- چار ماہ سے اسرائیل میں قید الشفا اسپتال کے معروف ڈاکٹر عدنان جاں بحق
- لاہور میں فری وائی فائی سروس کے مقامات کو دگنا کردیا گیا
- حافظ نعیم سے محمود اچکزئی، اسد قیصر کی ملاقات، احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت
- شادی میں فائرنگ سے مہمان جاں بحق، دلہا سمیت 4 افراد گرفتار
- پی ایس ایل2025؛ پی سی بی نے آئی پی ایل سے متصادم تاریخیں تجویز کردیں
- پی ایس ایل2025 کب ہوگا؟ اگلے ایڈیشن کیلئے نئی ونڈو کی تاریخیں سامنے آگئیں
- سونے کی عالمی سطح پر قیمت میں اضافہ، مقامی مارکیٹ میں سستا ہوگیا
- قطر امریکی دباؤ پر حماس قیادت کو ملک سے بے دخل کرنے پر تیار ہوگیا، اسرائیلی میڈیا
- کراچی؛ پیپلزبس سروس میں اسمارٹ کارڈ سے ادائیگی کا نظام متعارف
- محسن نقوی کی اسٹیڈیمز کی اَپ گریڈیشن کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت
- پولیس کی زمینوں پر پیٹرول پمپ، دکانیں، فلیٹ اور دفاتر کی تعمیر کا انکشاف
- ضبط کی جانیوالی اسمگل گاڑیوں کی کم قیمت پر نیلامی کا انکشاف
- 9 ماہ میں 6.899 ارب ڈالرکی غیرملکی معاونت موصول
- پاکستان کے اخراجات آمدنی سے زیادہ ہیں، عالمی بینک
- کینیڈا میں خالصتان رہنما ہردیپ کے قتل میں ملوث 3 بھارتی گرفتار
- سمیں بلاک کرنے میں رکاوٹ بننے والوں کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- پی آئی اے کی خریداری میں مقامی سرمایہ کاروں کی بھی دلچسپی
- شعبۂ صحت میں پاکستان کا اعزاز، ڈاکٹر شہزاد 100 عالمی رہنماؤں میں شامل
- دورہ آئرلینڈ و انگلینڈ؛ کوچنگ اسٹاف کا اعلان ہوگیا
- ایف بی آر کا وصولیوں کیلیے جامع حکمت عملی وضع کرنیکا فیصلہ
موبائل فون کارڈز پر دہرا ٹیکس لگانا غیر قانونی ہے، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے ہیں کہ موبائل فون کارڈز پر دہرا ٹیکس لگانا غیر قانونی ہے۔
سپریم کورٹ میں موبائل فون کارڈ پر حد سے زیادہ ٹیکس کٹوتی پر از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ موبائل فون کے استعمال پر ودہولڈنگ ٹیکس کیسے لیا جارہا ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فون کارڈز اور ایزی لوڈ پر 12.7 فیصد ود ہولڈنگ ڈیوٹی اور 19.5 فیصد سیل ٹیکس کاٹا جاتا ہے، جبکہ 100 روپے کے کارڈ پر 10 فیصد سروس چارجز بھی وصول کیے جاتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سروس چارجز کیوں لیے جاتے ہیں؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کا جواب تو موبائل فون کمپنیاں ہی دے سکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کی وضاحت کریں تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت اور سفارتکاروں سے ود ہولڈنگ ٹیکس نہیں لیا جاتا۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے موبائل فون کارڈ پر ٹیکس کٹوتیوں کا از خود نوٹس لے لیا
چیف جسٹس نے پوچھا کہ موبائل کارڈ پر سیلز ٹیکس کیوں لگا دیا گیا تو ایف بی آر کے افسر نے بتایا کہ سیلز ٹیکس صوبے وصول کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے کس قانون کے تحت سیلز ٹیکس لگا رہے ہیں، کیا یہ ڈبل ٹیکس لگانا استحصال نہیں ہے، جو شخص ٹیکس دینے کا اہل نہیں اس پر ودہولڈنگ ٹیکس کیوں لگایا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 100 روپے کے کارڈ پر 42 فیصد پیسے ٹیکس کی مد میں کاٹ لئے جاتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس وہی شخص دے گا جو ٹیکس دینے کا اہل ہوگا، 14 کروڑ عوام سے ود ہولڈنگ ٹیکس کیسے لیا جا رہا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ غیر قانونی طریقے سے عوام سے پیسے نکلوانا ہے، جب کہ سروس چارجز بھی ایک قسم کا ٹیکس ہے۔ سپریم کورٹ نے سیلز ٹیکس پر صوبوں اور سروس چارجز پر موبائل کمپنیوں سے جواب طلب کر لیا جب کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے اطلاق پر ایف بی آر سے بھی جواب طلب کرلیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ڈیزل اور پٹرول پر ہوشربا ٹیکس کے اطلاق کا بھی نوٹس لینے کا عندیہ دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تو میں پٹرول اور ڈیزل کی طرف بھی آوٴں گا، پوچھا جائے گا پٹرول ڈیزل پر کتنا ٹیکس لگایا جاتا ہے۔
موبائل کارڈ کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔