اعلیٰ عدلیہ کو فاٹا تک توسیع دینے کا بل،جے یو آئی ف کی مخالفت

شاہد حمید  بدھ 18 اپريل 2018
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

پشاور:  وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ایک اہم اقدام کیا گیا ہے جو سینٹ سے اعلیٰ عدلیہ کوفاٹا تک توسیع دینے سے متعلق بل کی منظوری کا ہے، یقینی طور پر یہ اقدام اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کو فاٹا تک توسیع ملنے کی وجہ سے قبائلی عوام کو ایف سی آر اورپولیٹیکل ایجنٹ کے نظام سے نجات ملے گی اور وہ پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح اپنے مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں پیش کرسکیں گے،فاٹا کے لیے اس اہم موڑ پر بھی جے یوآئی نے اس اقدام کی مخالفت کی کیونکہ جے یوآئی اپنے اسی موقف پر قائم ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے فاٹا کے لیے سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کردہ خصوصی کمیٹی نے جو رپورٹ مرتب کی ہے وہ پورے فاٹا کی آواز نہیں اور فاٹا سے متعلق جو بھی اقدامات کرنے مقصود ہیں۔

ان کے لیے فاٹا کی عوام سے رائے لی جائے جس کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد کیا جاتا ہے یا کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا جاتا ہے تاہم رائے ضرور لی جائے اور اسی رائے کی روشنی ہی میں فاٹا کے لیے اقدامات کیے جائیں، یہی وجہ ہے کہ جے یوآئی نے مذکورہ بل کی مخالفت کرتے ہوئے واک آئوٹ کیا۔

جے یوآئی اس موڑ پر بھی اپنی الگ رائے برقرار رکھے ہوئے ہے حالانکہ اس موڑ پر تقریباً تمام ہی جماعتیں جے یوآئی مخالف موقف اپنائے ہوئے ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ فاٹا کو فوری طور پر خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے۔ تاہم یہ بات اب واضح ہوگئی ہے کہ کم ازکم اس سال منعقد ہونے والے عام انتخابات سے قبل فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام ممکن نہیں اور فاٹا کے انضمام کے لیے جو پانچ سالہ روڈ میپ دیا گیا ہے ۔

اسی کے مطابق فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے گا اور ممکنہ طور پر2023ء کے عام انتخابات کے موقع پر فاٹا، خیبرپخونخوا کا حصہ اور وہاں صوبائی اسمبلی کے لیے بھی انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا، چونکہ فاٹا میں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی مخالف آوازیں بھی موجود ہیں اور بڑی تعداد میں ہیں اسی لیے مولانا فضل الرحمٰن اوران کی پارٹی بھی انضمام کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی پالیسی پر کاربند ہے اور ان کی کوشش یہی ہے کہ وہ اس مخالفانہ رائے کو اپنے حق میں کرتے ہوئے عام انتخابات میں فاٹا سے کامیابی حاصل کریں اور چونکہ جے یوآئی فاٹا کی بڑی پارٹی رہی ہے اس لیے وہ یہ اقدام بھی سوچ سمجھ کر ہی کر رہی ہوگی۔

عام انتخابات کے لیے تمام ہی پارٹیوں نے اپنی مہم شروع کردی ہے اور اسی سلسلے میں مسلم لیگ(ن)کے مرکزی صدر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی پشاور کا دورہ کیا اور یہاں پر ورکرز کنونشن سے خطاب کیا، ان کے دورے نے یقینی طور پر قدرے ہلچل ضرور پیدا کی اور یہ ہلچل اس لیے بھی قدرے زیادہ معلوم ہوئی کہ اسی روز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی پشاور میں موجود تھے جنہوںنے شہباز شریف کی جانب سے خیبر پختونخوا حکومت اور تحریک انصاف پر کیے جانے والے اعتراضات اور الزامات کا پشاور ہی میں کھڑے ہوکر جواب دید یا، شہباز شریف کا دورہ اس اعتبار سے ضرور اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے یہ دورہ مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کے بعد کیا۔ تاہم ان کا یہ دورہ سابق وزیراعظم نوازشریف کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل تھا جبکہ اب فیصلے کے بعد کی صورت حال یہ ہے کہ نواز شریف تاحیات سیاست اور انتخابات کے لیے نااہل ہوگئے ہیں اور اب یہ بات واضح ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت شہباز شریف ہی کے ہاتھوں میں رہے گی اور وہ پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے آگے کا سفر کرینگے۔
تاہم اس موڑ پر اس بات کا جائزہ یقینی طورپر لیا جانا چاہیے کہ نواز شریف کے تاحیات نااہل ہونے کا مسلم لیگ کو نقصان ہوگا یا فائدہ؟جہاں تک خیبرپختونخوا کی بات ہے تو نوازشریف نے اگرچہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران یہاں پر جلسے کیے ہیں اور اب شہباز شریف کو بھی خیبرپختونخوا کی یاد آئی ہے۔ تاہم گزشتہ کئی سالوں سے لیگی قیادت خیبرپختونخوا کو بھلائے بیٹھی ہے اور پھر خصوصاً گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کی صوبہ سے کامیابی اور یہاں پر حکومت بنانے کے بعد تو خصوصی طور پر لیگی قیادت نے پی ٹی آئی کی کامیابی کی سزا پورے صوبے کو دی اس لیے کم ازکم خیبر پختونخوا کی حد تک تو نوازشریف کے تاحیات نااہل ہونے یا پارٹی قیادت شہباز شریف کے پاس جانے کا کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا کیونکہ یہاں کے لوگوں کا اس سطح کا لیگی قیادت سے رابطہ نہیں جو دیگر پارٹیوں کی قیادت کے ساتھ ہے اس لیے مسلم لیگ(ن)کے صوبائی صدر امیر مقام کو اپنے طور پر ہی معاملات کو چلاتے ہوئے زیادہ بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانا پڑے گا اور اس بات کو مد نظررکھتے ہوئے انہوں نے دیگرپارٹیوں کے ساتھ ایڈجیسٹمنٹ بھی کرنی ہوگی۔

شہباز شریف نے اپنے دورہ پشاور کے دوران جہاں اپنی پارٹی کے ورکروں سے خطاب کیا اور تحریک انصاف کے خلاف توپوں کا رخ کرتے ہوئے گولہ باری کی وہیں پر انھوں نے اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر حاجی غلام احمد بلور کے ساتھ بھی ملاقات کی جس کا بنیادی مقصد ہی آئندہ عام انتخابات کے لیے مل کر چلنے پر بات کرنا تھا، یہ بات بالکل واضح ہے کہ اے این پی اور مسلم لیگ(ن) ایک دہائی تک خیبرپختونخوا میں ایک دوسرے کے اتحادی رہے اور انہوں نے حکومتوں اور اپوزیشن کے ادوار اکٹھے گزارے۔ تاہم 1998ء میں اس سیاسی رفاقت کا خاتمہ ہوا جس کے بعد دونوں پارٹیاں پھر یکجا نہ ہوسکیں اورگزشتہ دور میں جس طرح اے این پی اور پیپلزپارٹی اکٹھی ہوئیں اور انہوں نے مرکز اور خیبرپخونخوا میں اکٹھے حکومتیں بھی کیں اور صوبہ کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے بھی جس طرح دونوں پارٹیوں کی قیادت میں قربتیں بڑھیں اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ اس موقع پر اے این پی خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ(ن)کے ساتھ جائے گی بلکہ اگر اے این پی نے ایڈجسٹمنٹ کرنی ہوئی تو وہ ممکنہ طور پر پیپلزپارٹی کو اس کے لیے ترجیح دے گی۔ اور یہ بات لیگی قیادت کو بھی معلوم ہے اسی لیے انہوں نے غلام بلور کے ساتھ رابطہ کرتے ہوئے دیرینہ تعلقات کے بل بوتے پرمعاملات کو ٹریک پر لانے کی کوشش کی ہے جس کے حوالے سے آنے والے دنوں میں ہی نقشہ واضح ہوگا کیونکہ دوسری جانب قومی وطن پارٹی بھی ایک قوم پرست جماعت کے روپ میں موجود ہے جس کے حوالے سے یہ افواہیں گاہے بگاہے سننے کو ملتی ہیں کہ پیپلزپارٹی اور کیوڈبلیو پی کے رابطے جاری ہیں اور آنے والے وقت میں کچھ بھی ہوسکتا ہے،کچھ ہونے ہی کے خوف کی وجہ سے لکی مروت کی سطح پر بھی تحریک انصاف اور سیف اللہ خاندان کے درمیان ’’معاہدہ سہولت‘‘ طے پا گیا ہے جس کے تحت دونوں ایک دوسرے کو سپورٹ کرینگے۔

لکی مروت میں گزشتہ عام انتخابات میں جے یوآئی نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی تاہم ضمنی انتخابات میں جے یوآئی اپنی قومی اسمبلی کی نشست برقرار نہ رکھ سکی کیونکہ وہاں سیف اللہ خاندان اور تحریک انصاف یکجا ہوگئے اور اب پھر جے یوآئی کا راستہ روکنے کے لیے پی ٹی آئی اورسیف اللہ خاندان کو ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنا پڑا۔

اس معاہدہ سہولت کے تحت سیف اللہ خاندان کی جانب سے صرف سلیم سیف اللہ ہی الیکشن کے لیے میدان میں اتریں گے۔ تاہم وہ آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیں گے یعنی وہ خود کو بندشوں میں جکڑنا نہیں چاہتے، اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں تو اس کے بعد بھی ان کے ہاتھ کھلے ہونگے کہ وہ پی ٹی آئی کا ساتھ دیتے ہیں یا کسی دوسری پارٹی کی طرف جاتے ہیں تاہم پی ٹی آئی لکی مروت میں سیف اللہ خاندان کے ووٹ بنک اوران کے اثرورسوخ کا فائدہ لیتے ہوئے صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے کی خواہاں ہے کیونکہ انھیں مولانا فضل الرحمٰن کی جے یوآئی کا مقابلہ کرنا ہوگا جو ایم ایم اے کی صورت میدان میں ہوگی تاہم پی ٹی آئی اور سیف اللہ خاندان لکی مروت سے قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن اور بعدازاں بلدیاتی انتخابات کے کامیاب تجربات کے تناظر میں عام انتخابات میں بھی وہاں سے میدان مارنے کے خواہاں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔