے انسان کے ایجاد کردہ معیار پہ رکھ دیا جائے تو فراق کے کئی راستے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ حرص، بھڑاس، خود غرضی اور مفاد پرستی کے حصول کی کشمکش نے مغربی معاشرے کا سارا توازن ہی بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ ایک توجہ حاصل کرنے کا حریص بن کے رہ گیا تو دوسرا جنسی خواہشات کا بے لگام گھوڑا بنے ہر وقت ہانپتا پھرتا ہے۔ دونوں بغیر نکیل کے نام نہاد آزاد معاشرے میں کیسی آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ خواہشات و خیالات پہ مبنی آزاد زندگی۔ بغیر کسی قیدو بند کے دو آزاد جنس اپنے اپنے مفاد کے حصول میں گامزن۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔