کراچی میں لوڈشیڈنگ کا بحران اور سیاسی سرگرمیاں

شہباز شریف کی ایم کیو ایم پاکستان بہادرآباد کے رہنماؤں سے ملاقات کافی نہیں، اور بھی گروپ ہیں،ان میں مفاہمت ناگزیر ہے۔


Editorial April 24, 2018
شہباز شریف کی ایم کیو ایم پاکستان بہادرآباد کے رہنماؤں سے ملاقات کافی نہیں، اور بھی گروپ ہیں،ان میں مفاہمت ناگزیر ہے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی گزشتہ روز کراچی میں تھے۔ گورنر ہاؤس کراچی میں ان کی زیرِصدارت کابینہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس ہوا، اجلاس میں گورنر سندھ محمد زبیر، وزیراعظم کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل، وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری، سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے نمایندوں سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں کراچی میں لوڈ شیڈنگ کے بحران اور اس کی وجوہات پر تفصیلی غور کیا گیا، اس موقع پر سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے نمایندوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ گیس کی کمی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی اب نہیں ہوگی، کے الیکٹرک کے مسائل حل کردیے ہیں۔

کراچی میں بجلی کے بحران نے اس صنعتی اور کاروباری شہر کی کاروباری سرگرمیوں کو بھی بری طرح متاثر کیا اور اس کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی زندگی بھی مشکل بنا رکھی ہے۔ وزیراعظم نے جو نوید سنائی ہے اس سے امید ہے کہ کراچی میں بجلی کے بحران میں کمی آئے گی اور یہاں کاروباری سرگرمیاں اپنی پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہو جائیں گی۔

ادھر کراچی میں سیاسی سرگرمیوں میں بھی خاصی تیزی آئی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ(ن)کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے اتوار کو کراچی کا دورہ کیا اور مختلف اجتماعات سے خطاب، وفود، سیاسی شخصیات، سفارت کاروں اور صنعت کار و تاجر برادری سے ملاقاتیں کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، ہمیں کراچی شہر میں اپنی سیاسی طاقت کا اندازہ ہے، شہر قائد کو معاشی انصاف کی شدید ضرورت ہے، ان کا کہنا تھا کہ موقع ملا توکراچی کو نیویارک بنا دیں گے۔

ماضی کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ اس شہر کے ساتھ جوکچھ ہوا وہ ظلم کی طویل داستان ہے، یہاں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر لگنے والے کروڑوں روپے کے فنڈزکا احتساب ہونا چاہیے جب کہ کراچی میں لوڈشیڈنگ کی ذمے دار بجلی کمپنی کے الیکٹرک ہے۔

اپنے دو روزہ دورے میں وہ کراچی کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے ہر مکتب فکر ، سیاسی مین اسٹریم جماعتوں کے قائدین ، کارکنوں سے ملے، ان کے دورہ کو بادی النظر میں انتخابی دورہ کہا جا سکتا ہے جو اس اعتبار سے خوش آیند بھی تھا کہ کراچی کے نئے سیاسی ماحول ، امن و امان کی مجموعی صورتحال، روادارانہ جمہوری فضا میں شہبازشریف کراچی پہنچے، ایم کیو ایم کو ساتھ لے کر چلنے کا وعدہ کیا، شہر کی روشنیاں بحال، پانی ، بجلی، ٹرانسپورٹ، سڑکوں سمیت تمام مسائل حل کرنے کی بات کی جب کہ پی پی ، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں نے جمہوری اسپرٹ سے ان کی تقاریر اور بیانات پر رد عمل ظاہر کیا، بعد ازاں لیاری اوربلدیہ ٹاؤن ،گلشن غازی میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کیا، شہباز شریف عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما شاہی سید کی رہائشگاہ ''مردان ہاؤس'' بھی گئے۔

وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان ہم سب کا ہے اور ہم سب نے اسے مل کر سنوارنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امن و امان کے قیام میں تاجر و صنعت کاروں کا تعاون قابل تحسین ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کراچی میں اہمیت کی حامل بڑی سیاسی جماعتوں کی پچھلی کارکردگی پر گرفت کی اور کہا کہ کراچی سے ماضی میں کی گئی زیادتیوں کا ازالہ کریں گے۔ مگر کیسے؟

اگر سیاسی افہام و تفہیم، خیرسگالی اور سماجی و معاشی مسائل کے حل کی مشترکہ جستجو میں ساری سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات فراموش کر کے کراچی کے دکھوں کا مداوا کرنے کا عہد کرلیتی ہیں توآیندہ انتخابات کی تیاری کرتے ہوئے ملکی سیاست میں جمہوری سوچ کو فروغ دیں بلکہ سیاست میں تحمل، شائستگی، خدمت خلق ، قومی سالمیت، عوامی ریلیف اور جمہوری عمل میں شفافیت کو بھی یقینی بنانے کے نئے امکانات پیدا کریں ۔

شہباز شریف کی ایم کیو ایم پاکستان بہادرآباد کے رہنماؤں سے ملاقات کافی نہیں، اور بھی گروپ ہیں،ان میں مفاہمت ناگزیر ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کے مطابق انتخابات آنے والے ہیں یہاں سے عوام جسے مینڈیٹ دیں، الیکشن کے نتائج جو بھی نکلیں، ہم نے مل کر اس شہر کی روشنیوں کو مکمل طور پر بحال کرنا ہے۔ یہ مثبت سوچ ہے۔ بلاشبہ کراچی میں امن رینجرز اور پولیس کا کریڈٹ ہے ، دہشتگردی کے خلاف وفاقی حکومت نے کراچی آپریشن کی منظوری دے کر ایک بڑی پیش قدمی کی ہے اور یہ کہنا درست ہے کہ امن اور انصاف جڑے ہوئے ہیں۔ معاشی انصاف اور امن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کراچی میں لوڈ شیڈنگ بدترین ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اس ضمن کے الیکٹرک کو نہیں بخشا۔

واضح رہے وزیر بجلی اویس لغاری نے وزیر اعلیٰ سندھ کے خط کے جواب میں انھیں ایک اور خط تحریر کیا جس میں وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کراچی میں لوڈشیڈنگ کے مسئلے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے حل کے لیے پر عزم ہے جب کہ کراچی کے شہریوں کی آسانی کے لیے انھیں قومی گرڈ سے کسی معاہدے کے بغیر 450 میگاواٹ بجلی فراہم کررہی ہے اور وفاقی حکومت اس بجلی کی فراہمی کا کوئی الاؤنس نہیں لے رہی۔ مگر سندھ حکومت سخت برہم ہے۔

وزیراعلی ٰسندھ سید مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ اگر وفاق مجبور ہے تو بجلی کا انتظام سندھ حکومت کو دے۔ یہ تنازع ختم ہونا چاہیے،ادھر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (پی آئی بی) کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے وفاقی و صوبائی حکومت کو پانی، بجلی سمیت کراچی کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی حکمت عملی اعلان نہیں کیا تو پھر گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، کے الیکٹرک، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے دفاتر کا گھیراؤکیا جائے گا اور دھرنے دیے جائیں گے۔ اس سے قبل پاک سرزمین پارٹی اور جماعت اسلامی بھی شہر میں بجلی کے مسائل پر کے الیکٹرک کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرچکی ہیں۔لوگ سننا چاہتے ہیں کہ بجلی کا مسئلہ حل ہوگیا۔

اس میں دو رائے نہیں کہ کراچی کی ڈیموگرافک ، سماجی ، معاشی تباہی اور سیاسی زوال و انتشار کے کھیل میں کسی ایک حکومت یا مخصوص جماعت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، کراچی نے اندوہ ناک ''کولیٹرل ڈیمج '' کے زخم کھائے ہیں، آج کراچی کو دائمی امن، کثیر جہتی سرمایہ کاری اور دست تعاون کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں