جوابدہی جمہوری نظام کی اساس

اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو ملکی سیاست جوابدہی کے فقدان کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔


Editorial May 11, 2018
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو ملکی سیاست جوابدہی کے فقدان کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ فوٹو: فائل

ملکی سیاست، طرز حکمرانی اور کرپشن کے خلاف عدالتی و ادارہ جاتی تحقیقات میں بلاشبہ پیش رفت ہوئی ہے، کرپشن کی روک تھام کا کام آئینی اور قانونی تقاضوں کی روشنی میں جاری ہے مگر برس ہا برس سے جوابدہی کے حکومتی اقدامات کے فقدان کے باعث صورتحال اب ایک اجتماع تلاطم gathering storm کی ہوگئی ہے، ایک طرف نیب کی کارکردگی پر سیاسی حلقوں میں بحث ہو رہی ہے، الیکشن قریب آ پہنچے ہیں، عدالتوں میں کئی ہائی پروفائل کیسز کی سماعت ہو رہی ہے، سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور نیب عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کے فیصلوں پر عوام کی نظریں مرکوز ہیں جن کے فال آؤٹ سے سیاسی منظرنامہ میں قبل از انتخابات غیر متوقع تبدیلیوں کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔

گویا سیاست دانوں اور کرپٹ عناصر کے خلاف الزامات کی تحقیق و تفتیش نے سیاسی موسم خاصا گرما دیا ہے جب کہ عوام اور ووٹرز کی خواہش ہے کہ حکمرانی میں شفافیت اور کرپٹ مافیاؤں کی سرکوبی کے لیے کیسز کی آزادانہ و بلاامتیاز تفتیش بھی حد درجہ شفافیت کی مظہر ہونی چاہیے تاکہ نیب سمیت کسی بھی فورم پر تفتیش اور عدالتی پروسیس کو ناانصافی، دباؤ، ظلم اور انتقام سے تعبیر نہ کیا جا سکے۔

اس سیاق وسباق میں گزشتہ دو دنوں میں تفتیشی اور تحقیقاتی پیش رفت کے حوالہ سے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات سے متعلق نیب رپورٹ کی بازگشت پارلیمنٹ تک جا پہنچی۔

واقعات کے مطابق بدھ کوسابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسہ بھارت بھجوانے سے متعلق تحقیقات کے حوالے سے قومی احتساب بیورو (نیب)نے ایک پریس ریلیز جاری کی، بعد ازاں ایک وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ 8 مئی کو بیورو کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز ایک روزنامہ کے یکم فروری 2018ء کو شایع شدہ کالم کی روشنی میں جاری کی گئی۔

نیب نے اپنی وضاحت میں کہا کہ مبینہ میڈیا رپورٹ اور مذکورہ انکشافات کی بنیاد پر مبینہ طور پر شکایت کی جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات نیب کے دائرہ اختیار میں قانون کے مطابق شامل ہے۔

دریں اثنا صورتحال ڈرامائی طور پر فوراً تبدیل ہوئی اور ایک طرف عالمی بینک نے ایسی کسی رپورٹ کی تردید کر دی جب کہ دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعلامیہ میں خبر کی تردید آئی، اسٹیٹ بینک کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ پاکستان سے 9.4 ارب ڈالر نہیں بھیجے گئے، اعلامیہ کے مطابق 2015-16ء میں ایک لاکھ 16 ہزار ڈالر کی ترسیلات ہوئیں۔ اس بات کی وضاحت بھی کی گئی کہ اس رپورٹ میں نواز شریف اور پاکستان کا ذکر نہ تھا۔

اس صورتحال پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ میں اظہار خیال کیا، انھوں نے نیب کی طرف سے تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے نواز شریف پر منی لانڈرنگ کر کے رقم بھارت بھجوانے کے الزام پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ایک خصوصی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا اور کہا کہ پارلیمنٹ نیب سربراہ کو طلب کر کے ان سے ثبوت مانگے، تاہم اسی ضمن میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نیب کرپشن کے خلاف اپنا کردار ادا کرے اور انصاف کے تقاضے پورے کرے، ان کا موقف تھا کہ نواز شریف پر بھی نیب کی عدالتوں میں کیسز چل رہے ہیں، الیکشن سرپر ہیں، سارا معاملہ پری پول دھاندلی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔

ادھر بعض قانونی حلقوں نے نیب کی طرف سے پریس ریلیز کے اجرا اور وضاحت کو عجلت پسندی سے تعبیر کیا۔ لہٰذا اب صائب رائے یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن تفتیش اور نیب کی اتھارٹی کے حوالہ سے صورتحال کی گھمبیرتا کا ادراک کرتے ہوئے قانونی سقوم کے خاتمہ اور تفتیش و آئینی تقاضوں کے پیش نظر مسائل کا پارلیمنٹ کے اندر ہی حل نکالیں، کوئی پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہونی چاہیے، تفتیشی ادارہ کی طرف سے موقف آیا ہے کہ کسی کی تضحیک یا دل آزاری مقصود نہیں۔

اسی طرح پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر کی رائے مناسب تھی کہ وزارت خزانہ کی طرف سے مذکورہ رپورٹ کی پہلے سے چھان بین ہوتی تو معاملہ آگے نہ بڑھتا، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے نیب کی طرف سے نواز شریف پر منی لانڈرنگ کے ذریعے 4 ارب 90کروڑ ڈالر کی رقم بھارت بھجوانے کے نوٹس کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لیے وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد کو ہدایت کی کہ وہ اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کرکے انھیں جلد آگاہ کریں۔

اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو ملکی سیاست جوابدہی کے فقدان کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے، کوئی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں، بلیم گیم سے فضا مکدر ہے، جب کہ جوابدہی سے ذمے داری جنم لیتی ہے اور کسی عظیم رہنما کے قد و قامت کا پیمانہ ہی جوابدہی کے لیے ہمہ وقت رضامندی ہے۔

یہ بات سب کے ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ریاست اور حکومت آئینی تفتیشی اداروں اور عدلیہ کی آزادی کے بغیر دو قدم بھی جمہوری اسپرٹ کے ساتھ نہیں چل سکتے، ملک کثیر جہتی چیلنجز سے دوچار ہے، کرپشن کا ناسور اداروں کی جڑوں کو ہلا چکا ہے، جوابدہی کی اہمیت، ضرورت اور ذمے دارانہ طرز سیاست کے بجائے سیاست دان دن رات ''الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا'' کی افسوسناک روایت کے امین نہ بنیں۔ ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں ساری حکمرانی جوابدہی کے محور پر گھومتی ہے، کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہوتا، مگر ہم ''اَن ٹچ ایبلز'' کی رعونت سے چھٹکارا پانے کو تیار ہی نہیں، ایسا کب تک چلے گا؟ کچھ تو سوچئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں