بِٹ کوائن کی بنیاد ’بلاک چین ٹیکنالوجی‘ کیا ہے؟

ذیشان الحسن عثمانی  ہفتہ 14 اپريل 2018
چاہے کتنا ہی اعتراض ہو، بٹ کوائن اور اس کی بنیادی ٹیکنالوجی ’’بلاک چین‘‘ ہی مستقبل کی کرنسی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چاہے کتنا ہی اعتراض ہو، بٹ کوائن اور اس کی بنیادی ٹیکنالوجی ’’بلاک چین‘‘ ہی مستقبل کی کرنسی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج کل بٹ کوائن کا بہت چرچا ہے اور اس کے بارے میں تقریباً روزانہ خبریں آرہی ہیں۔ کہیں اس پر فتوے لگ رہے ہیں تو کہیں اس حوالے سے قانونی بحث جاری ہے لیکن یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ بٹ کوائن اور اس جیسی متعدد کرپٹوکرنسیز کو وجود بخشنے والی بنیادی ٹیکنالوجی ’’بلاک چین‘‘ پر کہیں کوئی بات نہیں ہورہی۔ اس کے برعکس، سچ تو یہ ہے کہ اگر آپ سنجیدگی سے بلاک چین پر مہارت حاصل کرلیں گے تو یہ ٹیکنالوجی آنے والے وقت میں آپ کےلیے بہترین کیریئر کی ضمانت تک بن سکتی ہے۔ یہ بلاگ میں نے خاص طور پر ایسے ہی لوگوں کےلیے تحریر کیا ہے۔ اسے پڑھ کر مجھے اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے گا۔

اِنسان پیدائش سے لے کر موت تک اَور شاید موت کے بعد بھی، ریکارڈ کے طور پر، ایک رجسٹر (کھاتے) سے دوسرے رجسٹر میں سفر کرتا رہتا ہے۔ اُس کی ذات اور اُس سے جڑی تمام ضروریات اور مسائل کسی نہ کسی کھاتے کے مرہونِ منّت ہوتے ہیں۔ اگر آپ اِنسان کو لا تعداد کھاتوں کی زنجیر کی ایک اکائی مان لیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ لاتعداد و لامحدود کھاتے جو ایک زنجیر میں پروکر ایک ساتھ جوڑدیئے گئے ہوں۔ ان میں درج ایک حقیقت، ایک اکائی اِنسان کہلاتی ہے اور اسے اپنے وجود کا ثبوت دینے کےلیےبھی اِن کھاتوں کے اندراج کی ضرورت ہوتی ہے۔

آپ یقین جانیے میں کوئی مذہبی یا فلسفیانہ بحث نہیں کر رہا، یہ وہ طریقہ کار ہے جس کے مطابق ہم جیتے ہیں اور جو ہوبہو بلاک چین کا عملی نمونہ ہے۔

ہم پیدا ہوتے ہیں تو پیدائش کا برتھ سرٹیفیکیٹ بنتا ہے۔ ہسپتال سے یا ضلع ناظم کونسلر کے آفس سے ’’ب‘‘ فارم اور پھر نادرا سے حتمی ثبوت کے طورپر پکّا برتھ سرٹیفکیٹ یا فیملی سرٹیفکیٹ۔ یہ سرٹیفکیٹ اِس بات کی سند ہے کہ آپ ہیں۔ اِس کے بغیر قانونی طور پر آپ کا وجود ثابت نہیں۔

آپ نے حفاظتی ٹیکے لگوائے تو ایک اور رجسٹر میں اِندراج ہوگیا۔ گھر لیا، شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنوایا، ڈرائیونگ لائسنس، بینک اکاؤنٹ، اسلحہ لائسنس، شادی و نکاح، بچوں کی پیدائش، اسکول میں داخلہ، یونیورسٹی ڈگری حتٰی کہ موت تک آپ کو کوئی نہ کوئی سرٹیفکیٹ ملتا ہی رہتا ہے جو کسی نہ کسی کھاتے میں اندراج کی گواہی ہوتا ہے۔ میں اس نظام کو غیر مرئی بلاک چین (Invisible block chain) سے تشبیہ دیتا ہوں… اور نامہ اعمال؟ وہ بھی تو ایک رجسٹر ہے جِس میں سب لِکھا جا رہا ہے۔

قیمتی اشیاء، قدرتی ذخائر، مُلکی وسائل اور آبادی کا شمار ہمیشہ سے ہی اس بات کا متقاضی رہا ہے کہ اس کا درست اندراج ممکن بنایا جائے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد 1944 میں بریٹن وڈز کانفرنس ہوئی جس کے نتیجے میں انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ (IMF)، ورلڈ بینک اور بعد ازاں اقوام متحدہ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) جیسے اِداروں کا قیام عمل میں آیا کہ دنیا کے تمام تر وسائل کو ایک مرکزی نظام کے تحت کنٹرول کیا جاسکے، چلایا جاسکے اور چھوٹے بڑے سب ممالک اور اُن میں بسے سب لوگ، کیا مسکین اور کیا طاقتور، سب ہی اس مرکزی نظام کے تحت آجائیں اور اپنے تئیں جتنی آزادی اور شخصی حیثیت کا ڈھنڈورا پیٹ لیں، بالآخر ان کی ساری توانائیاں اور وسائل اِسی مرکزی نظام سے ہوتے ہوئے ان معدودے چند لوگوں یا اداروں تک پہنچ جائیں جو پالیسی سازی کے نام پر آزاد لوگوں کو غلام اِبن غلام بنانے کا عزم لیے پھرتے ہیں۔

آپ آس پاس میں نظر دوڑائیے اور غور کیجیے تو آپ کو اپنی زندگی کچھ مرکزی کھاتوں میں جڑی نظر آئے گی۔ بینک، گھرکے کاغذات (پٹواری)، اسپتال، شناختی کارڈ، شادی دفتر وغیرہ۔

چلیے مان لیاکہ ہم ہر وقت کسی نہ کسی مرکزی کھاتے یا نظام میں بندھے ہوئے ہیں تو اِس میں آخر ہوا کیا ہے؟ کیوں ہمیں ایک متبادل نظام کی ضرورت ہے؟ ہم کیوں کھوج کریں ایک نئے نظام کی جب کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے؟

مرکزی نظام پر اعتماد (یا اندھے اعتماد) میں تین بڑی خرابیاں ہیں:

1۔ من مانی علیحدگی (Exclusion)

یہ نظام یا اِس کے چلانے والے جب چاہیں، جیسے چاہیں، مسابقت یا سینسرشپ (Censorship) کے نام پر یا ملک کے وسیع تر مفاد میں، جِسے چاہیں سسٹم سے الگ کردیں؛ پاکستان کو ٹیررازم واچ لِسٹ میں ڈال کر پیسوں اور اشیاء کی آمدورفت پر پا بندیاں لگادیں۔

کسی اور حیلے بہانے سے ایران، وینزویلا، فلسطین، شمالی کوریا اور ہر وہ ملک، ادارہ یا شخص جو آپ کے سامنے سرنِگوں نہیں ہورہا،اُسے خارِج کردیں یا اُس کی شمولیت ناممکن بنادیں۔ Pay-Pal پاکستان میں نہیں۔ دنیا میں ایک ارب سے زائد لوگوں کے پاس اپنی شخصی شناخت کی دستاویزات نہیں یعنی امیگریشن ہونے کی حکومتی اِمداد تک، نوکری سے لے کر طبی اِمداد تک وہ اپنا وجود تک ثابت نہیں کرسکتے۔

2۔ بے اِیمانی

لوگ آپ پر اعتماد (Trust) کریں مگر آپ ناانصافی، لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم رکھیں۔ لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کسی اِدارے میں رکھوائیں اور وہ اِدارہ اُسے امانت سمجھتے ہوئے جیسے چاہے برباد کردے۔ لوگ ملک کو ٹیکس دیں اورحکمران اِسے عوام کی فلاح وبہبود پرخرچ کرنے کے بجائے اپنی عیاشیوں میں صرف کردیں۔

3۔ اِندراج میں گڑبڑ (Loss of Records)

مرکزی اِدارے یا بینک کو کوئی شخص ہیک کرکے سارے کھاتے صفر کردے تو؟ غلطی سے کوئی بینک ملازم آپ کے اکاؤنٹ میں غلط اِندراج کردے یا کسی اور قدرتی یا اِنسانی حادثے میں ریکارڈ ضائع ہوجائے تو؟ جیسا کہ عموماً ملک عزیز میں فائلوں کو آگ لگ جاتی ہے، تو اِس صورت میں حق دار کے حق کی کیا ضمانت ہو؟

وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، اختیارت کا ناجائز اِستعمال اور جِس کی لاٹھی اُس کی بھینس کےمصداق اپنی من مانی سے نظام چلانا وہ وجوہ ہیں جن کی بناء پر بتدریج عدم اعتماد کی فضاء قائم ہوئی۔

اگر پچھلی صدی کا بغور جائزہ لیں تو اِنسانوں میں سب سے زیادہ تنزلی اعتماد میں آئی ہے۔ لوگوں کا اعتماد یکسر اُٹھ گیا ہے خواہ وہ اِدارے ہوں، حکومت ہو، عدالت ہو، رشتے ناتے ہوں، مذہب ہو، لیڈر ہو یا کوئی اور ضامن۔ بحثیت مجموعی اِنسانوں کو کسی پر اعتماد نہ رہا۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو پچھلے پچاس سال سے زیرِبحث ہے کہ ہم آخر دو یا دو سے زائد فریقین میں اعتماد (Trust) کیسے قائم کریں؛ اور وہ بھی بغیر کسی مرکزی کردار کے؟

کیا ہم ایسا رجسٹر (کھاتا) بنا سکتے ہیں جِسے لکھ/ پڑھ سکیں تاکہ تمام اِندراجات شفافیت سے وجود میں آسکیں؟ کیا ہم پیسے کے کھاتے کو کسی حکومت، ادارے یا شخص کی دسترس سے باہر نکالنے کے قابل ہوسکیں گے؟ کوئی بھی ادارہ یا فرد کیونکر ایسے رجسٹر یا کھاتے کو اَپ ڈیٹ کرنے کی ذُمہ داری لے گا؟ کیسے ممکن ہے کہ ایسے اوپن کھاتے میں بُرے لوگوں کے فراڈ اور بے ایمانی کو روکا جاسکے اور پکڑا جاسکے؟ کیا اِس بات کی اِجازت ہو گی کہ اِس کھاتے میں تبدیلی کرسکیں؟

یہ اور اِن جیسے درجنوں سوالات کے جوابات ڈھونڈنے میں ریاضی، کمپیوٹر سائنس، معاشیات اور نفسیات کے تحقیق کاروں نے کئی دہائیاں لگا دیں۔ بارش کے قطروں کی طرح، ہلکے ہلکے ٹکڑوں میں اِس نئے نظام کے مختلف حِصّے بنتے رہے یہاں تک کہ 2008 میں فرضی نام کے شخص ساتوشی ناکاموتو نے اِس مسئلے کا قابل عمل حل دنیا کے سامنے پیش کردیا جسے ہم ’’بلاک چین‘‘ (Block Chain) کہتے ہیں۔

بلاک چین کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟ اِسے سمجھنا تھوڑا سا مشکل ہے کیونکہ اِس کےلیے آپ کو اِس میں شامل تمام جزئیات کو سمجھنا ہوگا۔

پہلے ہم اِس نظام کی تعریف کرلیتے ہیں، پھر مثالوں سے بتدریج سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’’بلاک چین ایک کھلا (Open)، منقسم (Distributed) رجسٹر (کھاتا) ہے جِسے ہر کوئی دیکھ سکتا ہے اور جس میں ہر کوئی اِندراج کر سکتا ہے (مخصوص شرائط کے ساتھ) اور جِسے ریاضی کے پیچیدہ عمل کے ذریعے محفوظ بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک بنیادی تصّور ہے۔

ریکارڈ رکھنے کےلیے انسان صدیوں سے کھاتے استعمال کرتا آیا ہے۔ کبھی یہ مٹی کی تختیوں کی شکل میں تھے، تو کبھی کاغذی دفتر کی شکل میں، آج کل یہ بائٹس کے مجموعے کی شکل میں کمپیوٹرز میں محفوظ ہوتے ہیں۔

بلاک چین (منقسم کھاتا) ایک ایسا ڈسٹری بیوٹر لیجر ہے جو ہونے والی ٹرانزیکشنز کا وقت کے حساب سے (Chronologically) مکمل حساب رکھتا ہے۔ نیٹ ورک میں شامل ہر فرد کے پاس اِس کی مکمل کاپی ہوتی ہے۔ جب کوئی تبدیلی آتی ہے یا کوئی ٹرانزیکشن ہوتی ہے تو تمام لوگ اپنے اپنے کھاتوں کو اَپ ڈیٹ کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی جعلی ٹرانزیکشن کو ریکارڈ کروانے کی بات کرے گا تو باقی لوگ اُسے مسترد کر دیں گے کہ اُن کے پاس کاپی میں اس ٹرانزیکشن کا وجود نہیں ہوگا۔

آپ نے نکاح کے وقت بہت سے مہمان دیکھے ہوں گے، دراصل یہ سب ایک شعوری بلاک چین ہے جو اِس شادی کے گواہان ہیں۔ اگر کل کوئی شخص شادی کا دعویٰ کرے گا تو سب اُس کی مخالفت کریں گے کہ اِس خاتون کی تو پہلے ہی شادی ہوچکی ہے۔

آپ قرآنِ پاک کے حفظ کو دیکھ لیجیے، ہر حافِظ قرآن ایک نوڈ (Node) ہے۔ سب کے پاس ایک ہی پبلک لیجر (Public Ledger) یعنی قرآنِ پاک کی کاپی موجود ہے جو سب نے اپنے اپنے دماغوں میں محفوظ کی ہوئی ہے۔ اب اگر کل کوئی عاقبت نااندیش شخص (نعوذ باللہ) کوئی نئی آیت گھڑ لاتا ہے تو حفاظ کا بلاک چین سسٹم اُسے مسترد کرکے اسے نظام سے باہر پھینک دے گا۔ بالکل ایسے ہی بلاک چین کام کرتاہے۔

آئیے ایک اور مثال سمجھتے ہیں:

عبداللہ نے اپنے دوست جمشید کو فون کیا کہ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے، کچھ رقم بھیج دو۔ جمشید نے فوراً اپنا آن لائن اکاؤنٹ کھولا اور دس ہزار روپے عبداللہ کے اکاؤنٹ میں بھیج دیئے۔ عبداللہ کو چند منٹوں میں اپنے اکاؤنٹ میں وہ رقم مل گئی۔

اب اس معمولی سی سادہ ٹرانزیکشن کے پیچھے کیا ہوا؟

کوئی نقدی یا پیسے اِدھر سے اُدھر نہیں ہوئے۔

جمشید نے اپنے آن لائن اکاؤنٹ میں جاکر دس ہزار روپے بھیجنے کی درخواست (Request) کی تو کمپیوٹر سسٹم نے اس کے کھاتے میں رقم کی موجودگی کو چیک کیا۔ اگر اس کے اکاؤنٹ میں دس ہزار سے کم رقم ہوتی تو یہ ٹرانزیکشن نہ ہوپاتی۔ اس کے اکاؤنٹ میں رقم چونکہ زیادہ تھی لہٰذا اس کے کھاتے میں سے دس ہزار روپے کی رقم کم ہوئی اور اتنی ہی رقم (دس ہزار روپے) عبداللہ کے کھاتے میں بڑھ گئی۔ اس پورے عمل میں رقم کا وجود ’’کھاتے کے اندراج‘‘ سے زیادہ نہیں۔

مسئلہ صرف اتنا ہے کہ دو لوگوں کو آپس میں رقم کی منتقلی کےلیے کسی تیسرے ادارے پر اعتماد کرنا پڑا اور عموماً یہ تیسرا ادارہ ان سروسز کے بدلے رقم لیتا ہے۔

شہروں اور ملکوں کے درمیان یہ عام سی ٹرانزیکشن 10 فیصد تک وصول کرلیتی ہے اور 3 سے 7 دنوں تک کا وقفہ آجاتا ہے۔ یعنی جمشید کے اکاؤنٹ سے رقم تو فوراً منتقل ہوجائے گی مگر عبداللہ تک پہنچنے میں کئی دن لگ جائیں گے۔

کسی تیسرے ادارے (Third Party) کے استعمال میں وہ ساری قباحتیں موجود ہیں جو ہم مرکزی نظام کے مسائل میں اوپر ڈسکس کر چکے ہیں اور مزید یہ کہ اس میں زیادہ فیس اور وقت بھی لگتا ہے۔ حکومت اور اداروں کی اجازت بھی درکار ہوتی ہے اور فارن ایکسچینج کے تبادلے کی صورت میں بھی کٹوتی ہوتی ہے۔ چوری کا احتمال ہے، اِنسانی غلطی کا بھی اور سہولت بھی کوئی زیادہ نہیں۔

یہ تو ہم نے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیئے ہیں اور وہ بھی کسی اور کی، جسے عُرفِ عام میں ہم ’’بینک‘‘ کہتے ہیں۔

تو کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے کہ آپس میں خود ہی ایک رجسٹر بنالیں اور اس میں اندراج کرتے رہیں؟ بالکل! ایسا کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہاں ڈبل اسپینڈنگ (Double-Spending) یعنی دوہرے خرچے کا مسئلہ آتا ہے جسے ساتوشی ناکاموتو نے بخوبی حل کیا۔ اس حل کو ’’بلاک چین‘‘ کہتے ہیں۔

ہم ایک پبلک لیجر (عوامی رجسٹر) بنا لیتے ہیں اور اس میں شروع سے لے کر رہتی دنیا تک ہونے والی تمام ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ رکھتے رہیں گے۔ اگر عبداللہ آئندہ بھی کسی کو 5 ہزار روپے دیتا ہے تو سب کو پتا ہے کہ اُس کے پاس 10 ہزار روپے ہیں اور وہ 5 ہزار دے سکتا ہے، اور یہ 10 ہزار اُس کے پاس جمشید کی طرف سے آئے تھے۔ اب اگر اس نظام پر ہزاروں، لاکھوں لوگ ہیں تو یہ سب ٹرانزیکشن کرتے رہیں گے اور بلاک چین کے پبلک رجسٹر میں سب کا اندراج ہوتا رہے گا۔

جب بہت سی ٹرانزیکشنز کو لکھنے کی وجہ سے صفحہ بھر جائے گا تو تمام لوگ (Nodes) اُسے ہیش فنکشن کی مدد سے ’’سیِل‘‘ کرکے بلاک بنا دیں گے اور اگلے بلاک پر کام شروع ہوجائے گا۔

اِس سیل (Seal) کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی صفحے/ بلاک پر لکھا ہوا ہے، وہ ٹھیک ہے اور اب رہتی دنیا تک اِس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اسے ہم بلاک چین کی Immutability کہتے ہیں۔

ہیش فنکشن آسان زبان میں ریاضی کا وہ پیچیدہ فنکشن ہے جس میں آپ جو چاہیں تحریر ڈال دیں، وہ جواب میں آپ کو ایک ہی سائز کے مختلف جواب دے گا۔ آپ اسے ایک مشین کہہ لیجیے۔ اب اگر ہم اس میں 4 ڈالتے ہیں تو جواب آئے گا dcbea

4 Hash Function dcbea

اب 26 ڈال کر دیکھتے ہیں

26 Hash Function 94c8e

یعنی جواب میں حروفِ تہجی کے علاوہ ہندسے بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ ہیش فنکشن ون وے (یک طرفہ) فنکشن کہلاتا ہے۔ پھر جب بھی کوئی اِن پُٹ ڈالیں گے تو اس کا جواب یکساں آئے گا۔ مثلاً 4 کا جواب ہمیشہ dcbea ہی آئے گا مگر کوئی طریقہ ایسا نہیں کہ آپ جواب سے اصل اِن پٹ تک پہنچ سکیں۔

ہاں! اس کی جانچ آسان ہے۔ اگر آپ کو 4 اور dcbea دونوں معلوم ہوں تو آپ اس فنکشن کی مدد سے ایک سیکنڈ میں چیک کرسکتے ہیں کہ اس اِن پُٹ کا آؤٹ پُٹ یہی آئے گا یا نہیں۔

اب اگر میں آپ سے کہوں کہ مجھے ایسا اِن پُٹ چاہیے جس کی مدد سے جو آؤٹ پٹ آئے اس کے شروع میں 3 صفر ہوں:

Hash Function 000… ?

تو آپ اسے کیسے معلوم کریں گے؟

اِسے معلوم کرنے کا واحد طریقہ ’’بروٹ فورس‘‘ (Brute force) ہے کہ آپ ایک کے بعد ایک نمبر اِن پُٹ کے طور پر دیتے چلے جائیے اور دیکھیے کہ آؤٹ پُٹ کیا ہے، کبھی نہ کبھی تو آپ کی مرضی کا آؤٹ پُٹ آ ہی جائے گا۔

237 HASH 2bc7

C75ae HASH 9082

11802 HASH 09aef

.

.

.

72533 HASH 000ca

آہا! مل گیا۔ اب یہی 72533 آپ کا مطلوبہ نمبر ہے۔ کوئی بھی شخص اسے ویریفائی کرسکتا ہے کہ 72533 اگر اِن پُٹ میں دیا جائے تو آؤٹ پُٹ کے شروع میں 3 صفر ہوتے ہیں۔

اب ہمیں اپنے ٹرانزیکشنز کے صفحے (بلاک) کو سیل کرنا ہے۔ ہم صفحے میں موجود تمام ٹرانزیکشنز کو جمع کرتے ہیں (یا کسی اور طریقے سے نمبر نکالتے ہیں)۔ اب ہم یہ سوال پوچھتے ہیں کہ صفحے کے مجموعے میں وہ کونسا نمبر شامل کروں کہ آؤٹ پُٹ کے شروع میں 3 صفر ہوں۔

مثلاً صفحے کا مجموعہ 20893 ہے تو سوال بنا:

000 HASH 20893

+

?

ہم پھر ایک کے بعد ایک نمبر سے ٹرائی (قسمت آزمائی) کرتے ہیں، کچھ عرصے میں نمبر ملا 21191 تو

21191 + 20893 = 42084

42084 HASH 00078

یہی ہمارا مطلوبہ نمبر تھا۔ اب ہم اس کی مدد سے صفحہ (بلاک) کو سیل کر دیں گے۔ یہ پورا عمل ’’مائننگ‘‘ (Mining) کہلاتا ہے جسے بِٹ کوائن کی تکنیکی اِصطلاح میں ہم پروف آف ورک (کام کی گواہی) کہتے ہیں۔

اس بلاک کو سیل کرنے کے ساتھ ہی ہم بلاک چین میں جوڑ دیتے ہیں۔ ہر نئے بلاک کو بلاک چین میں جوڑنے سے پہلے ریاضی معما (Puzzle) حل کرنا ہوتا ہے جس میں سابقہ صفحے کا ملنے والا نمبر، نیا نمبر (جس کی اب ہمیں تلاش ہے) اور نیا ویری ایبل نمبر (Nonce) جوڑ کر آؤٹ پُٹ تک پہنچنا ہوتا ہے۔

+

? HASH 0 0 0 . . .

+

0 0 0

اب اگر کسی شخص کو جعلی بلاک شامل کرنا ہوگا تو اسے نہ صرف اس موجودہ بلاک بلکہ آج تک بلاک چین میں جتنے بھی بلاک بن گئے ہیں، ان سب کو پھر سے جوڑنا ہوگا اور ان کے ریاضی معموں کو حل بھی کرنا ہوگا۔ اس کےلیے جب تک دنیا میں موجود اس نیٹ ورک کی 51 فیصد قوت اس کے پاس نہیں آجاتی، یہ ممکن نہیں۔ (اسے %51 اٹیک کہتے ہیں۔)

ہر نئے بلاک پر مائنرز کو کرپٹو کرنسی اِنعام میں ملتی ہے۔ شروع میں 50 بِٹ کوائن ملتے تھے، پھر 25، آج کل 12.5، %51 پاور رکھنے والے کےلیے مزید بلاکس مائن کرکے رقم کمانا زیادہ سودمند ہو گا بجائے اس کے کہ وہ پورے نظام کو تباہ کرے جس میں کسی کو کچھ نہیں ملنا۔ اور اس طرح پورا نیٹ ورک سچا اور ایماندار رہتا ہے۔

بلاک چین کی تین قسمیں ہیں:

پبلک بلاک چین

جیسا کہ آپ نے دیکھا، بِٹ کوائن اور ایتھیریم اس کی مثالیں ہیں۔ اس میں کوئی بھی کسی جگہ سے نیٹ ورک کو جب چاہے جوائن کرسکتا ہے اور جب چاہے چھوڑسکتا ہے۔ نوڈز کو ایماندار رکھنے کےلیے انہیں کام پر معاوضہ دیا جاتا ہے، نئے کوائنز اور ٹرانزیکشن فیس کی صورت میں، اور ریاضی کے پیچیدہ فنکشنز اسے ہیکنگ پروف بناتے ہیں۔

پرائیویٹ بلاک چین

کسی کمپنی کا اندرونی پبلک لیجر جسے صرف وہی جوائن کرسکتے ہیں جنہیں کمپنی اجازت دے۔ یہاں کیونکہ لوگوں کا آپس میں اعتماد قائم ہوتا ہے اور بے ایمانی کی صورت میں قانونی کارروائی ہو سکتی ہے، یوں نوڈ کی اصل شناخت معلوم ہوتی ہے کہ کون اسے چلا رہا ہے تو یہاں مائننگ کا عمل اتنا مشکل نہیں ہوتا۔ نتیجتاً اس کی رفتار اور کام کرنے کی صلاحیت پبلک بلاک چین سے ہزاروں گنا زیادہ ہوتی ہے۔

مثلاً بِٹ کوائن بلاک چین ہر سات سیکنڈ میں ایک ٹرانزیکشن کر پاتا ہے اور ایک بلاک 10 منٹ میں بنتا ہے۔ ایتھیریم میں ایک بلاک ہر 15 سیکنڈ میں بنتا ہے۔ مگر پے پال اور کریڈٹ کارڈز کمپنیاں لاکھوں ٹرانزیکشنز فی سیکنڈ کی رفتار سے کرتی ہیں۔ اِن صلاحیتوں کےلیے کرپٹو کرنسی میں لائٹننگ (Lightning) نیٹ ورکس متعارف کروائے جارہے ہیں۔

کنسورشیم (Consortium) بلاک چین

کمپنی یا پارٹنرز کے مجموعے کے درمیان بلاک چین جس میں صرف ممبرز ہی جوائن کرسکیں۔ یہاں Consensus (کثرت کے اتفاقِ رائے) کے بجائے ممبرشپ کے اصول طے کئے جاتے ہیں۔

بلاک چین ایک خاص قسم کا پبلک لیجر (عوامی کھاتا) ہوتا ہے جو بنیادی ٹیکنالوجی ہے کرپٹو کرنسی (مثلاً بِٹ کوائن) کی۔ یہ ایک ایسا ڈیٹا اسٹرکچر ہے جس میں ٹرانزیکشنز بلاکس کی صورت میں ایک زنجیر کی کڑی کی طرح ایک دوسری سے جڑی ہوتی ہیں (ریاضی کے ہیش فنکشن کی مدد سے)۔

بلاک چین کی قسموں میں پبلک بلاک چین کھلی یا اوپن ہوتی ہیں جس میں شمولیت اور اخراج کےلیے کسی پرمیشن (اِجازت) کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو چاہے، جب چاہے اِسے جوائن کرسکتا ہے اور اس سے باہر نکل سکتا ہے۔ انجانے لوگوں اور نوڈز کے درمیان اعتماد بحال رکھنے کےلیے اس میں انعامی طور پر کرپٹو کرنسی دی جاتی ہے اور ریاضی کے پیچیدہ مرحلوں سے اس کے نظم و نسق کو ممکن بنایا جاتا ہے۔

دوسری طرف پرائیویٹ یا کلوز بلاک چین میں اعتماد عموماً ایک ہی کمپنی کی پالیسیوں اور معاہدوں کے ذریعے ممکن بنایا گیا ہوتا ہے لہذا یہاں کرپٹو کرنسی انعام کے طور پر نہیں دی جاتی۔ باقی تمام مراحل مثلا Consensus (اِتفاقِ رائے) اور ووٹنگ وغیرہ کم و بیش یکساں ہی ہوتے ہیں۔

یہاں یاد دلاتا چلوں کہ زر کی ابتداء اور صورتیں مختلف رہیں، نمک سے لے کر جانوروں کی کھال تک، اور رائی اسٹون سے لے کر تمباکو تک، جس شئے کی رسد و طلب رہی، وہی کرنسی کے طور پر بھی زیرِ استعمال رہی۔

انٹرنیٹ کے ساتھ ہی ڈیجیٹل کرنسی کا وجود بھی عمل میں آیا۔

ڈیوڈ چام (David Chaum) نے 1982 میں ’’بلائنڈ سگنیچر‘‘ (Blind signature) اور e_Cash کا نظریہ پیش کیا۔ ایڈم بیک (Adam Back) نے 1997 میں Hash Cash، وائی ڈائی (Wai Dai) نے 1990 میں B-Money، نِک زابو (Nick Szabo) نے 1998 میں Bit-Gold اور ہال فینی (Hal Finney) نے 2004 میں Reusable Proof of work یا R Pow کا نظریہ پیش کیا۔ اور ان تمام نظریات و ایجادات کی بنا پر 2008 میں ساتوشی ناکاموتو نے بِٹ کوائن کو دنیا میں متعارف کروایا۔

اس وقت شاید ہی دنیا کا کوئی بڑا بینک ہو جو کسی نہ کسی طور پر بلاک چین کو اسٹڈی نہ کر رہا ہو۔ آئی بی ایم (IBM) نے 2015 میں لنکس فاؤنڈیشن کے ساتھ Hyper Ledger Fabric پروجیکٹ شروع کیا جسے اب تک سیکڑوں کمپنیاں استعمال میں لاچکی ہیں۔ اربوں روپے کی سرمایہ کاری، ڈھائی ہزار سے زائد پیٹنٹس اور 800 سے زیادہ کرپٹوایسٹس (Crypto Assets) کے ساتھ بلاک چین معاشی نظام میں وہ تبدیلیاں لانے والا ہے جو ای میل، ڈاکخانے کے نظام میں اور سیل فون، عام لینڈ لائن ٹیلی فون کے نظام میں لائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ سیکھیں اور آنے والے برسوں میں اس کے بہتر استعمال کو ممکن بنا سکیں۔ ایک سروے کے مطابق 2020 میں دنیا میں کم ازکم 5 لاکھ بلاک چین ڈیویلپرز درکار ہونگے۔ اِس وقت کوئی 5 ہزار بھی نہیں۔
اگر آپ آج سے اس پر کام کرنا شروع کردیں گے تو مستقبل میں آپ کی نوکری اور بزنس کے امکانات بہت روشن ہیں۔

میں نے حال ہی میں اس موضوع پر کتاب لکھی ہے جو آپ اس لنک سے خرید سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔