’’ کُتے کی قبر‘‘۔۔۔ یہ مقام قیام پاکستان سے بلوچستان کا حصہ ہے

محمد شعیب / ندیم گرگناڑی  اتوار 29 اپريل 2018
گیس کے ذخائر سے مالامال علاقے کی ملکیت کے معاملے پر اہل بلوچستان کا موقف۔ فوٹو: فائل

گیس کے ذخائر سے مالامال علاقے کی ملکیت کے معاملے پر اہل بلوچستان کا موقف۔ فوٹو: فائل

(سنڈے میگزین کے گزشتہ شمارے میں صوبہ سندھ اور بلوچستان کے سرحدی اور متنازعہ حیثیت اختیار کرجانے والے مقام ’’کُتے کی قبر‘‘ کے بارے میں دیدار سومرو کا مضمون شایع ہوا تھا، جس میں اس مقام کے حوالے سے حکومت سندھ  اور صوبہ سندھ کے منتخب نمائندوں اور سیاست دانوں کا موقف پیش کیا گیا۔ زیرنظرمضمون میں اس علاقے کے بارے میں بلوچستان کا موقف دیا جارہا ہے)

بلوچستان اور صوبہ سندھ کے درمیان سرحدی علاقے ڈھاڈارو (کتے کی قبر) کا تنازعہ شدت اختیار کر گیا۔ دونوں صوبے ڈھاڈارو کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔ ڈھاڈاروکیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں سندھ کے شہداد کوٹ اور بلوچستان کے ضلع خضدار کے درمیان واقع ہے، جو سطح سمندر سے 7500 فٹ کی بلندی پر ہے۔ کیرتھر پہاڑی سلسلہ قمبر علی خان میں شامل ہے، بلوچی زبان میں لفظ کتے کی قبر نہیں استعمال ہوتا، یہ سندھی زبان کا لفظ ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں بھی اس کو سندھ کا ہی حصہ دکھایا گیا ہے۔ کتے کی قبر کے علاقے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں گیس کے ذخائر موجود ہیں۔

ڈھاڈارو میں بلوچ قبائل کے ساتھ سندھی قبائل چھٹا اور گھائنچا برادریاں آباد ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بلوچستان کے تیسرے بڑے ضلع خضدار کی تحصیل کرخ کے16 موضع جات کو صوبے سندھ کے علاقہ قمبر شہداد کوٹ میں شامل کیے جانے کے فیصلے نے (کُتے کی قبر) ڈھاڈارو کے مقامی باشندوں سمیت عوامی نمائندوں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ حلقہ بندیوں میں سندھ میں شامل کیے گئے سن چکو  میں گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ یہ چھوٹا سا علاقہ قیام پاکستان سے اب تک بلوچستان کا حصہ رہا ہے۔ بلوچستان اسمبلی نے ڈھاڈارو کے تنازعے پر قرارداد منظور کرتے ہوئے تنازعے کے حل کے لیے معاملے کو حلقہ بندیوں سے متعلق ایوان کی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا ہے۔

2013ء تک ہونے والے عام انتخابات میں ڈھاڈارو کا علاقہ خضدار کی صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 39 میں شامل رہا ہے۔ صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی بی 39 سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کا حلقہ انتخاب ہے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے فنڈز سے ڈھاڈارو کے علاقے میں ترقیاتی منصوبوں پر کاموں کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈھاڈارو سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی شہری ڈاکٹر خلیل احمد بہلول نے ڈھاڈارو کو ضلع خضدار کے انتخابی حلقے سے نکال کر قمبر شہداد کوٹ کے حلقہ 203 میں شامل کرنے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں پٹیشن دائر کررکھی ہے۔

حالیہ مردم شماری میں خضدار کی آبادی4لاکھ17ہزار سے بڑھ کر 8 لاکھ 2 ہزار207 ہوگئی ہے۔ اس طرح گذشتہ 20 سالوں کے دوران ضلع کی آبادی میں 3.49فی صد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ مردم شماری میں خضدار کے شہری علاقوں کی آبادی 2 لاکھ77 ہزار جب کہ دیہی علاقوں کی آبادی5 لاکھ 24 ہزار ظاہر کی گئی ہے۔ ضلع میں مردوں کی آبادی4 لاکھ21 ہزار، خواتین کی 3لاکھ 80 ہزار ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کی جانے والی حلقہ بندیوں کے مطابق خضدار کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں حلقہ پی بی39خضدار Iتحصیل خضدار ماسوائے میونسپل کارپوریشن خضدار، تحصیل زہری، سب تحصیل کرخ ، سب تحصیل مولا پر مشتمل ہے۔

پی بی 40 خضدار II خضدار میونسپل کارپوریشن، تحصیل نال (ماسوائے گرگ اور درنالی) پر مشتمل۔ حلقہ پی بی 41 خضدارIII تحصیل وڈھ، سب تحصیل آڑنجی، سب تحصیل سارونہ اور نال کے علاقوں گرک اور درنالی پر مشتمل ہے۔ ان حلقوں میں سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری، سردار اختر جان مینگل، رکن صوبائی اسمبلی سردار اسلم بزنجو کے آبائی حلقے شامل ہیں اور یہ تینوں قدآور شخصیات موجودہ صوبائی اسمبلی کا حصہ ہیں۔ ان حلقوں میں مسلم لیگ ن، بلوچستان نیشنل پارٹی ، جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی اور نیشنل پارٹی اپنا اثر رسوخ رکھتی ہیں۔ حلقہ بندیوں میں خضدار کی تحصیل کرخ 16 موضع جات کو سندھ کے علاقہ قمبر شہداد کوٹ میں شامل کرنے کے خلاف، ڈھاڈارو، یونین کونسل سن چکو سمیت خضدار اور کرخ کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔

علاقہ سے منتخب نمائندہ رکن بلوچستان اسمبلی سردار اسلم بزنجو نے خضدار کے علاقوں کو قمبر شہداد کوٹ میں شامل کرنے کے خلاف گذشتہ دنوں صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں قرارداد پیش کی جسے ایوان نے اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔ رکن بلوچستان اسمبلی سردار اسلم بزنجو نے موقف اختیار کیا ہے کہ خضدار کی تحصیل کرخ کے ایک علاقے سن چکو میں گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں مگر موجودہ حلقہ بندی میں اس علاقے کو بلوچستان کے بجائے سندھ میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ اقدام بلوچستان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اگرچہ یہ چھوٹا سا علاقہ ہے ، مگر یہ شروع دن سے بلوچستان کا حصہ رہا ہے۔ سندھ کی حکومت نے پہلے بھی اس طرح کی کوشش کی تھی، مگر بلوچستان کی حکومت نے یہ کوشش ناکام بنادی تھی۔ اب حلقہ بندی میں اس علاقے کو سندھ میں شامل کیا جانا انتہائی تشویش ناک ہے۔

اس حوالے سے حمایت میں جمعیت علماء اسلام کے رکن بلوچستان اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران کا کہنا ہے کہ ڈھاڈارو سے ملتا جلتا ایک مسئلہ بارکھان میں بھی پیش آیا ہے، جہاں فورٹ منرو کے راستے بلوچستان کی زمینوں کے لیے پنجاب سے بجلی لائی جارہی ہے۔ قانونی طور پر یہ نہیں ہوسکتا۔ ہمیں خدشہ ہے کہ آج وہاں بجلی لائی جارہی ہے کل وہاں بھی خضدار کے علاقے کی طرح مسئلہ پیش آجائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب سے ہماری طرف تجاوزات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔ مشیرخزانہ ڈاکٹر رقیہ ہاشمی کا بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں دونوں معزز اراکین اسمبلی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اراکین اسمبلی کی تشویش بجا ہے۔ مجھے لگتا ہے اسلام آباد میں بیٹھ کر کچھ مخصوص لوگوں کی نشستیں محفوظ کی گئی ہیں۔

اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے مسئلے کو حلقہ بندیوں سے متعلق ایوان کی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت اس مسئلے کو حکومت سندھ کے ساتھ اٹھائے گی۔ صوبائی وزراء میر عاصم کرد گیلو اور پرنس احمد علی بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی حکومت اس مسئلے پر چپ نہیں رہے گی اور نقشے منگوا کر اس مسئلے کو ہر فورم پر اٹھاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ بلوچستان کی حدود میں کسی قسم کی تجاوزات نہ ہونے پائیں۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے حلقہ بندیوں پراپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی نئی حلقہ بندیوں میں بلوچستان کے علاقوں کو سندھ میں شامل کرنا ناانصافی ہے۔ بلوچستان کے وسائل کو مالِ غنیمت سمجھ کر ہر کوئی لوٹ رہا ہے۔ ہمیں سندھ والوں سے اس کی توقع نہیں تھی کوئی اور ہوتا تو الگ بات تھی کیوںکہ ہم پر جو سخت وقت گزر رہا ہے وہی سندھ والوں پر بھی گزرا ہے۔ اس لیے سندھ والوں کی جانب سے بلوچستان کے ساتھ ایسا اقدام کرنا باعث تعجب ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم بلوچستان کی زمین کا ایک انچ بھی کسی کو نہیں دیں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی حد بندیوں کو مقامی افراد کی جانب سے مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ڈھاڈارو سمیت تمام موضع جات بلوچستان اور ڈسٹرکٹ خضدار کا حصہ ہیں۔ سندھ حکومت وسائل پر قبضہ کرنے کی خاطر ان علاقوں کو سندھ کا حصہ قرار دینے کی ناکام کوششیں کررہی ہے۔

جمعیت علماء اسلام کے مرکزی نائب امیر اور رکن قومی اسمبلی مولانا قمر الدین نے ضلع خضدار کے علاقوں ڈھاڈارو اور کتے کی قبر کو صوبہ سندھ کے علاقے شہداد کوٹ میں شامل کرنے کو لوگوں کے احساسات اور جذبات سے کھیلنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ضلع خضدار کے آباد اور وسائل سے مالا مال علاقے ڈھاڈارو اور کتے کی قبر کو صوبہ سندھ کے انتخابی حلقے شہداد کوٹ قمبر میں شامل کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن، حکومتِ سندھ کی کچھ شخصیات کے توسط سے یہ نہیں چاہتا کہ ملک کے تمام صوبے اپنی جغرافیائی حدود میں رہ کر ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ تعلق قائم کریں۔

مولانا قمر الدین نے الزام عائد کیا کہ حکومت سندھ ایک سازش کے تحت بلوچستان کے سرحدی علاقوں، جہاں جہاں قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں، کو بلوچستان سے الگ کرکے سندھ میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ شہداد کوٹ قمبر، پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کا حلقہ انتخاب ہے۔ کتے کی قبر کے علاقے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں گیس کے ذخائر موجود ہیں۔

علاقہ مکینوں کے مطابق تحصیل کرخ کے موضع جات میر گل، چھبوں، ڈھاڈاھارو، دشت لک، گھنٹے سور، کھیڑا، کھچانڈو، کرچھہ، لڑنگ، مننے والا کچھ، چھوٹا پھوڑ، ٹوٹھہ، شوق بارگ، وہڈھ، کھوزئی کو ضلع خضدار سے انتخابی حلقے سے نکال کر شہداد کوٹ قمبر حلقہ 203 میں شامل کردیا گیا ہے، جو عوام کی مرضی و منشاء کے خلاف ہے۔ علاقہ مکینوں کے مطابق یہاں قدرتی وسائل زیادہ ہیں برادر صوبے کے وسائل پر قبضہ کرنے کی روایات نہ صرف صوبائی نفرتوں میں اضافہ کرے گی، بلکہ دو برادر اقوام کو بھی مدمقابل کرے گی۔

اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں پٹیشن دائر کرنے والے ڈھاڈارو کے رہائشی ڈاکٹر خلیل احمد بہلول کا کہنا ہے کہ ان علاقوں سے منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندے ڈسٹرکٹ کونسل خضدار کے معزز رکن ہیں، ان علاقوں کے فوجداری مقدمات بھی لیویز تھانہ کرخ میں درج ہیں۔ ڈھاڈارو کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے علاقے کو سندھ میں شامل کرنے کے ذمے دار الیکشن کمیشن آف پاکستان اور صوبہ سندھ ہیں۔ ڈھاڈارو کے علاقے سمیت مختلف موضع جات کو سندھ میں شامل کرنے کے خلاف مختلف سیاسی جماعتوں جن میں بی این پی (مینگل ) جمعیت علمائِ اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں نے شدید احتجاج کیا اور احتجاجی ریلی نکال اور جلسے جلوسوں کا انعقاد کرکے اپنی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان میں رواں برس مارچ میں مردم شماری کے بعد سے بظاہر سب سے بڑا انتخابی مسئلہ حلقہ بندیوں کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو اس کا پابند نہیں بنایا گیا ہے کہ حلقہ بندیوں پر عام عوام سے رائے لے آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ ہر مردم شماری کے شائع شدہ سرکاری اعدادوشمار کی بنیاد پر وفاقی اکائیوں کے درمیان پارلیمانی نشستوں کا تعین کیا جانا چاہیے۔ ماہرین کے مطابق یہ فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ہے کیوںکہ اس کے لیے ہر مردم شماری کے بعد آئینی ترمیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ حلقہ بندیوں کے لیے پاکستانی قانون میں ڈی لمیٹشن آف کانسٹیچوینسیز ایکٹ 1974 ہے۔ اس میں پارلیمان ترامیم اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کئی تبدیلیاں متعارف کروائی گئی ہیں۔

لیکن اس میں کئی ابہام ہیں جیسے کہ ہر حلقہ جغرافیائی طور پر ‘جہاں تک ممکن ہو’ کی شرط پر ایک جگہ ہونا چاہیے۔ لیکن قبائلی علاقوں میں تو ایک حلقے کے مختلف علاقوں پر پھیلے ہونے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ جغرافیائی طور پر حلقہ ایک جگہ ہی ہونا چاہیے۔ ہر حلقے میں ووٹروں کی تعداد میں برابری کا فقدان ہے بلوچستان میں پانچ اضلاع پر مشتمل قومی اسمبلی کی ایک نشست رقبے کے لحاظ سے صوبے خبیر پختونخواء کے برابر ہے۔ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو اس کا پابند نہیں بنایا گیا ہے کہ حلقہ بندیوں پر عام عوام سے رائے لے۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ عوامی رائے کے بغیر کی جانے والی حلقہ بندیوں پر تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔