پختونخوا حکومت کی کارکردگی عدالتی آئینہ میں

وزیراعلیٰ نے جوابات دیے لیکن چیف جسٹس کے استفسارات نے تبدیلی کے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔


Editorial April 21, 2018
وزیراعلیٰ نے جوابات دیے لیکن چیف جسٹس کے استفسارات نے تبدیلی کے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔ فوٹو: فائل

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے آبزرویشن دی ہے کہ وہ خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، یہ بھی قرار دیا کہ ووٹ کی عزت کام کرنے سے ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بنچ نے جمعرات کو پشاور رجسٹری میں مفاد عامہ کے مقدمات کی سماعت کی اور خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے اہم ہدایات اور ریمارکس دیے۔

حقیقت یہ ہے کہ چیف جسٹس چاروں صوبوں کے فیکٹ فائنڈنگ اور اصلاح احوال کے دورے پر ہیں، وہ سندھ ، پنجاب، بلوچستان اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بنیادی انسانی سہولتوں صحت، تعلیم، پانی، خوراک، ٹرانسپورٹ، ادویات ، ماحولیات اور گورننس سمیت سیاسی و بلدیاتی نظام بشمول جمہوری حکومتوں کی کارکردگی اور انتظامی شفافیت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ جوڈیشل ایکٹیوازم کے تحت کسی روایتی سروے کا معاملہ نہیں بلکہ عوام کو درپیش مسائل کی کتھا موقع پر جاکر سننے کی ایک دردمندانہ کوشش ہے ۔

عدالت عظمیٰ اس بنیادی تصور کی روشنی میں حقائق سے آگاہی حاصل کرنا چاہتی ہے کہ اگر کہنہ سسٹم اور منجمد طرز حکمرانی میں کوئی سقم اور اسٹرکچرل خرابی ہے تو اسے دور کیا جائے، عوام کو ریلیف دیا جائے، گورننس سے عوام کو جائز شکایات ہیں، جو برس ہا برس سے چلی آرہی ہیں، شہریوں کے معیار زندگی میں کوئی تبدیلی آبھی رہی ہے یا حقیقت کچھ اور ہے یہی وہ چشم کشا نکتہ ہے جس کے تحت چیف جسٹس نے خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی پر اہم سوالات اٹھائے اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور سینئر حکام سے متعدد سوالات کرتے ہوئے حقائق معلوم کیے۔

ملک میں بلاشبہ عدالتی فعالیت پر بحث کا در بھی کھلا ہے، ماہرین قانون اور سیاست دان سمیت سول سوسائٹی اور عوامی حلقے چیف جسٹس کی سرکاری محکموں اور اہم اداروں کی اب تک کی کارکردگی پر جامع معلومات حاصل کرنے کے عمل سے خوش ہیں البتہ بیوروکریسی کی حالت خراب ہے اور حکمران حالت اضطراب میں ہیں ، جو فطری ہے کیونکہ ان کی سوئی ہوئی دم ہلانے کی بولڈ کارروائی ہورہی ہے۔

چیف جسٹس نے خیبر پختونخوا حکومت پر سقراطی طنز اس کی کارکردگی کے بلند بانگ دعوؤں کے تناظر اور اس بلیغ تبصرہ میں کیا کہ ہم نے آپ کی گورننس کا بڑا شور سنا تھا، مگر کام نظر نہیں آیا۔ ایسا منظر کہ عدلیہ اور صوبائی چیف ایگزیکٹو روبرو ہوں اور گفتگو صوبہ میں تبدیلی کی حقیقت پر ہورہی ہو، ایسا شاذ و نادر ہی ہوا ہے ، افسوس کی بات یہ ہے کہ صوبائی جمہوری حکومتیں جمہوری عمل کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کے ہدف سے ہٹ کر مسلسل الزامات کی یورش اور ایک دوسرے کو نیچا گرانے کی کشمکش میں الجھی رہیں۔

واضح رہے سماعت کے دوران چیف سیکریٹری اور سیکریٹری صحت پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا اسپتالوں سے کتنا فضلہ نکلتا ہے؟ہم نے بہتری کے لیے کچھ کرنا ہے، لاہور اور کراچی میں صورتحال بہتر بنا دی، آپ کی کیا پوزیشن ہے؟ ایڈیشنل سیکریٹری نے بتایا صوبے میں 1570 اسپتال ہیں، 2 اضلاع میں ڈی ایچ کیو اسپتال نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا حکومت نے کتنے نئے اسپتال بنائے ؟ کیا نئی سہولیات دی گئیں؟ کارڈیالوجی اسپتال بنایا؟

چیف سیکریٹری اور سیکریٹری ہیلتھ اس کا جواب دینے سے قاصر رہے، جس پر چیف جسٹس نے سرزنش کرتے ہوئے کہا یہ ہے آپ کی کارکردگی، قوم نے آپ کو کام کے لیے ووٹ دیا،آپ کیا کر رہے ہیں؟ پشاور کا گند آپ کس نہر میں ڈال رہے ہیں؟ ڈمپنگ گراؤنڈ کیوں نہیں؟ آپ تو کہتے ہیں یہاں سب اچھا ہے، گڈ گورننس اور کیا ہوتی ہے؟ وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو پرویزخٹک پیش ہوئے، چیف جسٹس نے انھیں روسٹرم پربلا کر استفسارکیا کہ آپ نے حکومت میں کیا کیا۔

وزیراعلیٰ نے جوابات دیے لیکن چیف جسٹس کے استفسارات نے تبدیلی کے دعوؤں کی قلعی کھول دی، اسی طرح جیسے سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے پاس سوائے ندامت اور وضاحتوں کے کچھ بھی نہ تھا، ملک کو آزاد ہوئے ستر برس ہوگئے مگر حالات قرون وسطیٰ جیسے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پانچ سال بڑا عرصہ ہوتا ہے، آپ نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کیا کام کیے؟جس پر پرویز خٹک نے جواب دیا کہ ہم نے پرانا اسٹرکچر بحال کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی حکومت کے بارے سنا تھا کہ آپ اچھا کام کررہے ہیں لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں، بیورو کریسی نے ہی سب کرنا ہے توآپ کیوں یہاں بیٹھے ہیں؟ مسند انصاف کی طرف سے یہ صائب بات سنائی دی کہ ووٹ کا تقدس عوام کی خدمت سے ہوتا ہے۔ ووٹ کی تقدیس کا نیا نعرہ خوش آیند ہے مگر اس بات کو منطقی انداز میں بیان کیا گیا کہ خدمت خلق ہی ووٹ یا ووٹر کی توقیر کا باعث بننا چاہیے جب کہ جمہوریت بدقسمتی سے حکمرانوں کی نعرہ بازی کی نذر ہوگئی۔ خیبر پختونخوا کے ''کارکردگی سرچ '' میں عدلیہ کے استفسارات سے بہت سارے حقائق سامنے آئے جن میں قدر مشترک سندھ ، بلوچستان اور سندھ میں ان مصائب کی یکسانیت تھی ۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ میں تنہا اس نظام کو درست نہیں کر سکتا۔ اس مجبوری میں عدالت عظمیٰ در حقیقت انتظامیہ کو بیدار کرنے پر کمربستہ نظر آتی ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے کہ سسٹم کو خدمت کے نئے جذبہ سے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔

دریں اثنا پشاور ہائیکورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے رائے عامہ کے سیاق و سباق میں کہا کہ لوگ تنقید کرتے ہیں کہ ہم فیصلہ جلد اور قانون کے مطابق نہیں کر رہے مگر ریاست کی سب سے کم ترجیح عدلیہ ہے تو ذمے دار میں نہیں، 1861 کا قانون تبدیل نہ ہونے کی ذمے دار سپریم کورٹ نہیں، میں قانون بنانے والا نہیں بلکہ اسے نافذ کرنے والا ہوں، ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے، عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، ہم نے مداخلت شروع کر دی ہے، اب ہم بھی ریاست میں آتے ہیں، انھوں نے جسٹس(ر) دوست محمد خان کی جانب سے فل کورٹ ریفرنس قبول نہ کرنے سے متعلق قیاس آرائیوں کے بارے میں کنفیوژن بھی دور کیا۔

یہ حقیقت ہے کہ ججز رائے عامہ پر نہیں قانون کی روح کے مطابق فیصلے دیتے ہیں۔ وقت کے تغیرات نے ججز کو صرف اپنے فیصلوں کے ذریعے بولنے سے ذرا ہٹ کر روح عصر کے مطابق حکمرانوں کو راہ راست پر لانے کا آئینی طریقہ اختیار کیا ہے۔ ملکی نظام کوا سٹیٹس کو نے یرغمال بنا رکھا ہے اور یہ بات عدالتی فعالیت نے منکشف کی ہے۔ بزرگ دانشور ابن جبران کا قول ہے کہ بادشاہ روئے ارض کے جج ہوسکتے ہیں مگر اہل عقل ودانش بادشاہوں کے جج ہوا کرتے ہیں۔ عدلیہ آج ملکی صورتحال کے انتہائی اہم موڑ پر مقدمات کی سماعت کررہی ہے، ریاست کے سارے ادارے قابل احترام ہیں، عدلیہ کا تقدس ووٹ کے تقدس سے کم نہیں۔ بات عوام کی حالت بدلنے کی ہے اور اسے بدلنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں