انسانی خلائی پرواز کا عالمی دن

ویب ڈیسک  جمعرات 12 اپريل 2018
انسان بردار خلائی پرواز ایک ایسا کارنامہ ہے جو بجا طور پر ساری انسانیت کی مشترکہ کامیابی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انسان بردار خلائی پرواز ایک ایسا کارنامہ ہے جو بجا طور پر ساری انسانیت کی مشترکہ کامیابی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہور: آج دنیا بھر میں انسانی خلائی پرواز کا دن منایا جا رہا ہے کیونکہ 12 اپریل 1961 وہ تاریخ ساز دن تھا جب سابق سوویت یونین کے یوری گیگارین، خلاء میں پہنچنے والے سب سے پہلے انسان بنے تھے جنہوں نے خلاء کے بے وزن ماحول میں 1 گھنٹہ 48 منٹ بھی گزارے تھے۔

اس اہم اور تاریخ ساز واقعے کی یاد منانے کےلیے 7 اپریل 2011 کے روز اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت 12 اپریل کو ’’انسانی خلائی پرواز کا عالمی دن‘‘ قرار دیتے ہوئے دنیا بھر میں منانے کا فیصلہ کیا گیا۔

یوری گیگارین کے خلاء میں جانے کے بعد امریکا اور روس میں خلائی دوڑ کا آغاز بھی ہوا اور یہ دونوں ممالک طاقتور سے طاقتور خلائی راکٹ اور خلائی جہاز بنانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں کرنے لگے۔

 

’’خلائی جہاز میں زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ہمارا سیارہ کتنا خوبصورت ہے۔ آئیے! ہم اس کی خوبصورتی میں اضافہ کریں، اسے تباہ نہ کریں۔‘‘ یوری گیگارین

یہ دن منانے کا مقصد انسان کی اوّلین خلائی پرواز اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ پہلے خلائی سفر کے بعد، امریکا اور روس میں خلائی دوڑ کے نتیجے میں، خلائی سائنس کی ترقی بہت تیز رفتار ہوگئی اور 20 جولائی 1969 کو امریکی خلاء نورد نیل آرمسٹرانگ چاند پر پہنچنے والے پہلے انسان بنے۔

امریکہ، روس، جرمنی، چین اور جاپان کا شمار اب تک سب سے زیادہ افراد کو خلاء میں بھیجنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ خلائی سفر کرنے والی پہلی خاتون کا اعزاز بھی سوویت یونین کی ویلنتینا ترشکووا کو حاصل ہوا جو 16 جون 1963 کو خلاء میں پہنچیں۔

واضح رہے کہ انسان بردار خلائی پرواز آج بھی نہ صرف بے حد مشکل بلکہ بہت مہنگا سودا بھی ہے۔ انسان کو خلاء تک بحفاظت پہنچانے اور طویل مدت تک وہاں زندہ رہنے کے قابل بنانے کےلیے انتہائی خصوصی اقدامات ضروری ہوتے ہیں جو بے حد جدید ٹیکنالوجی کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ اس پورے عمل پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے۔

اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر دس سال کے دوران 123 ارب امریکی ڈالر سے بھی زیادہ لاگت آئی جسے کئی ترقی یافتہ ممالک نے مل کر برداشت کیا۔

یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ امریکی خلاء نورد کو ’’ایسٹروناٹ‘‘ (astronaut)، روسی خلاء نورد کو ’’کوسموناٹ‘‘ (cosmonaut) جبکہ چینی خلاء نورد کو ’’تائیکوناٹ‘‘ (taikonaut) کہا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔