حکومتی مشینری سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بوجھ سمجھنے لگی

حکومتی مشینری سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بوجھ سمجھنے لگی


Irshad Ansari April 25, 2018
حکومتی مشینری سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بوجھ سمجھنے لگی فوٹوفائل

سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس نے اپنی طرز منصفی سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دورکی یادیں تازہ کی ہیں جس طرح سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مختلف معاملات میں ازخود نوٹسز لے کر وقت کے حکمران اور حکومتی میشنری کو مکمل طور پر جام کردیتے تھے، ٹھیک اسی طرح موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی حکمران جماعت کے اہم رہنماوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات میں سخت فیصلے صادرکرکے حکومت کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے جبکہ متعدد معاملات میں سوموٹو ایکشن کی وجہ سے وزراء اور بیوروکریسی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

چیف جسٹس کے انہی سخت فیصلوں، بیانات اور ایکشن سے نالاں ہوکر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے یہاں تک کہہ دیا کہ ملک میں جوکچھ ہو رہا ہے وہ جوڈیشل مارشل لا سے کم نہیں ہے۔ نواز شریف نے نہ صرف اس بات پر اکتفاء کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کہا کہ ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی بدترین ڈکٹیٹر شپ ہے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ اتنی پابندیاں دور آمریت میں نہیں لگائی گئیں جو اب دیکھنے میں آرہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا چیف جسٹس کا یہ طرزعمل اورطرز منصفی درست ہے؟ کیا چیف جسٹس آف پاکستان کو انتظامی معاملات میں مداخلت کرنی چاہیے؟

کیا چیف جسٹس کو سیاستدانوں کی طرح تقریریں کرنے اور بیانات دینے چاہیے؟ اور دوسری طرف کیا موجودہ حکومت کے وزراء اور رہنماوں کو یہ اخلاقی حق حاصل ہے کہ وہ چیف جسٹس اور عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کریں؟ عدلیہ پر اس طرح الزام تراشی کریں؟ اور عدلیہ کو للکاریں؟۔ تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ جس ملک اور معاشرے میں انصاف کا نظام نہ ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ انصاف کی فراہمی کیلئے ٹھوس نظام کا ہونا ضروری ہے، آزاد عدلیہ کا ہونا ضروری ہے اور عدلیہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ ایسے فیصلے کرے جس سے عام لوگ بھی سمجھ سکیں کہ انصاف ہوا ہے اور انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔

ہمارے ہاں بدقسمتی یہ ہے کہ ملک میں کمزور اور طاقتور کے لئے ہمیشہ سے قانون اور انصاف کا معیار الگ الگ رہا ہے، غریب کو چھوٹے سے چھوٹے مقدمات میں سزا ہو جاتی ہے اور ان کے مقدمات کئی سالوں تک انصاف کے حصول کے لئے کچہریوں کی فائلوں میں دبے رہتے ہیں، مگر فیصلے جاری نہیں ہوتے۔ جبکہ امراء اور طاقتور کے خلاف مقدمات کم ہی چلتے ہیں۔کم ہی مثالیں ایسی ہیں جس میں کسی طاقتور فرد یا گروہ کو عدالتوں سے سزائیں ہوئی ہوں۔

اگر کسی طاقتور کو سزا ہوئی بھی ہے تو کسی غریب یا مظلوم کی اپیل پر یا درخواست پر انہیں سزائیں نہیں ہوئی ہیں بلکہ دو طاقتورفریقین کے درمیان ہونے والے مقدمات میں کمزور پڑنے والے طاقتور کو سزائیں ہوئی ہیں۔ حالیہ دور میں اگر نواز شریف پانامہ کیس میں عدالتی شکنجے میں آئے ہیں تو یہ کسی عام غریب، یا مظلوم خاندان کی شکایت پر نہیں ہوا بلکہ نواز شریف کے مد مقابل طاقتور گروہ کی پرزور اپیل، احتجاج اور دھرنوں کے بعد نواز شریف کو کٹہرے میں لایا گیا اور انہیں عدالت سے سزا بھی ہوئی۔ اسی مقدے میں ان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا۔ ان کو ہمیشہ کیلئے سیاست سے دور رکھنے کا فیصلہ سنایا گیا اور آج بھی وہ آئے روز عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ۔

اب جب نواز شریف عدالت سے نااہل ہوئے ہیں تو کیا انہیں یہ اخلاقی حق ہے کہ وہ عدالتی فیصلے پر تنقید کریں اور اس کو جوڈیشل مارشل لاء یا بدترین ڈکٹیٹرشپ قرار دیں۔کیونکہ ماضی میں جب پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت سے نااہلی کی سزا دی گئی تھی تو یہ نواز شریف اور اس کے ساتھی رہنما تھے جنہوں نے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ حق اور سچ کی فتح ہوئی ہے، عدالت نے حق پر فیصلہ دیا ہے اور یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ کا منصب فوراً چھوڑ دینا چاہئے، گیلانی وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھا ہے، عدالتی فیصلے کا احترام کیا جائے وغیرہ وغیرہ ۔آج اسی عدالت سے ان کے خلاف فیصلے صادر ہوجائیں تو کیا اب انہیں ان فیصلوں پر تنقید کرنا چاہئے، کیا انہیں عدالتی فیصلوں کا احترام نہیں کرنا چاہئے۔

اگر اس وقت نواز شریف اور دیگر رہنما یہ بیان دیتے ہیں کہ کسی منتخب وزیر اعظم کے خلاف اس طرح عدالتی حکم پر نااہلی کا فیصلہ درست نہیں تو انھیں یہ کہنے سے قبل اپنے سابقہ طرز عمل پر غور کرنا چاہیے۔ اس موقع پر اگر حکمران جماعت سابق وزیر اعظم کا ساتھ دیتی اور ان معاملات کو عدالت میں لے کر جانے کے بجائے پارلیمان میں حل کرتی اور آئندہ اس قسم کی مشکلات کو روکنے کے لئے ٹھوس اور جامع قانون سازی کرتی تو آج نواز شریف اور ان کی جماعت کو یہ مشکل دن اور حالات دیکھنے کو نہ ملتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالتی فیصلوں سے حکمران جماعت اور حکومت کو شدید مشکلات درپیش ہیں اور حکومتی مشینری مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گئی ہے، اس وقت ملک میں اور خاص طور پر اسلام آباد میں انتظامی مشینری بے بس ہے، تمام فیصلے اور احکامات عدالت سے جاری ہو رہے ہیں، چاہے اعلیٰ عہدوں پر تقرری کا معاملہ ہو، ملازمین کو تنخواہیں دینے کا معاملہ ہو، ہسپتالوں میں ادویات اور سہولیات کی فراہمی کا معاملہ ہو، شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا معاملہ ہو ہر اہم معاملے میں سپریم کورٹ کاروائی کر رہی ہے، سپریم کورٹ احکامات صادر کررہی ہے۔

پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے اہم شخصیات کی سکیورٹی پر تعینات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو واپس بلانے کے حکم دیا تھا، جس پر تنقید بھی ہوئی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ اگر ان کے والد کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پر ہو گی۔ بعد ازاں عدالت نے وضاحت پیش کی کہ جن شخصیات کی جان کو خطرہ ہے ان کو قانون کے مطابق سکیورٹی اہلکار فراہم کیے جائیں۔ چیف جسٹس نے خاص طور پر کہا کہ میاں نواز شریف سابق وزیر اعظم ہیں اور قانون کے مطابق ان کو جو سکیورٹی ملنی چاہیے وہ فراہم کی جائے۔ ان سارے حالات و واقعات کو دیکھنے کے بعد لگتا یہی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی یادیں تازہ کی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں