وفاقی وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملہ

وزیرداخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ سے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔


Editorial May 08, 2018
وزیرداخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ سے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ فوٹو: فائل

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ملکی سیاسی صورتحال کے ہیجانی سیاق وسباق ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، جس سے داخلی سیکیورٹی میں مضمر خطرات کے ان گنت سلسلہ ہائے دور دراز کی نشاندہی ہوتی ہے۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس واردات کے ذریعہ بیلٹ کا راستہ بلٹ سے روکنے کی ایک گھناؤنی کارروائی ہے، جس کی شفاف اور بلاتاخیر تحقیقات کے بعد ہی حقائق سامنے آسکتے ہیں، اس سے قبل کسی قسم کی قیاس آرائی کرنا، قرائنی اندازے قائم کرنا اور اقدام قتل کے محرکات پر بحث کا پینڈورا باکس کھولنا کسی طرح مناسب اور قومی مفاد میں نہیں، وقوعہ کی سنگینی اور قتل کی دیدہ دلیرانہ واردات بلاشبہ ریاستی اداروں کے انتباہ جب کہ ن لیگ اور تمام سیاسی جماعتوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔

ملزم معاشرہ کی سیاسی فضا میں ایک چلتا پھرتا غیر محسوس بارودی ہیولہ ہے جو کسی کو نظر آئے بغیر اجتماع میں چھپ کر بیٹھ گیا، ایسے بارودی بگولوں کے رقص میں پرامن اور شفاف انتخابات کسی چیلنج سے کم نہ ہوں گے، نارووال سانحہ سے سبق لینے کے کئی ابواب کھلے ہیں۔

سیاسی، مذہبی اور دینی جماعتیں غیر قانونی اور انسان دشمنی پر مبنی رویوں کی حوصلہ شکنی کریں، ان پر لازم ہے کہ وہ سیاست میں در آنے والی سیمابیت، غضبناکی، جذباتیت اور عدم رواداری و برہمی کے جملہ عناصر کی اپنے جمہوری اور سیاسی طرز عمل سے روک تھام کریں، مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے بہت مناسب بات کی کہ اسلام کسی انسان کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا، اسلام میں تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے بلکہ کوئی بھی مذہب قتل وغارت اور تشدد و ایذارسانی کو جائز نہیں سمجھتا ہے، مذہبی اکابرین نے قاتلانہ حملہ کو ملک پاور نظام پر حملہ قرار دے کر قوم کی امنگوں کی صحیح ترجمانی کی ہے۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر محب وطن پاکستانی کو اس حقیقت کو کھلی آنکھ سے پرکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ چار طرف سے وطن عزیز کا محاصرہ کیے جانے کی سازشیں عروج پر ہیں، اندرکا دشمن بے تاب ہے، وارداتوں کا تسلسل جاری رکھنے میں کامیاب ہوا تو بڑی تباہی آسکتی ہے۔

اپنے انتخابی منشور کی اساس حکمت عملی طے کی جارہی ہے، اس میں اس بات کی صد فی صد ضمانت ووٹرز کو ملنی چاہیے کہ کسی قسم کی انفرادی اور اجتماعی مہم جوئی کی آیندہ کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی اور انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کے لیے تمام انتظامات مکمل رکھے جائیں۔ یہ ایک ہائی پروفائل سیاسی شخصیت کی زندگی کا سوال ہے، موت اس کو قریب سے چھو کر گزر گئی، قاتل کی گولی اپنی سمت تبدیل کرتی تو جان لیوا ثابت ہوسکتی تھی۔

میڈیا کے مطابق لاہور سروسز اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر امیر نے بتایا ہے کہ احسن اقبال کے علاج کے لیے 5 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا ہے، ان کے پیٹ کی گولی نہ نکالنے پر اتفاق رائے ہے کیونکہ اس سے ان کی سرجری میں پیچیدگی بھی پیدا ہوسکتی ہے، جب کہ تحقیقات میں پیش رفت ہوئی ہے، پولیس کے مطابق ایک اور ملزم عظیم کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جو ملزم عابد حسین کے ساتھ جلسہ گاہ میںآیا تھا اور وقوعہ کے بعد غائب ہوگیا تھا۔

پولیس کو دستیاب شواہد کے مطابق ملزم نے 30 بور کا پستول اپنے ایک پڑوسی سے خریدا تھا۔ ملزم عابد نے کا کہنا ہے کہ احسن اقبال ہی ان کا ٹارگٹ تھے، ملزم کی ایک مذہبی تنظیم سے وابستگی کی بھی خبر میڈیا نے دی ہے۔

اب اعلیٰ تحقیقات کے بعد حقیقی صورتحال سامنے آسکے گی، تاہم صائب ہوگا کہ ارباب اختیار ملکی سیاست کی حساسیت اور تشدد آمیز رجحان کا ادراک اور اس کا سدباب کرتے ہوئے فوری اقدام کریں اور قوم کو باور کرائیں کہ آیندہ انتخابات کے لیے جمہوری سپرٹ، مکمل رودارانہ اور پرامن ماحول میں ووٹنگ کو یقینی بنایا جائے گا۔ اب کسی قسم کے تشدد، سبوتاژ، قتل وغارت، ٹارگٹ کلنگ کی گنجائش نہیں۔

قبل از پولنگ پرتشدد سیاسی شو ڈاؤن کے اندیشے سر اٹھانے لگے ہیں۔ بلاشبہ آیندہ الیکشن کے حوالے سے ملک کے فہمیدہ حلقوں میں یہ پہلا ردعمل اور تاثر تھا جو وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کے بعد میڈیا میں آیا۔

دوسرے لفظوں میں یہ سیاسی اور غیر اعلانیہ انتخابی عمل کے لیے بلاواسطہ دھچکا بھی ہے، جس کے لیے نارووال جلسہ کے اختتام پر واپس جاتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ کو بیس سالہ عابد حسین نوجوان نے ٹارگٹ کیا، اس میں ملفوف انداز میں سیاست دانوں کو انتباہی پیغام دیا گیا کہ وہ سیاست کے دشت نما میں محتاط رہتے ہوئے اپنی انتبخابی مہم چلائیں، کیونکہ اس پرخطر راستے میں ہمہ اقسام کے جان لیوا خطرات ان کا تعاقب کرتے رہیں گے۔ بعینہ یہ ایک طرح سے 2013 اور 2010 کے انتخابات کا ری پلے ہوگا جس میں غیر معمولی تشدد کے ان گنت واقعات نے الیکشن کو خانہ جنگی جیسی صورتحال سے دوچار کردیا تھا۔

اخباری اطلاعات کے مطابق حملہ آور عابد حسین نے وزیر داخلہ اقبال احسن پر نارووال کے نواحی علاقے کنجروڑ میں تقریب سے واپسی پر قریب سے فائرنگ کردی جس سے گولی ان کے بازو سے گزرتے ہوئے اس کی ہڈی کو توڑ کر پیٹ میں چلی گئی، موقع پر موجود ایلیٹ فورس کے اہلکاروں نے پہلی گولی چلانے کے بعد فوری طور پر حملہ آور کو موقع پر گرفتار کرلیا، وزیرداخلہ کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں طبی امداد کے بعد ان کو ہیلی کاپٹر پر لاہور کے سروسز اسپتال میں منتقل کردیا گیا ہے، جہاں ڈاکٹرز نے آپریشن کرکے گولی نکال دی ہے اور ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔

ملزم عابد کا تعلق نارووال کے ہی قریبی علاقے سے ہے اور مذہبی جماعت کا کارکن بتایا جاتا ہے، مقامی پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ وفاقی وزیر ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ صدر ممنون حسین، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، سیاسی رہنماؤں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف زرداری، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، امیرجماعت اسلامی سراج الحق و دیگر نے اتوار کو نارووال میں وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔

ادھر وزیرداخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ سے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، قائد ن لیگ نوازشریف کی سربراہی میں پارٹی کا آج اعلی سطحی اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ اس تشویش کا دائرہ وسیع تر ہونا چاہیے تاکہ تمام ریاستی ادارے مل بیٹھ کر جنونی عناصر کا راستہ روکیں، موسمیاتی تغیرات کی طرح سیاست میں بھی معیار، شرافت اور فکر و تدبر کی نمایاں تبدیلی نظر آنی چاہیے، اہل اقتدار اور سیکیورٹی حکام اس حقیقت کا جلد ادراک کریں کہ آیندہ انتخابات سے قبل ماحول انتہاپسندوں کے لیے نو گو ایریا بن جائے، ملک دشمن خواہ کسی رنگ و روپ میں ہوں انھیں ان کی پچ پر شکست ہونی چاہیے، ملکی سالمیت اور جمہوری نظام کے تحفظ اور عوام کی امنگوں کی رکھوالی پر مامور اہل اقتدار اس عبوری دورانئے میں چشم کشا فیصلے کریں، تاکہ وطن عزیز کے 21 کروڑ انسان چین سے زندگی بسر کریں۔ سیاست تو ہوتی رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں