بجلی کو کیوں نکالا؟

محمد منیر طاہر  جمعـء 20 اپريل 2018
گرمی آ ئے اور بجلی نہ جائے، کیا یہ ممکن ہے؟ فوٹو: انٹرنیٹ

گرمی آ ئے اور بجلی نہ جائے، کیا یہ ممکن ہے؟ فوٹو: انٹرنیٹ

نواز شریف کی باتوں میں آ کر یوپی ایس بیچ بیٹھا ھوں۔ اب کیا کروں؟ کل مجھے ایک دوست نے گلی میں روک کر پوچھا، میں نے کہا کیا واقعی آپ کو اس خوشخبری پر یقین آگیا تھا؟ ایک ٹھنڈی آہ بھرکے کہنے لگا، پاکستان کی بجلی اور پاکستانی قوم کا ساس بہو والا رشتہ ہے جس میں خوشی کم ہی ملتی ہے۔ پھر یکدم زور زور سے ہنسنے لگا، مجھے لگا کہ غصے اور غم کے مکسچر نے شاید اس کے دماغ پر اثر ڈالا ہے۔ میں نے پریشان ہوکر اس کا بازو پکڑا اور پوچھا اب کیا ہوا؟ آنکھوں سے بہتا پانی روک کر کہنے لگا: پرسوں اس بندے کو مارکیٹ سے یو پی ایس خریدتے پکڑ لیا جس نے مجھے کہا تھا بے فکر ہو کر یوپی ایس بیچ دو، اب اس کی ضرورت نہیں پڑنے والی، میرے قائد نے کہہ دیا ہے اس دفعہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہونے والی۔ وہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر پہلے تو تھوڑا گھبرایا پھر کہنے لگا: خالہ کو افغانستان بھجوانا ہے، تم تو جانتے ہو نا وہاں جنگ ہے اور لوگوں کو بےشمار مسائل کا سامنا ہے۔ اس نے ایک توقف کیا، اور مجھ سے پوچھنے لگا: پاکستان اور افغانستان میں کیا فرق ہے؟

گرمیوں کی ابتدا سے ہی پاکستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بارہ گھنٹے تک پہنچ چکی ہے اس وقت شہری علاقوں میں چار سے چھ اور دیہی علاقوں میں چھ سے بارہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے اور گرمی میں اضافہ کے ساتھ لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں مزید اضافے کے قوی امکانات ہیں۔ نون لیگ کی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد بھی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ سولہ گھنٹے ہے، لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے سابقہ وزیراعظم اور موجودہ وزیراعلیٰ کے سارے دعوے جھوٹے نکلے۔ موسم گرما کے پہلے مہینے میں ہی طویل لوڈشیڈنگ نے دیہاتی زندگی کا پہیہ جام کر دیا۔ شہری علاقوں کا یہ حال ہے کہ پانچ سال میں پنجاب میں 50 ہزار میں سے 30 ہزار پاور لومز یونٹس بند اور 32 ہزار خاندان بیروزگار ہوچکے۔ وجوہ مہنگی بجلی، چین کی سستی مارکیٹ، محکمانہ کرپشن، سمگلنگ اور مینوفیکچرنگ اخراجات بڑھ جانا ہے۔ لوڈ شیڈنگ اور دیگر مسائل نے لاکھوں افراد کو فاقہ کشی پر مجبور کردیا ہے، لاکھوں افراد کا چولہا بجلی سے چلنے والی مشینوں سے منسلک ہے؛ اگر لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہوئی تو وہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کہاں سے دیں گے؟

اندازہ کریں کہ یہ ابھی بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہے جس نے پورے ملک کے عوام کی گھریلو زندگی کو اجیرن کر رکھا ہے۔ بجلی آئی، بجلی گئی کا ڈرامہ اب اس حد تک شدت اختیار کر چکا ہے کہ بے بس عوام کے پاس لوڈ شیڈنگ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔ موجودہ حکومت کے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی سچائی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 5 سال بعد بھی پرسوں کابینہ کے اجلاس میں اس بات پر غور کیاگیا کہ وزارت پانی وبجلی کو اس رمضان میں سحری اور افطاری میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کےلیے کیا کیا بندوبست کرنےہیں۔

نواز لیگ نے 2013 کا الیکشن ان چار وعدوں پر جیتا تھا:

پہلا۔ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ

دوسرا۔ زرداری کا احتساب

تیسرا۔ مہنگائی کا خاتمہ

چوتھا۔ قرضوں سے نجات

لیکن ان میں سے ایک بھی عہد ایفا نہیں ہو سکا۔ مہنگائی کا جن چراغ میں مقید رہنے کو تیار نہیں، بلکہ تلوار لیے ہر وقت غریب کی گردن ماپنے کو تیار پھرتا ہے۔ زرداری صاحب کا احتساب گویا، ایں خیال است و محال است و جنوں است۔ قرضوں کی پوٹلی کھول کر دیکھ لیجیے، کچھ نہیں نکلنے والا۔ اور لوڈ شیڈنگ کی بات کریں تو کہاں گئے سسٹم میں 10000 نئے میگاواٹ لانے کے جھوٹے دعوے کرنے والے؟ عوام کو سخت گرمی اور بدحالی میں لوڈ شیڈنگ کا تحفہ دے کر ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا جارہا ہے۔

حکومت نے کے الیکٹرک کےلیے سبسڈی 22 ارب سے کم کر کے 15 ارب کردی ہے۔ قائد اعظم سولر پارک کی شرمناک ناکامی اور عجلت میں فروخت طے کرنے کے بعد اب 1.6 ارب ڈالر کا ساہیوال کو ل پاور پلانٹ بھی افتتاح کے 9 ماہ بعد ہی بند ہونے کے قریب ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے سارے دعوے بھی روشن پنجاب پروگرام کی طرح جھوٹ ثابت ہوچکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوام اب بھی دھوکے برداشت کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ کیا لوگ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے پر جھوٹے امیدواران کو پھر ووٹ نہیں دیں گے۔ نواز شریف اداروں سے کہہ رہے ہیں کہ ووٹ کوعزت دو، لیکن عوام سوال کرتی ہے کیا ہمارے ووٹ کو عزت دی گئی؟ عوامی مسائل حل کیے ہوتے تو آج یہ دن نا دیکھنے پڑتے۔

حکمرانوں کے کاروبار ترقی کر رہے ہیں اور پاکستان خسارے میں ہے۔ موجودہ وزیراعظم کی اپنی ائیرلائن منافع کما رہی ہے جبکہ پاکستان کے ادارے ناکام ہیں، اس سے بڑی شرم والی بات کیا ہو گی؟ لوگ بل بھی ادا کرتے ہیں اور ٹیکس بھی بھرتے ہیں، پھر بھی بنیادی ضرورت بجلی و پانی سے محرومہیں۔ جن کے کتے ائیرکنڈیشن روم میں رہیں اور عوام گرمی سے مرے، ایسے حکمرانوں کی اللہ کے ہاں سخت پکڑ ہوگی۔

شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے، مختلف سروے کے مطابق بجلی کا شارٹ فال پانچ سے سات ہزار میگاواٹ کے درمیان ہے، پاکستان میں شمسی توانائی سے 7 لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، اندازہ کریں شمسی توانائی کی ایک ہی جست لوڈ شیڈنگ کےعشق کا قصہ تمام کرسکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو بجلی تو حکمران خاندان کی چور، کرپٹ اور فراڈ بادشاہت سے پوچھ رہی ہے کہ مجھے غریب عوام کے گھروں سے کیوں نکالا؟

گرمی آ ئے اور بجلی نہ جائے، کیا یہ ممکن ہے؟ جی ہاں ہوسکتا ہے! کرپشن سے پاک قیادت کے ذریعے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد منیر

محمد منیر طاہر

بلاگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کنسلٹنٹ ہیں، ہر تعلیم یافتہ پاکستانی کی طرح معاشرے کا درد رکھتے اور پُرامن ترقی یافتہ پاکستان کے خواب پروتے ہیں۔ پاکستانی انتخابی نظام کے ناقد ہیں لیکن جمہوریت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر عام آدمی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے ان مسائل کے حل کا شعور دینے کی کوشش میں اپنے حصے کی شمع جلانے پر کاربند ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔