شہباز شریف کی نئی حکمت عملی

حیران کن بات ہے کہ شہباز شریف کو کراچی میں ریسپانس مل رہا ہے۔


مزمل سہروردی April 24, 2018
[email protected]

میں جب بھی کراچی آتا ہوں، میری لاہور کے لیے محبت اور بڑھ جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے کراچی سے پیار نہیں بلکہ یہ اس لیے ہے کہ اس وقت کراچی جس حالت میں ہے، اس کے بعد لاہور بہتر نظر آتا ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ بات کہی جاتی تھی کہ لاہور کو کراچی جیسا بنانا ہے لیکن اب تو کراچی میں یہ نعرہ لگنا شروع ہو گیا ہے کہ کراچی کو لاہور جیسا بنانا ہے۔ کراچی کے ساتھ گزشتہ دہائی میں جو ظلم ہوا ہے، کراچی کا چپہ چپہ اس کی کہانی بیان کر رہا ہے۔

کراچی کی گلی گلی اور ہر سڑک خون کے آنسو رو رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کراچی کے پوش علاقوں کی حالت اچھی ہے اور متوسط اور غریب علاقوں کی حالات بری بلکہ پورا کراچی ایک ہی منظر پیش کر رہا ہے۔ غلاظت کے ڈھیر، ٹوٹی سڑکیں، پانی کی کمی ، لوڈ شیڈنگ۔ لیکن امن ہے، سکون ہے۔ہڑتالوں کا کلچر ختم ہو گیا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ ختم ہو گئی ہے۔ بے شک لوگ اس امن و سکون پر پاک فوج اور رینجرز کے شکر گزار ہیں۔

حیران کن بات ہے کہ شہباز شریف کو کراچی میں ریسپانس مل رہا ہے۔ کراچی کے لوگ شہباز شریف کی طرف ایک امید سے دیکھ رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ شہباز شریف کراچی میں بہت مقبول ہو گئے ہیں اور اگلے انتخاب میں شہباز شریف کراچی میں چھا جائیں گے لیکن کراچی میں لاہور میں ہونے والوں کاموں پر شہباز شریف کی پذیر آئی قابل دید ہے۔ کراچی کی مشہور تنظیم فکس اٹ جس نے کراچی کے کھلے مین ہولز کے خلاف ایک کامیاب تحریک چلائی تھی ،کھلے عام کراچی میں بینر اور پوسٹر لگا رہی ہے کہ اب شہباز شریف ہی کراچی کو فکس کریں گے۔ NOW SHAHBAZ WILL FIX KARACHI TOOَ َ َ َ۔

شہباز شریف جب ایم کیو ایم بہاد آباد کے دفتر میں گئے تو وہاں ساری قیادت موجود تھی۔ کراچی کے میئر وسیم اختر جو ایک دن پہلے ہی لاہور سے واپس آئے تھے وہ بھی موجود تھے ۔ ایم کیو ایم کی قیادت جو کراچی کے حقیقی سیاسی وارث ہونے کے دعویدار ہیں وہ بھی لاہور میں ترقیاتی کاموں کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ کراچی کی محرومیوں کی ان کے پاس مختلف وضاحتیں تھیں۔ جس پر بحث کی جا سکتی ہے کہ وہ کس قدر جائز ہیں۔

وہ کراچی کی بری حالت کا ذکر کر ہی تھی، وفاق سے پیسے نہ ملنے کا گلہ کر رہی تھی، پیپلزپارٹی کی عدم توجہ کا ذکر کر ہی تھی اور یہ مقدمہ پیش کر رہی تھی کہ کراچی کے سب مسائل کی وجہ ان کے سوا اور سب ہیں۔ تب شہباز شریف کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ لاہور اور پنجاب میں جو ترقی ہوئی ہے، اس میں وفاق سے کوئی اضافی گرانٹ یا پیکیج نہیں لیا ہے۔

سب کچھ پنجاب نے اپنے وسائل سے لیا ہے۔ جب کہ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور میں سندھ کو اضافی گرانٹ ملتی رہی، یہ الگ بات ہے کہ اس کے ثمرات کہیں نظر نہیں آتے۔ کراچی میں وفاق کے نا مکمل منصوبے بھی نظر آتے ہیں لیکن لاہو ر اور پنجاب میں وفاق نے کوئی اضافی منصوبہ شروع نہیں کیا ہے۔ اسی طرح مہاجروں کے بعد کراچی کے پٹھان بھی لاہور اور کراچی میں ہونے والے کاموں کے معترف نظر آرہے ہیں۔ شہباز شریف کے حالیہ دورہ کراچی کے دوران اے این پی کے شاہی سید نے انھیں اپنے گھر مدعو کیا۔ جہاں کراچی کی تمام پٹھان قیادت موجود تھی۔ وہاں بھی موضوع بحث لاہور پنجاب کی ترقی ہی تھی۔

پٹھان کراچی کی دوسری بڑی کمیونٹی ہے اور ان کی کراچی میں ایک اپنی سیاسی حیثیت ہے۔ یہ حیثیت اس لیے بھی ممتاز ہے کہ وہ ایک طرف کراچی کے بھی نمایندہ ہیں ، دوسری طرف کے پی کے بھی نمایندہ ہیں۔ وہ بھی لاہور اور پنجاب میں شہباز شریف کی جانب سے کیے گئے ترقیاتی کاموں کی تعریف کرتے تھک نہیں رہے تھے۔ اور یہی کہ رہے تھے کہ کراچی اور کے پی کو بھی لاہور اور پنجاب جیسا بنانا ہے۔

شہباز شریف نے آہستہ آہستہ بطور صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) کام شروع کر دیا ہے۔ انھوں نے دوسرے صوبوں میں جانا شروع کر دیا ہے۔ ان کا کراچی کا حالیہ د ورہ ایک ہفتہ میں کراچی کا دوسرا بڑا دورہ تھا۔وہ پشاور گئے ہیں، بلوچستان جا رہے ہیں، مردان جا رہے ہیں بلکہ کراچی میں بجلی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انھوں نے اپنے دورہ کراچی کے دوران وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر توانائی اویس لغاری کو بھی کراچی ہی طلب کر لیا۔

یہ واضع اشارہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں اب ان کی رٹ قائم ہو چکی ہے ، وہ مسلم لیگ (ن) کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے ہیں ۔ کراچی کے گورنر ہاؤس میں کراچی کے بڑے کاورباری اور صنعتکاروں کے ساتھ عشائیہ میں بھی کراچی کا لاہور سے موازنہ ہی زیر بحث تھا۔ گورنر سندھ محمد زبیر کی جانب سے ایک خصوصی ڈاکومینٹری دکھائی گئی جس میں بالخصوص لاہور میں ہونے والے ترقیاتی کاموں پر فوکس تھا۔ یقینا کراچی کا صنعتکار کراچی کی حالت پر پریشان ہے۔ وہ امن سے خوش ہے لیکن شہری مسائل سے پریشان ہے۔ اب یہ اس کے کاروبار میں رکاوٹ ہیں۔ایسے میں لاہور کے ترقیاتی کاموں کو دیکھتا ہے۔

گورنر ہاؤس سندھ میں عشائیہ کے دوران گپ شپ میںمیں نے گورنر سند ھ سے پوچھا کہ ایک طرف نواز شریف ووٹ کو عزت دو کی تحریک چلا رہے ہیں دوسری طرف شہباز شریف اپنے لاہور اور پنجاب میں کیے گئے کاموں کی بنیاد پر ووٹ مانگنے نکلے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔ انھوں نے کہا یہ کھلا تضاد نہیں، حسین امتزج ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں جو گفتگو نواز شریف کرتے ہیں وہ شہباز شریف نہیں کرتے۔ شہباز شریف صرف اور صرف اپنے کام دکھا کر ووٹ مانگنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم نے اتنے کام کیے ہیں کہ ہم اگر عوام کے سامنے وہی رکھیں تو لوگ ہماری طرف متوجہ ہو جائیں گے جب کہ نواز شریف ایک بڑی سیاست کر رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا شہباز شریف کے ان پے درپے دوروں سے ن لیگ کراچی میں بحال ہو جائے گی۔ صورتحال کافی دلچسپ ہے۔ وہی صورتحال جس کا پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم لاہور اور پنجاب میں شکار ہیں۔ ویسی ن لیگ سندھ اور کراچی میں شکار ہے۔ جیسے آصف زرداری اور بلاول گزشتہ دو سال سے لاہور کے پے درپے دورہ کر کے پیپلزپارٹی کو لاہور اور پنجاب میں زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اسی طرح ن لیگ اب انتخابات کے موقع پر کراچی میں نقب لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دونوں کس قدر کامیاب ہوںگے یہ الگ بات ہے۔ ایم کیو ایم نے بھی لاہور میں کام شروع کیا تھا۔ باقاعدہ دفتر بھی بنایا۔ تنظیم بھی بنائی تھی۔ اس لیے یہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کا اپنے مضبوط گڑھ سے نکل کر ان علاقوں میں کام کرنا جہاں وہ مضبوط نہیں ہیں۔ جمہوری عمل کی ایک خوبصورت شکل ہے۔

شہباز شریف کراچی میں صرف مسلم لیگ (ن) کو متحرک نہیں کر رہے۔ صرف اپنے کاموں کی تشہیر نہیں کر رہے بلکہ وہ کراچی میں سیاسی حلیفوں کی تلاش میں بھی ہیں۔ ن لیگ کراچی اور سندھ میں اپنی سیاسی تنہائی ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے اے این پی اور ایم کیو ایم اچھی چوائس ہیں۔ اگر ن لیگ کے اے این پی سے کے پی میں معاملات طے ہو جاتے ہیں تو یہ شراکت داری کراچی میں بھی ہو سکتی ہے۔

ایم کیو ایم کی قیادت نے تو اکٹھے چلنے کی کھلی پیشکش کی ہے۔ انھوں نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر ن لیگ اس موقع پر ایم کیو ایم کو سپورٹ کرے تو کراچی حید ر آباد اور دیگر سندھی علاقوں میں اکٹھے چلنے پر بات ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت تو یہاں تک کہ رہی تھی کہ ہمارا بہترین دور ہی وہ تھا جب ہمارا ن لیگ کے ساتھ الائنس تھا۔ شائد ایم کیو ایم بھی بند گلی میں ہے۔ وہ تحریک انصاف کے ساتھ نہیں جا سکتے۔ پیپلزپارٹی سے ان کی پکی کٹی ہو گئی ہے۔ ایسے میں ن لیگ ہی ان کی واحد چوائس ہے۔ اسی لیے وہ شہباز شریف کو خو ش آمدید کہہ رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں