تعلیم یافتہ بمقابلہ ڈگری والے

عطا مہر  بدھ 14 مارچ 2018
کیا ہمارے فارغ التحصیل طلبائ اس معیار پر پورے اترتے بھی ہیں یا نہیں کہ وہ تعلیم یافتہ کہلائے جاسکیں؟
فوٹو: انٹرنیٹ

کیا ہمارے فارغ التحصیل طلبائ اس معیار پر پورے اترتے بھی ہیں یا نہیں کہ وہ تعلیم یافتہ کہلائے جاسکیں؟ فوٹو: انٹرنیٹ

سماجی ماہرین کے مطابق، روئے زمیں پر زندگی گزارنے کےلیے انسان کو جو بنیادی ضروریات درکار تھیں ان میں سب سے اہم و اولین رہنے کےلیے گھر، پہننے کےلیے لباس اور پیٹ کی آگ بجھانے کےلیے غذا ہیں۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں ترقی کی راہیں کھلتی گئیں اور انسان وقتِ حاضر سے ہم آہنگ ہوتا گیا تو سماجی ماہرین بھی انسان کی بنیادی ضروریات میں تردد کرنے کےلیے نہ صرف ناچار ہوئے بلکہ ان کی دستیابی کو ہرشخص کی بنیادی حقوق میں شامل بھی کرگئے، جن کی ترسیل و فراہمی ریاست و مملکت کے کاندھوں پر آ کر ٹھہر گئی۔ ان میں باقی ماندہ ضروریات کے ساتھ ساتھ صحت و تعلیم بھی شامل کرلی گئیں کیونکہ انسان آج اُس مقام پر آن پہنچا ہے جہاں مؤثر زندگی شب و روز کرنے کےلیے صرف صحت مند جسم ہی نہیں بلکہ صحت مند ذہن بھی درکار ہے۔

مقصد گفتگو بنیادی ضروریات کی اس بازگشت میں وہ ضرورت ہے جس کے بطن سے باقی ضروریات کا نہ صرف فہم و ادراک حاصل ہوتے ہیں بلکہ یہ ان کے حصول و تکمیل کا بھی باعث بنتی ہے۔

تعلیمی تناظر کے اعتبار سے پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ہر سال 5 لاکھ گریجویٹس طلبا و طالبات فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں؛ جبکہ انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ان کی تعداد دگنی ہے۔ اسی طرح ماسٹرز اور ایم فل کی سطح پر بھی سالانہ فارغ التحصیل طلبا و طالبات کی شرح خاصی تسلی بخش ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ ان گریجویٹس، ماسٹرز اور اسکالرز کی تعداد میں مزید اضافہ کیسے کیا جائے؛ بلکہ سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ جو سالانہ گریجویٹس، ماسٹرز اور اسکالرز پیدا ہورہے ہیں، یہ اس معیار پر پورے اترتے بھی ہیں یا نہیں کہ وہ تعلیم یافتہ کہلائے جاسکیں؟

آئیے ذرا آئینے کے رُوبرُو

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و تہذیب، المعروف ’’یونیسکو‘‘ کے مطابق خواندگی سے مراد ’’کسی بھی تحریری یا زبانی مواد کو پہچاننے، سمجھنے، تشریح کرنے، تخلیق کرنے، رابطہ کاری اور شمار کرنے کی صلاحیت‘‘ ہے۔

ایک لمحے کےلیے آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ آپ کی نظر میں، آپ کے آس پاس، ارد گرد، اور آپ کے رابطے میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو ایک طرف انٹرمیڈیٹ، گریجویٹ، ماسٹرز اور اسکالرز کی ڈگری تھامے ہوئے ہیں مگر دوسری جانب اقوام متحدہ کے مطابق خواندگی کی اس تعریف پر پورے نہیں اترتے؛ اور ان تقاضوں کی تکمیل کے اہل نہیں۔ اب اس صورتحال میں اگر وہ کچھ کہلائے جانے کے مستحق ہوں گے تو صرف اور صرف ’’ڈگری یافتہ‘‘ نہ کہ ’’تعلیم یافتہ۔‘‘

اس صورتحال میں یہ جاننے کےلیے کہ ساری خامی کہاں واقع ہے اور پوری خرابی کس میں ہے، صرف یہی ایک مثال کافی ہوگی:

میرے ایک دوست نے، جو آج کل ایک ایک نجی اسکول کے پرنسپل ہیں، ایک غیرسرکاری فلاحی تنظیم (این جی او) کا قصہ سنایا۔ اس تنظیم کا کام ایسے غریب، مستحق اور ضرورت مند نوجوانوں کی تعلیمی کفالت کرنا ہے جو ازخود اپنے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ تنظیم انہیں پرائمری سے لے کر اعلی سطح کی تعلیم تک، بطور ادھار، اپنے خرچ پر دلواتی ہے۔ بعد میں جب یہی طلباء تعلیم سے فراغت کے بعد کہیں روزگار حاصل کرلیتے ہیں، تب وہ اپنی ماہانہ آمدنی میں سے ایک چھوٹا حصہ اس تنظیم کو اپنا ادھار چکانے کی غرض سے دیتے ہیں۔

میرے دوست اسی فلاحی تنظیم کے کسی پروگرام میں شریک تھے۔ پروگرام کے اختتام پر سوال جواب کا سیشن شروع ہوا اور اس سیشن میں ایک نوجوان نے ایسا سوال پوچھا جو لگ بھگ پروگرام کے تمام شرکاء کے ذہنوں میں بھی تھا اور فلاحی تنظیم کے راہنما نے اس سوال کا ایسا جواب دیا جو پورے پروگرام کا خاصّہ بن گیا۔

سوال کچھ یوں تھا کہ جناب! آپ ایک شخص کو اس شرط پر پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک اپنے خرچ پر تعلیم دلواتے ہیں کہ وہ بہ وقت روزگار آپ کی ساری رقم بطور قرض اُتارے گا؛ لیکن اگر کوئی شخص تعلیم سے فراغت کے بعد ہاتھ سے نکل جائے یا اپنی تعلیم پر خرچ کی ہوئی رقم لوٹانے کےلیے تیار نہ ہو تو آپ کیا کریں گے؟

فلاحی تنظیم کے ذمہ دار نے جواب میں کہا کہ اگر کوئی ایسی صورتحال پیش آتی ہے کہ ہمارے ادارے کے توسط سے پڑھ لکھ کر فارغ التحصیل ہونے کے بعد کوئی نوجوان رقم لوٹانے کےلیے تیار نہ ہو، تو یہ اس نوجوان کا گناہ و قصور نہیں بلکہ ہماری بدقسمتی ہوگی کہ ہم اس نوجوان کو ایسی تعلیم دلوانے میں ناکام رہے جو اسے صحیح اور غلط کا شعور دے سکے، اچھے اور برے کی پہچان کراسکے اور جائز و ناجائز کی تمیز عطا کرسکے۔

بالکل اسی طرح کسی ملک کے بچے اگر 14 یا 16 سال علم حاصل کرنے کے بعد بھی تعلیمی معیار پر پورا اترنے سے قاصر رہیں تو یہ ان کی غلطی یا کوتاہی نہیں بلکہ سمجھ جائیے ’’کونو رانگ نمبر ان کی پھرکی لے ریا تھا‘‘ تبھی تو وہ اپنی اصل منزل تک پہنچ ہی نہ پائے اور یہاں ایسا کوئی نظام رائج ہے جو انہیں ’’اچھی تعلیم‘‘ کے نام پر ’’ماموں‘‘ بنارہا ہے۔

اور ایسا اس لیے ہے کہ ہم نے تعلیم کےلیے پالیسیاں تو بنادیں، بلند بانگ دعوے تو فرما گئے، اسے آئین کے ایک گوشے میں جگہ تو دے سکے، لوگوں کی بنیادی ضروریات میں اسے شامل تو کرگئے مگر ریاست کی بنیادی ترجیحات میں اسے شامل نہ کرنے کی ہم سے بھول ہوئی اور نتیجتاً آج، اکیسویں صدی میں، ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت تو بن گئے مگر تعلیمی میدان میں 221 ممالک میں سے ہمارا 180 واں نمبر ہے۔ یہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہم بنیادی تعلیم کے میدان میں پچاس سال جبکہ ثانوی تعلیم کے میدان میں ساٹھ سال پوری دنیا سے پیچھے ہیں یعنی آج بھی ہم اسی نہج پر کھڑے ہیں جہاں بیسویں صدی کے وسط میں قیامِ پاکستان کے وقت کھڑے تھے۔

یہ شاید اس لیے ہے کہ ہمیں اس مملکت خداداد کو چلانے کےلیے ’’اندھی مقلد‘‘ رعایا کی ضرورت ہے نہ کہ تعلیم یافتہ شہریوں کی؛ اور یہ صورتحال اس وقت تک نہ صرف بدستور برقرار رہے گی بلکہ نیچے گرتی رہے گی کہ جب تک ہم موجودہ نظام تعلیم کی خامیوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرتے ہوئے، اسے موجودہ و جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عطا مہر

عطا مہر

بلاگر جامعہ کراچی میں زیر تعلیم، بلوچستان کے باسی نوجوان ہیں۔ لکھنا ان کا شوق ہی نہیں بلکہ پہچان اور شناخت بھی ہے۔ تعلیمی صورتحال پر باریک بینی و یکسوئی سے قلم آزمائی کرتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔