اصغر خان کیس اہم پیش رفت

پی ٹی آئی کے رہنما شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اصغر خان کیس میں شامل لوگوں نے خود کوسستے داموں بیچا


Editorial May 09, 2018
پی ٹی آئی کے رہنما شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اصغر خان کیس میں شامل لوگوں نے خود کوسستے داموں بیچا۔فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کے فیصلے کے خلاف سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کی نظرثانی درخواستیں مسترد کر دیں جب کہ اٹارنی جنرل اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فیصلے پر عملدرآمد کے اقدامات کی تفصیلات طلب کرلی ہیں، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ6 سال سے عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا، عدالت ان افراد کا تعین کرے گی جنہوں نے عملدرآمد نہیں ہونے دیا، عدالت نے کوئی حکم امتناعی نہیں دیا لیکن اس دوران ایک سابق، ایک نگران اور موجودہ حکومت نے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا۔

اصغر خان کیس در حقیقت1990 کے دورانیے کے سیاسی سسٹم میں سٹیبلشمنٹ کی مداخلت ، پیسوں کے لین دین، آئی جے آئی کی تشکیل اور پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچانے کے ایک کثیر جہتی سیاسی منصوبے سے متعلق چارج شیٹ ہے جس میں ملک کے ممتاز اور بے داغ سیاست دان ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے اپنی افتاد طبع، ضمیر کی خلش اور سیاسی نظام میں نقب زنی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور استدعا کی کہ جن سیاست دانوں میں پیسے بانٹے گئے، ان کے اور پیسے بانٹنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے، جن سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے حوالے دیے گئے ان میں سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت نامی گرامی سیاست دانوں کے نام شامل ہیں جب کہ آئی جے آئی کے قیام اور رقم تقسیم کرانے والوں میں سابق صدر غلام اسحاق خان،آرمی چیف مرزا اسلم بیگ، سابق سربراہ آئی ایس آئی اسددرانی، ایم آئی چیف اور کچھ بیوروکریٹس شامل تھے، کیس کی تفصیل میڈیا میں آچکی ہے۔

2012 میں سپریم کورٹ اپنا فیصلے بھی دے چکی ہے، جس میں ریاستی اداروں کو سیاسی مداخلت سے گریز کی تلقین کرتے ہوئے حکومت کو ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا، مگر کسی حکومت نے اس فیصلہ کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور مصلحت آمیز طرز عمل نے بالآخر اسی فیصلہ کے دوررس تناظر میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بنچ نے پیر کو کیس کی سماعت کی، میڈیا کے مطابق مرزا اسلم بیگ کے وکیل نے التوا کی درخواست کی جسے عدالت نے مستردکردیا، چیف جسٹس نے اسلم بیگ کو روسٹرم پر بلالیا ، اسلم بیگ نے خود دلائل دیے اور کہا کہ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ بطور آرمی آفیسر اپنی آئینی ذمے داری سے کبھی انحراف نہیں کیا، الیکشن اور ان کے نتائج سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔

اصغر خان کے بیٹے کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا مقدمہ میں تین افراد اسلم بیگ، اسد درانی اور یونس حبیب کو فریق بنایا گیا ہے، یونس حبیب اس وقت حبیب بینک کے سربراہ تھے،1990 میں اسمبلی کو ختم کرکے دوبارہ الیکشن کرائے گئے اور فیصلہ ہوا کہ پیپلزپارٹی کے مخالف سیاستدانوں کو فائدہ دیا جائے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا خلاصہ یہ ہے کہ سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی گئیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا اسلم بیگ نے این جی او بنائی، تین کروڑ اسے بھی دیے گئے، چیف جسٹس نے کہا این جی او کو دی گئی رقم کی وصولی ہونی چاہیے تھی۔چیف جسٹس کے استفسار پر وکیل نے کہا کہ عدالت نے مختصر فیصلے میں1990کے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ نتائج کے لیے انتخابی عمل کو آلودہ کیا گیا اور سابق صدرکے خلاف اقدامات کا حکم دیا جو اس وقت دنیا میں نہیں ہیں۔

چیف جسٹس کا یہ استفسار چشم کشا ہے کہ فیصلہ اکتوبر 2012میں آیا، اتنا وقت گزرنے کے باوجود عملدرآمد کیوں نہیںکیا گیا، عدالت میں اٹارنی جنرل پیش ہوئے اور معلومات حاصل کرنے کے لیے 2روز کی مہلت کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اسد درانی نے تسلیم کیا کہ انھوں نے سیاست دانوں میں رقم تقسیم کی۔عدالت کو بتایا گیا کہ اسد درانی کو رقم تقسیم کرنے کی ذمے داری آرمی چیف نے سونپی، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یونس حبیب نے رقم لاکر دی اور ذمے داروں نے تقسیم کی،اصغر خان کے بیٹے کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا کہ اصغر خان کیس میں پیسے لینے اور دینے والوں ، سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی کے رہنما شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اصغر خان کیس میں شامل لوگوں نے خود کوسستے داموں بیچا، وزیر مملکت طلال چوہدری نے کہا کہ اصغر خان اور پرویز مشرف کیسوں میں عدالتی احکامات پر عملدرآمد ہوجائے تو سیاست میں اداروں کی مداخلت کے راستے بند ہوہوجائیں گے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2015 میں ایک انگریزی معاصر نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھاکہ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں اگر تحقیقات اور ٹرائل ہوجائے اور عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق اسلم بیگ اور اسد درانی کے حوالہ سے کارروائی ہو تو اس سے بہتر نظیر قائم ہوگی، فوج کا اعتبار بڑھے گا۔ آج بھی میڈیا پر سیاست دان اور ماہرین قانون اس استدلال کی شدو مد سے وکالت کررہے ہیں کہ اصغر خان کیس کی تحقیقات اور اس پر عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر عمل کرنے سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کی کئی زخم مندمل ہوسکتے ہیں۔

اس حقیقت کو پوار سیاسی سواد اعظم تسلیم کرتا ہے کہ آئی جے آئی کی تشکیل اور بے نظیر حکومت کو انتخابی دھچکا لگانے کی دخل اندازی ادارہ جاتی سطح پر سسٹم سے چھیڑ خانی کی بدترین کوشش تھی جس کے اثرات اور شرارے آج بھی ملکی سیاست کے وجود کو بھسم کرنے کے لیے بیتاب ہیں۔ عدلیہ نے اپنے اس وقت کے فیصلہ میں قراردیا تھا کہ وہ الیکشن فراڈ تھے، یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اہم شخصیات آئی جے آئی کی تشکیل کا فخریہ کریڈٹ لیتی تھیں، اس لیے وہ رقوم جو تقسیم ہوئیں ان کی واپسی ناگزیر ہے، یہ راز بھی ابھی سامنے آنا ہے کہ 14کروڑ میں سے کتنی رقم بانٹی گئی اور کن لوگوں نے بہ نفس نفیس وصولی کی، بیشتر سیاستدانوں کے بیانات میڈیا میں آئے کہ انھوں نے کوئی رقم نہیں لی،اس لیے عدالتی تحقیقات اور حتمی فیصلہ سے اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانا چاہیے۔

تاہم کیس کی حساسیت کے پیش نظر بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ماضی کے معاملات اور اسٹیبلشمنٹ کی فروگزاشتوں اور لغزشوں پر حرف گیری سے مبادا کہیں سویلین اور عسکری تعلقات اور ہم آہنگی کا میکنزم عدم توازن سے دوچار نہ ہوجائے، تاہم ملک کے فہمیدہ حلقوں کو یقین ہے کہ عدلیہ کے فیصلہ سے ملکی سیاست پر سے ایک بدنما داغ مٹ جائے گا۔

سیاسی اور جمہوری عمل میں شفافیت کے راستے کھل جائیں گے ، بہر حال اس اندیشہ کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاستدان اپنے جمہوری رویوں پر نظر ثانی کریں تو بہتر ہیں، ملکی سیاست کے اندھی گلی میں داخل ہونے سے پہلے ہی سیاست دان فروعی اختلافات سے بالاتر ہوں تاکہ عدالتی احکامات سسٹم کی شفافیت کے لیے نسخہ کیمیا ثابت ہوسکیں، سیاسی عمل میں توازن ،جوابدہی اور شفافیت سے گزر کر ہی گڈگورننس کا سفر بہ خیر و خوبی طے ہوسکتا ہے۔ اس باب میں اصغر خان کیس اس منجمد مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کا سبب بھی بنے گا جس کی نشاندہی سلمان اکرم راجہ نے کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں