سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں مزدوروں کے حقوق کاتحفظ شامل کریں!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 30 اپريل 2018
’’مزدوروں کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

’’مزدوروں کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

یکم مئی کودنیا بھر میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مزدور رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سید مشتاق حسین شاہ ( صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) لیبر ونگ پنجاب)

حکومت نے عوام سے جو وعدے کیے تھے ان میں سے بیشتر پورے کردیئے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کی قیادت میں مزدوروں کے حوالے سے تندہی سے کام ہو رہاہے۔ بھٹہ مزدوروں کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب نے بے شمار اصلاحات کی ہیں جو قابل تعریف ہیں۔ بھٹہ مزدوروں کو ایک بچے کا 2 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس 90ہزار بھٹہ مزدور بچوں کو سکولوں میں داخل کروایا گیا۔ اس کے علاوہ ورکشاپس و دیگر دکانوں پر کام کرنے والے 60 ہزار بچے بھی سکول داخل کروائے گئے جنہیں مفت کتابیں، یونیفارم، ٹرانسپورٹ و دیگر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ میاں شہباز شریف کے گزشتہ 10 سالہ حکومتی ادوار میں مزدوروں کے حوالے سے مختلف اصلاحات لائی گئیں۔ چند برس قبل ڈیفنس روڈ پر بذریعہ قرعہ اندازی مزدوروں کو فرنشڈ فلیٹس دیے گئے۔ اسی طرح اب ایک بہت بڑا منصوبہ سندر روڈ پر شروع کیا گیا ہے۔ 2015 ایکڑ زمین پر 10 ہزار فلیٹس تعمیر کیے جارہے ہیں جو مالکانہ حقوق پر مزدوروں کو بذریعہ قرعہ اندازی دیے جائیں گے۔ پہلے فیز میں 2900 فلیٹس تعمیر کیے جائیں گے۔ اس منصوبے پر 7.6 بلین روپے لاگت آئے گی۔ چودھری پرویز الٰہی نے ایک آرڈر کے ذریعے فیکٹریوں کی انسپکشن بند کردی تھی مگر ہماری حکومت نے مزدوروں کے تحفظ کیلئے اسے دوبارہ بحال کیا۔ چھوٹے کسانوں کے حوالے سے بھی وزیراعلیٰ پنجاب نے بہت اچھے اقدامات اٹھائے ہیں۔ کیڑے مار ادویات وکھاد کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زائد کمی کی۔ اس کے علاوہ فارم ٹو مارکیٹ کارپٹ سڑکیں تعمیر کی گئیں جس سے کسانوں کی سہولت میں اضافہ ہوا۔گندم کی 1300 روپے فی من ریٹ پر خرید شروع ہوگئی ہے جبکہ بعض جگہ آڑھتی کم ریٹ پر زمینداروں سے گندم خرید رہے ہیں۔ کسی بھی سہولت سے فائدہ اٹھانے کیلئے آگاہی بہت ضروری ہے، اس حوالے سے بھی کام ہورہا ہے جبکہ بعض جگہ کسانوں کی جانب سے بھی کوتاہیاں ہیں کہ وہ خود کو اس عمل کا حصہ نہیں بناتے۔ 2008ء میں مزدور کی کم از کم تنخواہ 4800 روپے تھی جسے مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور کے مطابق بڑھا کر گزشتہ برس 15 ہزار روپے کر دیا۔ رواں برس بھی مزدور کی کم از کم اجرت میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مزدوروں کی فلاح کیلئے ہیلتھ اینڈ سیفٹی بل اسمبلی سے پاس کروالیا جائے گا، جس پر عملدرآمد سے مزدوروں کی حالت بہتر جائے گی۔

خورشید احمد ( سیکرٹری جنرل آل پاکستان ورکرز فیڈریشن)

آئین پاکستان مزدور سمیت تمام پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے جن میں تعلیم، صحت، یکساں سلوک، انجمن سازی و دیگر حقوق شامل ہیں۔  بدقسمتی سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی حکومتوں کی وجہ سے گزشتہ 70 برسوں سے مزدوروں کا استحصال ہورہا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری ریاست، آئین پاکستان اور ILO کنونشن کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔ افسوس ہے کہ خود  حکومت کے اپنے اداروں میں ٹریڑ یونینز پر پابندی ہے۔زرعی شعبے میں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی یونین نہیں بنا سکتے۔ ILO کی رپورٹ کے مطابق لاکھوں مزدوروں کے تحفظ کے لیے صرف 572 لیبر آفیسر ہیں جو انتہائی کم ہیں۔ILO کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ حادثات بلوچستان کی کانوں میں ہوتے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ وہاں سیفٹی قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوتا؟ حکومت کو چاہیے کہ پبلک و پرائیویٹ سیکٹر میں مزدور یونینز یقینی بنائے تاکہ مزدوروں کو تحفظ حاصل ہوسکے۔جو مالکان مزدوروں کو سوشل سکیورٹی میں رجسٹر نہیں کرواتے ، ان کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ ایک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سوشل سکیورٹی نیٹ سے خارج کردیا جاتا ہے حالانکہ اس عمر میں اس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔عالمی کنونشن 144 کے مطابق سماجی ، معاشی، ملازمت، تحفظ و دیگر اہم ایشوز پر سہ فریقی کانفرنس بلانا لازمی ہے مگر اس پر عمل نہیں ہورہا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک مزدوروں کی شنوائی نہیں ہوگی، انہیں حقوق نہیں ملیں گے تب تک جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ میرا سیاسی جماعتوں سے مطالبہ ہے کہ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے ،نوجوانوں کو باعزت روزگارکی فراہمی، خواتین کو تحفظ اور جبری مشقت کے خاتمے کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کریں۔

آئمہ محمود (سیکرٹری جنرل آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن)

ہم نے انگریزوں سے آزادی تو حاصل کرلی مگر بدقسمتی سے آج بھی ملک میں انگریز دور کے قوانین رائج ہیں۔ مزدوروں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے فیکٹری ایکٹ 1934ء چند ترامیم کے ساتھ ملک میں لاگو ہے۔ اسی طرح دیگر پرانے قوانین موجود ہیں جن کے ذریعے مزدوروں کو تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے مگر ان سے مزدوروں کا استحصال ہورہا ہے۔ اس وقت پاکستان 68.3 ملین ورکرز کے ساتھ لیبر کے حوالے سے دنیا کا 9واں بڑا ملک ہے۔ ہماری 44 فیصد لیبر فورس کا تعلق زراعت سے ہے ۔ جی ڈی پی کا 24 فیصد زراعت سے حاصل ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے زرعی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں پر لیبر لاء ہی لاگو نہیں ہوتے۔ ہمارے مزدوروں کو سوشل سکیورٹی، ای او بی آئی، کم از کم تنخواہ اور تنظیم سازی سمیت دیگر حقوق حاصل نہیں ہیں۔صرف20 فیصد مزدور فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں جن پر لیبر لاء لاگو ہوتاہے ا ور انہیں یہ تمام حقوق حاصل ہیں۔ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ رواں برس بیروزگاری کی شرح 5.9 فیصد ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان اپنی قابلیت اور تعلیم سے کم پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے اعداد و شمار دیکھیں تو 11 ملین بچے مزدوری کر رہے ہیں۔ خواتین کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ صرف 28 فیصد خواتین لیبر فورس میں شامل ہیں۔ بدقسمتی سے 80 فیصد خواتین غیر رسمی شعبے میں کام کررہی ہے اور حکومت کے پاس ان کا کوئی اندراج نہیں ہے۔ فیکٹری مزدور ہونے کے باوجود ٹھیکیداری نظام کے باعث انہیں تقرر نامہ نہیں ملتا جس کی وجہ سے وہ نہ تو کسی یونین کا حصہ ہیں اور نہ ہی انہیں حکومت کی جانب سے دیگر مزدوروں کو فراہم کیے جانے والے حقوق حاصل ہیں۔ مزدوروں کی صورتحال، مزدوروں کے حوالے سے کام کرنے والے تمام اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ہیلتھ ایند سیفٹی کے حوالے سے دیکھیں توسالانہ ہزاروں مزدوراموات کا شکار ہورہے ہیں جبکہ ان کی معذوری کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔فیکٹریوں میں جب حادثات ہوتے ہیں تو پھر حکومت کو خیال آتا ہے کہ انسپکشن ہونی چاہیے۔ افسوس ہے کہ فیکٹری مالکان سوشل سکیورٹی میں مزدوروں کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے، زیادہ تر رجسٹریشن جعلی ہوتی ہے۔ مالکان اپنے رشتہ داروں کو سوشل سکیورٹی میں رجسٹرڈ کرواتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ صرف پنجاب میں ایک ملین مزدور سوشل سکیورٹی کے ساتھ رجسٹرڈ ہے جن میں سے سب کو سہولیات نہیں ملتی کیونکہ بعض جگہ وسائل و سہولیات کی کمی ہے لہٰذا معاملات کو مزید بہتر کیا جارہا ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے قائم کردہ لیبر انسپکشن کا طریقہ کار  ILO کنونشن سے متصادم ہے۔ ہمارا ہمیشہ حکومت سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ ہیلتھ اینڈ سیفٹی اور لیبر انسپکشن کو  ILO کے مقرر کردہ معیار کے مطابق بنایا جائے۔  سیاسی جماعتوں اور پالیسی سازاداروں میں مزدوروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ طے ہوا تھا کہ سہ فریقی کانفرنس ہوا کرے گی مگر گزشتہ کئی برسوں میں وزارت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ ڈومیسٹک ورکرز کی ملک بھی بڑی تعداد ہے، ان کی یونین تشکیل پاچکی ہیں لیکن ابھی تک ان کے سوشل سکیورٹی کارڈ کے حوالے سے کوئی طریقہ کار نہیں بنایا جاسکا۔ کسی بھی حکومت نے مزدوروں کو ان کے حقوق فراہم نہیں کیے۔ میں مزدور تنظیموںکی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں کہ مشکل ترین حالات میں بھی انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا اور ابھی تک مزدوروں کے حقوق کیلئے کام کررہی ہیں۔ افسوس ہے کہ مزدور یونینز میں خواتین کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ صرف 1 فیصد خواتین یونینز میں ہیں جس کی وجہ سے ان کے مسائل حل نہیں ہورہے لہٰذا خواتین کو فیصلہ سازی میں مناسب نمائندگی دی جائے۔ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کیلئے انہیں پالیسی ساز ایوانوں میں نمائندگی دی جائے۔

ممتاز مغل (ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن )

لیبر موومنٹ مزدوروں کے تحفظ کیلئے شروع ہوئی اور اسے سماجی و صنفی مساوات کے تناظر میں دیکھا جائے۔پنجاب کی لیبر پالیسی میں فیکٹری ورکرز، ڈومیسٹک ورکرز اور ہوم بیسڈ ورکرز کا احاطہ کیا گیا اور کہا گیا کہ زرعی شعبے میں کام کرنے والوں کو بھی مزدور تسلیم کیا جائے گا اور ایسا مرحلہ وار ہوگا۔ افسوس ہے کہ فیکٹری مزدوروں کے علاوہ دیگر شعبوں پر قوانین محنت لاگو نہیں ہوتے ۔ مزدوروں کی ایک بڑی تعدادزرعی شعبے میں کام کر رہی ہے لیکن حکومت کے پاس کوئی طریقہ کار نہیں ہے کہ کس طرح انہیں لیبر لاء کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ ہوم بیسڈ ورکرز اور ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے جاری کردہ حکومتی پالیسی پر ہمیں تحفظات ہیں کیونکہ ان ملازمین کے تحفظ کا طریقہ کار تسلی بخش نہیں ہے۔ ملک بھر میں ورکرز کے حقوق پامال ہورہے ہیں اور انہیں کم از کم اجرت بھی نہیں مل رہی۔ زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو ان کے حقوق نہیں مل رہے، ہم اس حوالے سے حکومت کے ساتھ ملکر کام کررہے ہیں تاکہ زرعی مزدوروں کو لیبر لاء کے تحت تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ مرد و خواتین کے اوقات کار میں فرق ہے، انہیں ایک سا معاوضہ نہیں ملتا جبکہ خواتین کو ملازمت کی جگہ پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے، انہیں ٹرانسپورٹ کامسئلہ بھی درپیش ہے لہٰذا حکومت کو ان تمام مسائل کے حل پر توجہ دینا ہوگی۔ زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو آگاہی نہیں ہے، مزدوروں کے لیے کام کرنے والے اداروں کو بھی یہ احساس نہیں ہے کہ انہیں منظم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کا حکومتی پالیسیوں پر عدم اعتماد بھی ہے جس کی وجہ سے وہ حکومتی اعلانات پر توجہ نہیں دیتے۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں کسان، مزدور نشستیں ہونے کے باوجود ان کی آواز موثر نہیں ہے۔ میرے نزدیک لیبر یونینز کو زرعی مزدوروں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ کاشتکار خواتین کو مارکیٹ میں مسائل درپیش ہیں، ان کے پاس اس حوالے سے نہ تو کوئی سہولیات ہیں اور نہ ہی آگاہی، انہیں اجناس کے ریٹ کے مسائل کا سامنا ہے، انہیں بینک سے قرضے بھی نہیں ملتے لہٰذا پرائس کنٹرول کمیٹیوں میں خواتین کی شمولیت کے ساتھ ساتھ انہیں بینک سے قرضے بھی فراہم کیے جائیں اور کسان مزدور خواتین کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے۔سوشل سیفٹی نیٹ کااچھا نظام لانے کی ضرورت ہے ۔ اس کیلئے لیبر ڈیپارٹمنٹ میں ایسا ونڈو سسٹم بنایا جائے جہاں خواتین خود کو بطور مزدور رجسٹرڈ کروائیں، وہ اپنی آمدن کا کچھ حصہ حکومت کو دیں اور پھر انہیں 55 برس کے بعد پنشن دی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔