روس چین اتحاد سے خائف مغرب

سید عاصم محمود  اتوار 8 اپريل 2018
مغربی دنیا سے مشرقی طاقتوں کی طرف سرکتے طاقت کے توازن نے نئی سرد جنگ چھیڑدی۔ فوٹو: فائل

مغربی دنیا سے مشرقی طاقتوں کی طرف سرکتے طاقت کے توازن نے نئی سرد جنگ چھیڑدی۔ فوٹو: فائل

26 مارچ کو دنیائے مغرب کے اکیس ممالک نے روس سے تعلق رکھنے والے ایک سو پندرہ سفارت کار ملک بدر کردیئے۔ یہ واقعہ اس لحاظ سے بھی نمایاں ہوا کہ عالمی سفارت کاری کی تاریخ میں پہلی بار اتنے زیادہ ممالک نے سو سے زائد سفارت کار نکال باہر کیے تھے۔اس واقعے کا براہ راست تعلق 15 مارچ کو ہونے والے ایک واقعے سے ہے۔ اس دن برطانیہ میں مقیم سابق روسی انٹیلی جنس آفیسر، کرنل سرگئی اسکریپال اور اس کی بیٹی کو بذریعہ اعصابی گیس مارنے کی کوشش ہوئی۔

برطانیہ نے دعویٰ کیا کہ اس قاتلانہ حملے کے پیچھے روسی حکومت ہے۔ روس نے اس امر سے انکار کیا تاہم برطانوی حکومت نے بطور احتجاج روسی سفارتکار نکال دیئے۔ روس نے بھی جواب میں برطانوی سفارت کار وں کونکال دیا۔

بعدازاں برطانیہ نے اپنے اثرو رسوخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوست ممالک کے ذریعے روسی سفارتکار نکلوا دیئے۔روس نے بھی ان ملکوں کو منہ توڑ جواب دیا ۔یوں سفارتکار نکالنے کے معاملے نے جنگ جیسی صورت اختیار کر لی۔پچھلے چند برس سے روس اور امریکا کے درمیان مختلف عالمی معاملات پر چپقلش جاری ہے۔ تاہم یورپی ممالک نے دونوں بڑی طاقتوں کی محاذ آرائی کے دوران کوئی واضح مؤقف نہیں اپنایا۔ مگر بیسیوں روسی سفارت کار نکالنے کا غیر معمولی اقدام عیاں کرتا ہے کہ اکثر یورپی ممالک اب اپنے لیڈروں… امریکا اور برطانیہ کی حمایت کرنے لگے ہیں۔ اس حمایت کی وجہ بدلتا عالمی منظر نامہ ہے۔ اس منظر نامے کے باعث دنیا میں طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی سمت منتقل ہورہا ہے۔ لہٰذا یہ تبدیلی روکنے اور اپنے آپ کو طاقت ور بنانے کی خاطر مغربی ممالک متحد ہورہے ہیں۔

مشرق میں معاشی، عسکری اور سیاسی طاقت کا منبع چین اور روس بن چکے۔ حال ہی میں یہ حقیقت سامنے آچکی کہ کم از کم ایک عشرے تک اقتدار چینی صدر، شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ہاتھوں میں رہے گا۔ لہٰذا دس برس تک انہی دونوں لیڈروں کی وضع کردہ پالیسیوں کا راج رہنے کا امکان ہے۔ یہ پالیسیاں چین اور روس دونوں کو بڑی معاشی و عسکری طاقتیں بناسکتی ہیں۔امریکا اور اس کے اتحادی مگر چینی اور روسی صدر کو ’’آمر‘‘ اور ’’بادشاہ‘‘ کے خطاب دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خصوصاً چین اپنے عظیم الشان منصوبے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے ذریعے دنیا پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے خاص طور پر امریکا و برطانیہ اس چینی منصوبے کے سخت ناقد بن چکے ہیں۔ انہیں یہ خطرہ نظر آرہا ہے کہ چین اور روس کی طاقت بڑھنے سے دنیا پر ان کے اثرور رسوخ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لہٰذا امریکا اور برطانیہ اپنے مشرقی معاصرین (چین و روس) کے خلاف خفیہ و عیاں سازشوں کا آغاز کرچکے ہیں۔ اس بدلتی صورت حال کو ’’نئی سرد جنگ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔

اس نئے مجادلے کی خاصیت یہ ہے کہ جنگ کے فریقین حتیٰ الامکان ایک دوسرے پر چوری چھپے جانی، مالی، معاشی اور سیاسی حملے کریں گے۔ ان حملوں کا مقصد دشمن کو کسی نہ کسی طرح کمزور کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر کرنل سرگئی اسکریپال پر حملہ ’’فالز فلیگ اٹیک‘‘ یا گمراہ کن حملہ ہوسکتا ہے۔ ایسے حملے میں ایک ملک کی خفیہ ایجنسیاں اپنے ہاں کوئی دہشت گردی کا واقعہ کرواکر اس کا ذمے دار دشمن کو قرار دیتی ہیں۔

یہ عین ممکن ہے کہ امریکا یا برطانیہ کی کسی خفیہ ایجنسی نے سابق روسی انٹیلی جنس اہلکار پر قاتلانہ حملہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ روس اور نیٹو (مغربی) ممالک کے مابین تعلقات خراب کیے جاسکیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو امریکا اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیاں اپنا مقصد پورا کرنے میں کامیاب رہیں۔ روس نے اعلان کیا ہے کہ جن یورپی ملکوں نے روسی سفارت کار نکالے ہیں،انھیں موزوں وقت پر کرارا جواب دیا جائے گا۔

کرۂ ارض پر جنم لیتی نئی سرد جنگ کی نوعیت خفیہ رہنے کا ہی امکان ہے۔ وجہ معاشی مفادات ہیں۔ دراصل آج عالمی تجارت نے سبھی ممالک کو ایک دوسرے سے باندھ دیا ہے۔ لہٰذا خصوصاً بڑی مخالف قوتیں ایک دوسرے پر کھلے حملے کرنے سے گریز کرکے چوری چھپے وار کرتی ہیں۔ ظاہر ہے، کھلی جنگ کرنے سے ان کے تجارتی و معاشی مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا۔

روس کا معاملہ ہی لیجیے۔ اس کے دس بڑے برآمدی ممالک میں چھ ملک (ہالینڈ، جرمنی، اٹلی، امریکا، جاپان اور جنوربی کوریا) مغربی دنیا کا حصہ یا اس کے اتحادی ہیں۔ اس طرح دس بڑے درآمدی ساتھیوں میں سات (جرمنی، امریکا، فرانس، اٹلی، جاپان، پولینڈ اور یوکرائن) مغربی بلاک میں شامل ہیں۔

روس درج بالا برآمدی ممالک کو 91 ارب ڈالر کا روسی سامان بھجواتا ہے۔ جبکہ اپنے مغربی ساتھیوں سے 46 ارب ڈالر کا سامان منگواتا ہے۔ اگر روس نے علی اعلان دنیائے مغرب پر حملہ کردیا، تو وہ اپنی اربوں ڈالر کی تجارت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ تیل و گیس کی کم قیمتوں کے باعث روسی حکومت کی آمدن گھٹ چکی اور وہ معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ اس دگرگوں صورتحال میں روس دنیائے مغرب سے سینگ اڑا کر اپنے لیے مزید معاشی مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتا۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ روس مختلف سیاسی و معاشی معاملات پر مغربی دنیا کے لیڈر ممالک یعنی امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے اختلافات رکھتا ہے۔ امریکا اور برطانیہ کی کوشش یہ ہے کہ روس کرہ ارض پر ان کی بالادستی قبول کرلے۔مطلب یہ کہ دونوں مغربی ممالک دنیا میں جس قسم کا سیاسی، معاشی، تہذیبی و ثقافتی نظام چاہتے ہیں، اسے لاگو کرنے میں روس رکاوٹ نہ بنے۔تاریخ سے لیکن عیاں ہے کہ روس کبھی مغربی دنیا کا طفیلی نہیں رہا۔ ان دونوں طاقتوں کے مابین سیاسی، مذہبی، جغرافیائی اور معاشی اختلافات رہے ہیں۔ اسی لیے ہر روسی حکمران کی سعی ہوتی ہے کہ وہ اپنی مملکت اور مشرقی یورپ میں بھی دنیائے مغرب کے اثرور رسوخ کو بڑھنے نہ دے۔ یہی وجہ ہے، یوکرائن کواپنے دائرہ کار میں رکھنے کا معاملہ روس اور مغربی دنیا کے مابین وجہ نزاع بن گیا۔ بعدازاں شام کی جنگ، ایرانی ایٹمی پروگرام اور دیگر بین الاقوامی معاملات میں متضاد معاملات بھی دونوں قوتوں کو بالمقابل لے آئے۔ابھرتی نئی سرد جنگ کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ ماضی کے برعکس چین بھی اس میں سرگرم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس مجادلے میں ایک سمت چین، روس اور ان کے اتحادی کھڑے ہیں۔ دوسری طرف مغربی بلاک کے سرخیل امریکا، برطانیہ اور دیگر اتحادی ملک ہیں۔بدلتی صورت حال میں بعض ممالک غیر جانب دار ہیں تو کچھ سوچ رہے ہیں کہ کس بلاک کا ساتھ دیں۔ انہی ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ امریکی حکمرانوں کی طوطا چشمی، بھارت نوازی اور غرور اسے چین ، روس کے بلاک میں دھکیل سکتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ بھی مگر یہی مسئلہ ہے کہ اس کے تمام بڑے تجارتی ساتھی امریکی بلاک کا حصہ ہیں۔ سب سے زیادہ پاکستانی مصنوعات امریکہ منگواتا ہے۔ جب کہ دیگر برآمدات برطانیہ، سپین، متحدہ عرب امارات، اٹلی اور ہالینڈ جاتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان اپنی بیشتر بیرونی مصنوعات متحدہ عرب امارات، امریکا، جاپان، سعودی عرب، بھارت، کویت اور جرمنی سے منگواتا ہے۔ جن ممالک کا ذکر ہوا، یہ سبھی امریکی بلاک کا حصہ ہیں۔ اگر پاکستان علی الاعلان چین ،روس بلاک کا حصہ بنا، تو امریکی بلاک کے ملکوں سے یقیناً اس کی تجارت متاثر ہوگی۔ مثلاً ٹرمپ حکومت یہ پابندی لگاسکتی ہے کہ پاکستانی کمپنیوں سے اشیا نہ خریدی جائیں۔ یوں پاکستان کی برآمدات بہت کم رہ جائیں گی۔ معاشی نقصان سے بچنے کی خاطر ہی پاکستان اس ضمن میں واضح پالیسی بنانے سے گریز کرتا ہے کہ وہ چین، روس بلاک کا حصہ بنے یا بدستور امریکی بلاک میں شامل رہے۔

یہ بہرحال حقیقت ہے کہ دونوں بلاکوں میں شامل بڑی قوتوں کا ٹکراؤ شروع ہوچکا ہے۔ اسی لیے چین اب نت نئے ہتھیار بنا رہا ہے تاکہ عسکری طور پر بھی طاقتور ہوسکے۔ چین کا پہلا اسٹیلتھ طیارہ حال ہی میں سامنے آیا ہے۔ نیز چین مصنوعی ذہانت کے میدان میں بھی تحقیق پر کروڑوں ڈالر خرچ کررہا ہے۔ فی الوقت سپرکمپیوٹروں کی تعداد کے لحاظ سے بھی سرفہرست ہے۔ غرض چینی حکمران جان گئے ہیں کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کرکے مغرب پر برتری حاصل کرسکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ کہ محض تیس سال پہلے تک مغربی ممالک یہی سمجھتے تھے کہ چین کبھی معاشی، سیاسی، عسکری اور ثقافتی طور پر انہیں چیلنج نہیں کرسکتا۔ مگر چین کی محیر العقول معاشی ترقی نے مغربی ملکوں کا غرور پاش پاش کردیا۔ اب چین سستے مزدوروں کی بہت بڑی منڈی نہیں رہا بلکہ معاشی و عسکری اور سائنسی وتکنیکی طور پر ایک زبردست عالمی طاقت بن چکا ہے۔سائنس و ٹکنالوجی میں چین کی ترقی خاص طور پر اسے مستقبل میں سپر پاور بنا سکتی ہے۔

کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اب مغربی میڈیا چین پر مختلف الزامات لگاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ وہاں یک جماعتی حکومت ہونے کے باعث آمریت کا راج ہے۔مغربی میڈیا کو یہ بھی حیرت ہے کہ دنیائے مغرب سے نہایت قریب ہونے کے باوجود چین میں جمہوریت پنپ نہیں پائی۔ اب مغربی دانشوروں کو احساس ہورہا ہے کہ چین دنیائے مغرب کے سیاسی نظریات کا قطعاً شائق نہیں، بس وہ یورپ و امریکا سے معاشی فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔پچھلے چالیس برس سے چین مغربی ممالک کے معاشی فوائد سے مستفید ہورہا ہے۔ اب وہ اتنا طاقتور ہوچکا کہ مغربی بلاک کے بالمقابل مختلف ممالک پر مشتمل اپنا عالمی کلب کھڑا کرسکے۔ ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ اسی سوچ کا آئینہ دار ہے اور اب شی جن پنگ کا طویل اقتدار اس عظیم الشان خیال کو عملی روپ دے سکتا ہے۔اسی طرح روس میں بھی صدر پیوٹن کی مضبوط حکومت معاشی و عسکری اہداف حاصل کرسکتی ہے۔ مغربی میڈیا روسی حکومت کو بھی بادشاہت کی ایک شکل قرار دیتا ہے۔ تاہم روس میں مغرب کا عطا کردہ تحفہ… جمہوریت برگ و بار نہ لاسکا۔

جب سویت یونین منہدم ہوا، تو روس میں جمہوریت ہی کا چرچا ہوا تھا۔ نیز سرمایہ دار مغربی ممالک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہاں آزاد منڈی کی اصلاحات نافذ کی گئیں۔ لیکن ہوا یہ کہ مٹھی بھر طبقہ امرا نے روسی معیشت پر قبضہ کرلیا۔ وہ سرکاری اداروں اور کارخانے اونے پونے داموں خرید کر انہیں بھاری رقم پر مغربی سرمایہ کاروں کے ہاتھ فروخت کرنے لگے۔ یوں روس کے قدرتی وسائل پر مغربی کارپوریشنوں کا قبضہ ہونے لگا۔ آخر 2003ء کے بعد صدر پیوٹن نے رجحان بدلا اور وہ سرکاری ادارے دوبارہ حکومت کے تصرف میں لے آئے۔ چین اور روس، دونوں کی کوشش ہے کہ قومی قدرتی وسائل کسی صورت غیروں کے ہاتھ نہ جانے پائیں۔

صدر شی جن پنگ، صدر پیوٹن اور مغرب کے جمہوری حکمرانوں کی سوچ خاصی مختلف ہے۔ چینی و روسی صدور ملک و قوم کے مفادات کو مقدم سمجھتے اور انھیں سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن تمام جمہوری ممالک میں یہ چلن ہوچکا کہ حکمران ذاتی مفادات سب سے پہلے رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اکثر جمہوری ممالک میں ایسا امیر و بااثر طبقہ وجود میں آچکا جو بیشتر قومی وسائل پر قابض ہے۔ اسی لیے وہ امیر سے امیر تر ہورہا ہے جبکہ عوام غربت کے گہرے گڑھے میں گرتے چلے جارہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔