پاک بھارت جامع مذاکرات بحال ہونے چاہئیں

بھارتی وفد نے تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے راہ ہموار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔


Editorial May 03, 2018
بھارتی وفد نے تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے راہ ہموار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ فوٹو: فائل

میڈیا کی اطلاع کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے پہلے قدم کے طور پر ٹریک ٹو سفارت کاری کا آغاز ہو گیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے حوالے سے پاکستانی اخبارات نے یہ خبر دی ہے کہ ''نیمرانا ڈائیلاگ '' کے تحت بھارت کے سابق سفارت کاروں، ریٹائرڈ فوجی افسران اور تھنک ٹینکس سے تعلق رکھنے والے بین الاقوا می تعلقات کے ما ہر ین نے 28 سے 30 اپریل تک پاکستان کا 3 روزہ دورہ کیا۔ اس ڈائیلاگ کے تحت دونو ں ممالک کے مابین باہمی تعلقات کی بحالی کے لیے مختلف تجاویز پر غورکیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق غیر سرکاری سطح کی اس بات چیت میں بھارتی وفدکی قیادت سابق سیکریٹری خارجہ اور پاکستانی امورکے ماہر ویوک کاتجو نے کی۔ پا کستان کی جانب سے سابق سیکریٹری خارجہ انعام الحق اور عشرت حسین سمیت پاک بھارت تعلقات کے ماہرین نے شرکت کی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینلز سے گفتگو کا آغاز ہونا، ایک اچھی اور مثبت پیش رفت ہے اور اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔

بھارتی اخبار کے حوالے سے خبر میں یہ کہا گیا ہے کہ نیمرانا ڈائیلاگ کے تحت رابطے سے دکھائی دیتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ بات چیت شروع ہونے کا بھی امکان موجود ہے تاہم بھارت اس کے لیے پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کا انتظار کرے گا۔

بھارتی وفد نے تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے راہ ہموار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا اور بھارتی قیادت پاکستان کی طرف سے بھی مثبت جواب کی توقع کر رہی ہے۔ اگر حالات پر غور کیا جائے تو باہمی مذاکرات کا سلسلہ بھارت نے ہی توڑا اور اگر بھارت بیک چینل مذاکرات میں پیش پیش ہے تو پھر پاکستان لازمی طور پر مثبت جواب دے گا۔ پاکستان نے تو کبھی مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے انکار ہی نہیں کیا۔

پاکستان میں سابق بھارتی ہائی کمشنرٹی سی اے راگھوان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے غیرسرکاری مذاکرات کاسلسلہ جاری رہنا بہت ضروری ہے۔ واضح رہے کہ نیمرانا ڈائیلاگ ایک غیر سرکاری فورم ہے جس کا آغاز 25 سال قبل ہوا تھا جب دونوں ممالک نے نیمرانا قلعہ میں مذاکرا ت کیے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ مہینوں میںسفارتی سطح پربھی اس وقت تناؤ میں اضافہ دیکھاگیاجب نئی دہلی میں پاکستانی سفارتی عملے کوہراساں کیے جانے کے واقعات سامنے آئے۔

بہرحال دونوں ملکوں کی قیادت کو چاہیے کہ وہ خطے کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے باقاعدہ مذاکرات کا آغاز کریں۔ دونوں ملکوں کی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ ایک دوسرے سے لاتعلق رہ کر یا ایک دوسرے سے قطع تعلق کر کے اس خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ آج کی دنیا ایک دوسرے پر زیادہ سے زیادہ انحصار کی بنیاد پر تعلقات استوار کر رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں