سائیکل چلائیں، بڑھاپا بھگائیں

ویب ڈیسک  جمعرات 19 اپريل 2018
سائیکل چلانے کا عمل بڑھاپے میں بھی کئی امراض سے دور رکھتا ہے۔ فوٹو: فائل

سائیکل چلانے کا عمل بڑھاپے میں بھی کئی امراض سے دور رکھتا ہے۔ فوٹو: فائل

برمنگھم: سائیکل چلانے کی عادت ہمارے معاشرے سے ختم ہوتی جارہی ہے لیکن اب ماہرین نے کہا ہے کہ سائیکل چلانے سے بہتر کوئی ورزش نہیں اور یہ بڑھاپے سے بھی دور رکھتی ہے۔

ایک مطالعے میں شوقیہ سائیکل چلانے والوں کا باقاعدہ ورزش نہ کرنے والوں سے موازنہ کیا گیا ہے۔ اس سے انکشاف ہوا ہے کہ سائیکل چلانے کا عمل پٹھوں اور ہڈیوں کو مضبوط رکھتا ہے اور بڑھاپے کے باوجود بھی جسم کی چکنائیوں اور کولیسٹرول کو ایک خاص حد میں رکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مردوں میں سائیکل چلانے کی عادت ان کے خاص ہارمون ٹیسٹوسٹیرون کی مقدار بھی بلند رکھتی ہے۔

ایک اور حیرت انگیز بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ سائیکلنگ کے مثبت اثرات امنیاتی نظام (امیون سسٹم) تک پہنچتے ہیں جو ہمارے جسم میں بیماریوں سے لڑنے والا فطری نظام بھی ہے۔

طبی معلومات کے مطابق ہمارے جسم میں ایک خاص غدہ ( گلینڈ) یعنی تھائمس 20 سال کے بعد سے سکڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس کا کام خاص امنیاتی خلیات ٹی سیلز بنانا ہوتا ہے۔ لیکن باقاعدہ سائیکل چلانے والوں میں تھائمس سکڑتا نہیں اور وہ جوانوں کی طرح بڑھاپے میں بھی ٹی سیلز بناتا رہتا ہے۔

یونیورسٹی آف برمنگھم میں بڑھاپے اور اندرونی سوزش کے انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ پروفیسر جینٹ لارڈ کہتے ہیں: ’سائیکل چلانے سے بہتر کوئی ورزش نہیں۔ اب سے 4000 سال قبل بقراط نے ورزش کو بہترین دوا قرار دیا تھا جسے آج فراموش کردیا گیا ہے۔‘

پروفیسرلارڈ نے کہا کہ ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ باقاعدہ ورزش بڑھاپے میں ہمارے کئی مسائل حل کرسکتی ہے۔ ہم زیادہ عرصے تک زندہ تو رہ رہے ہیں لیکن اس دوران ہماری صحت تباہ ہوجاتی ہے اور بیماریوں میں گھر جاتے ہیں۔

پروفیسر جینٹ لارڈ  کے ساتھیوں نے اپنے مطالعے میں ورزش نہ کرنے والے افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جن میں سے 57 سے 80 برس کے 75 صحت مند افراد اور 20 سے 36 برس کے 55 نوجوان شامل تھے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ سائیکل چلانا بجائے خود ایک بہترین ورزش ہے۔

باقاعدہ سائیکل چلانے والوں کا بڑھاپا بہت حد تک بیماریوں سے پاک رہ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اسے جاری رکھیں۔ سائیکل چلانے کا عمل قدرتی طور پر بدن کو کئی امراض سے دور رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ اہم تحقیق ایجنگ سیل نامی ریسرچ جرنل میں شائع ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔